English   /   Kannada   /   Nawayathi

جے این یو میں طلبا پر نقاب پوش غنڈوں کا حملہ ، جانیں کس نے کیا کہا

share with us

:06جنوری 2020(فکروخبر/ذرائع)دہلی واقع جواہر لال نہر ویونیورسٹی (جے این یو) میں اتوار کی شام ہوئے تشدد، ہنگامہ اور توڑ پھوڑ کے بعد ایک بار پھر دہلی پولس کٹہرے میں کھڑی نظر آ رہی ہے۔ مشہور و معروف سیاسی و سماجی ہستیوں کے ذریعہ دہلی پولس اور جے این یو انتظامیہ کے خلاف آواز بلند کی جا رہی ہے اور طلبا کی حمایت میں لگاتار بیان سامنے آ رہے ہیں۔ جے این یو میں نقاب پوش غنڈوں کی غنڈہ گردی کے بعد ملک بھر میں طلبا سڑکوں پر احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اس ہنگامہ کے بعد جے این یو کے وائس چانسلر نے طلبا سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’یونیورسٹی سبھی طلبا کے ذریعہ اکیڈمک سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کی سہولت مہیا کرنے کے لیے کھڑا ہے۔ ہم یہ یقینی بنائیں گے کہ ان کا سرمائی سیشن رجسٹریشن کے بغیر کسی رخنہ کے اختتام پزیر ہوگا۔‘‘

تصویر ٹوئٹر پر دیکھیں

 

دوسری طرف دہلی پولس نے جے این یو تشدد معاملے میں ایک مشترکہ ایف آئی آر درج کی ہے۔ یہ پورا معاملہ کرائم برانچ کے سپرد کیا گیا ہے اور تحقیقات شروع بھی ہو چکی ہے۔ پولس کا کہنا ہے کہ جے این یو میں اتوار کے روز ہوئے واقعہ سے متعلق کئی شکایتیں ملیں اور ان سب کو ایک ساتھ جوڑ کر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ پولس نے جے این یو انتظامیہ سے سی سی ٹی وی فوٹیج کا مطالبہ بھی کیا ہے تاکہ جانچ میں آسانی پیدا ہو سکے۔

تصویر ٹوئٹر پر دیکھیں

جے این یو تشدد کے بعد کئی سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں نے زخمی طلبا سے ملاقات کی۔ اس درمیان کانگریس پارٹی نے اس واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور دہلی کے کانگریس ہیڈ کوارٹر میں پارٹی ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے ایک پریس کانفرنس بھی کیا۔ اس پریس کانفرنس میں سرجے والا نے مرکز کی مودی حکومت کوپرزور طریقے سے تنقید کا نشانہ بنایا۔

رندیپ سرجے والا نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’’جے این یو میں جو کچھ بھی ہوا وہ وائس چانسلر کی رضامندی سے ہوا۔‘‘ انھوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ ’’وزیر داخلہ امت شاہ کے اشارے پر دہلی پولس نے جے این یو کیمپس میں طلبا پر حملہ ہونے دیا۔ تین گھنٹے تک پولس کیمپس کے باہر کھڑی رہی تاکہ غنڈے کیمپس میں طلبا اور اساتذہ کو پیٹ سکیں۔‘‘ کانگریس ترجمان نے کہا کہ ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں حکومت کے ذریعہ اسپانسر حملے کیے جا رہے ہیں۔ یہ حکومت طلبا اور نوجوانوں کی آواز کو دبانا چاہتی ہے۔

جے این یو میں طلبا پر ہوئے حملے کے پیش نظر کانگریس کے سینئر لیڈر کپل سبل نے میڈیا میں اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے۔ کپل سبل نے کہا کہ ’’نقاب پوش لوگوں کو کیمپس میں کس طرح گھسنے دیا گیا؟ وائس چانسلر نے کیا کیا؟ پولس باہر کیوں کھڑی تھی؟ وزیر داخلہ کیا کر رہے تھے؟ یہ سبھی سوال ایسے ہیں جن کے جواب نہیں ملے ہیں۔ یہ ایک واضح سازش ہے، جانچ کی ضرورت ہے۔‘‘

تصویر ٹوئٹر پر دیکھیں

کیرالہ کے وزیر پینارائی وجین نے اس سلسلے میں اپنی بات میڈیا کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ’’جے این یو میں نازی اسٹائل میں طلبا پر حملے ہوئے ہیں۔ آر ایس ایس فیملی کو اب اس خونی کھیل سے خود کو الگ کر لینا چاہیے۔ جو طلبا کی آواز ہے وہی اس ملک کی بھی آواز ہے۔‘‘

تصویر ٹوئٹر پر دیکھیں

 

وہیں کانگریس کے سینیئر رہنما سلمان خورشید نے پولیس پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ 'پولیس بغیر اجازت جامعہ گھس کر لائبریری میں پڑھائی کررہے طلبا پر حملہ کرسکتی ہے تو جے این یو میں کیوں نہیں جا سکتی۔'

انہوں نے کہا کہ 'جب نقاب پوش افراد جے این یو میں گھس کر طلبا پر ہتھیار سے حملہ کر رہے تو پولیس اندر کیوں نہیں جارہی ہے۔ ضرور ان لوگوں کی کوئی مدد کررہا تبھی وہ لوگ جے این یو کے اندر گھس کر طلبا پر حملہ کیے۔'

دہلی بی جے پی کے صدر منوج تیواری نے کہا کہ وہ جے این یو میں ہونے والے تشدد کی مذمت کرتے ہیں اور بی جے پی اس کی منصفانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہے۔ بی جے پی کا مطالبہ ہے کہ جو بھی قصوروار ہے اسے سخت سزا ملنی چاہیئے۔

دگ وجے سنگھ نے مرکزی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'مرکزی حکومت کو ان سارے معاملوں پر سختی سے کارروائی کرنی چاہئے، صرف مذمت کرنے سے کیا ہوگا۔'

انہوں نے وزیر داخلہ سے اپیل کی ہے کہ 'وہ اے بی وی پی کے غنڈوں پر سخت کارروائی کرے۔'انہوں نے سوالکیا کہ کیا دہلی پولیس ان غنڈوں کو حراست میں نہیں لے سکتی تھی؟

وہیں پرینکا گاندھی نے بھی ٹویٹ کے ذریعے لکھا کہ 'بھارت پوری دنیا میں اپنی ایک انوکھی شناخت رکھتا ہے، مودی اور شاہ کے غنڈے یونیورسٹیز کے طلبا پر بربریت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، ہمارے طلبا کا خون بہا رہے ہیں، ان کے اندر خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر رہے ہیں، ہمیں ان کے بہتر مستقبل کے لیے فکر مند ہونا پڑے گا۔'

انہوں نے مزید کہا کہ' میڈیا کے ذریعے بی جے پی رہنما یہ دعوہ کر رہے ہیں کہ جے این یو میں شدت برپا کرنے والے ان کے غنڈے نہیں ہیں، سرسر جھوٹ اور دھوکہ دینے والی بات ہے۔

اطلاع کے مطابق ان تمام واقعات کے مدنظر ایم ایچ آر ڈی سیکڑیٹری نے جے این یو کے پراکٹر اور ریکٹر کو اپنے آفس میں طلب کیا ہے۔

بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے بھی جے این یو واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انھوں نے اس واقعہ کے تعلق سے کہا کہ ’’اس کی عدالتی جانچ ہونی چاہیے۔ جے این یو میں طلبا اور اساتذہ کے ساتھ ہوئی مار پیٹ شرمناک ہے۔ مرکزی حکومت کو اس واقعہ کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ ساتھ ہی اس واقعہ کی عدالتی جانچ ہو جائے تو بہتر ہوگا۔‘‘

کانگریس کے سینئر لیڈر ابھشیک منو سنگھوی نے جے این یو واقعہ پر ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے ’’بند کرو چھاتروں پر اتیاچار، جے این یو میں ہِنسا بند کرو مودی سرکار‘‘ (بند کرو طلبا پر مظالم، جے این یو میں تشدد بند کرو مودی حکومت)۔ انھوں نے اپنے ایک دیگر ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ’’طاقت کا نشہ عقل پہ حاوی ہے تمھاری، تم دیکھ نہ پاؤ گے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔‘‘ اڈیشہ کے وزیر اعلیٰ نوین پٹنایک نے جے این یو تشدد کو حیران کرنے والا بتایا ہے اور انھوں نے کہا ہے کہ جمہوریت میں اس طرح کے تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا