English   /   Kannada   /   Nawayathi

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے طلاق ثلاثہ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کا کیا خیر مقدم

share with us

حکومت اس فیصلہ کا غلط استعمال نہیں کرسکتی ، کورٹ نے مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کو تسلیم کیا 

پریس کانفرنس میں بورڈ کے ذمہ داران کا اظہارِ خیال

نئی دہلی 22؍ اگست 2017(فکروخبرنیوز) طلاقِ ثلاثہ پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس میں اس بات کی اطلاع دی گئی کہ ہم ایک نمائندہ ادارے کے طور پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہیں کیونکہ کورٹ نے مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کو تسلیم کیا ہے او رکہا ہے کہ پرسنل لاء کو عدالتوں کی طرف سے بنیادی حقوق کے خلاف ورزی کی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔

اکثریت (جس میں جسٹس کھیہر ، جسٹس عبدالنذیر، جسٹس کورین جوزف شامل ہیں)نے پرسنل لاء کے بارے میں توثیق کی ہے کہ آرٹیکل 25میں موجود مذہب پر عمل کرنے کے حق کا حصہ مانتے ہوئے اس کو بنیاد حق مانا ، یہ ہمارے لیے ایک بڑی کامیابی ہے کیونکہ یہ فیصلہ ہمارے موقف کی تائید کرتا ہے اور اس ملک کے شہریوں کے بنیادی حق یعنی آزادانہ طور پر اپنے مذہبی عقائد پر عملدرآمد کو یقینی بناتا ہے ، یہ فیصلہ آئندہ اس بات کے لیے نظیر ہونا چاہیے کہ کورٹ کسی بھی طبقہ/فرقہ کے مذہبی اعمال واعتقادات میں مداخلت نہ کرے۔ اس فیصلہ نے ہندوستانی شہریوں کے بنیادی حق کے تحفظ کو یقینی بنایا ہے ۔ 
جہا ں تک طلاقِ بدعت کا تعلق ہے تو ہم عدالت کو پہلے سے ہی بتاچکے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق (اگر چہ مذہبی نصوص میں اس کی بنیاد موجود ہے) طلاق دینے کا بہتر طریقہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی کئی سروے سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ زمینی سطح پر ایسا بہت کم ہوتا ہے ، ایک طویل عرصہ سے ہم خود اس تعلق سے بین سماجی اصلاحی پروگرام چلا کر اور بورڈ کی جانب سے ماڈل نکاح نامہ جاری کرکے طلاق کی اس شکل پر روک لگانے کے لیے مصروفِ عمل ہے ۔ گزشتہ ۲۲؍ مئی ۲۰۱۷ ؁ء کو ہم نے جو حلف نامہ کورٹ میں فائل کی تھی اس میں صراحت کی گئی تھی کہ کورٹ نے نکاح پڑھانے والے مولویوں اور قاضیوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ نکاح پڑھاتے وقت دونوں فریقوں کی منظور سے یہ شرط لگاسکتے ہیں کہ شوہر اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق نہیں دے گا۔ ہمیں پتہ ہے کہ ہندوستان میں بہت سے مسلمانوں کا ماننا یہ ہے کہ طلاق بدعت یعنی ایک مجلس کی تین طلاق کی بنیاد مذہبی عقیدے یا مذہبی عمل سے وابستہ ہے ۔ بہر کیف ہم کورٹ کا فیصلہ کا احترام کرتے ہوئے ان مسائل پر غوروخوض اور انہیں حل کرنے کی تدبیریں تلاش کریں گے۔ 
چوں کہ ججوں کی اکثریت (جسٹس نریمن، جسٹس للت ، جسٹس کورین) نے طلاق بدعت کو غیر قانونی قرار دیا ہے جبکہ چیف جسٹس کھیہر اور جسٹس عبدالنذیر نے اس معاملہ کو پارلیمنٹ کے حوالہ کرنے کی بات کی ہے جو کہ طلاقِ بدعت کو غیر منطقی ہونے کے سلسلہ میں اقلیت (ججوں کی اقلیت) کا نقطۂ نظر ہے ، لہذا حکومت سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا غلط استعمال کرکے مسلمانو ں کے پرسنل لاء کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کرسکتی۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا