English   /   Kannada   /   Nawayathi

امریکہ نے شام سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا عمل شروع کردیا،وائٹ ہاؤس کی تصدیق

share with us

واشنگٹن،ماسکو ، لندن:20ڈسمبر2018(فکروخبر/ذرائع)امریکہ نے شام سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا عمل شروع کردیا جبکہ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ واپسی کا عمل تقریباً100دنوں میں مکمل کرلیا جائیگا۔غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد کہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کو شکست دے دی گئی ہے امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شام سے امریکی افواج کی واپسی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔امریکی حکام کے مطابق فوج کی واپسی کا عمل 100 دنوں میں مکمل کر لیا جائے گا۔ وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں تصدیق کی گئی ہے کہ شام میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کو شکست دینے کے بعد امریکی فوجیوں کی واپسی شروع کر دی گئی ہے۔فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ آیا شام میں تعینات تمام دو ہزار امریکی فوجی نکالے جا رہے ہیں اور امریکی محکمہ دفاع کا کہنا ہے کہ مہم اگلے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ تاہم پینٹاگون نے بھی اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں دیں۔دوسری جانب صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکی فوجیوں کی تاریخی کامیابیوں کے بعد وقت آ گیا ہے کہ انھیں گھر واپس لے آیا جائے۔صدر ٹرمپ کے شام سے امریکی فوج واپس بلانے کے فیصلے پر امریکی سینیٹرز کے علاوہ اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔امریکی صدر کی جماعت ریپبلکن پارٹی کے اہم سینیٹرز نے اس فیصلے پر کھل کر تنقید کی ہے اور اسے ایک بری اور بڑی غلطی اور ایران اور روس کی فتح قرار دیا ہے۔برطانیہ نے بھی صدر ٹرمپ کے ان اندازوں پر سوال اٹھائے ہیں جن کے مطابق ان کے خیال میں دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کو شکست ہو چکی ہے۔شام میں تعینات دو ہزار امریکی فوجیوں نے بہت حد تک ملک کے شمال مشرقی حصے کو دولتِ اسلامیہ کے قبضے سے آزاد کروایا ہے تاہم اب بھی وہاں شدت پسندوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔ان سات سالوں میں تقریبا پانچ لاکھ شامیوں نے اپنی جان کھوئی ہے اور تقریبا ایک کروڑ تیس لاکھ ایسی حالت میں ہیں کہ انھیں انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے۔پہلے یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ امریکی محکمہ دفاع کے حکام فوجیوں کی کچھ تعداد کو شام میں رکھنے کے حق میں ہیں تاکہ دولتِ اسلامیہ کو دوبارہ یکجا ہونے کا موقع نہ ملے۔محکمہ دفاع اور وائٹ ہاؤس کے بیانات میں یہ کہا گیا ہے کہ امریکی فوجیوں کی واپسی ہو رہی ہے کیونکہ ہم مہم کے اگلے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔محکمہ دفاع کا کہنا ہے کہ وہ آپریشنل سکیورٹی کی وجہ سے اگلے مرحلے کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کر سکتا۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارا سینڈرز کے مطابق امریکا شام میں کسی حد تک اپنی عسکری مصروفیات کو جاری رکھے گا۔صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کو امریکہ میں حزبِ مخالف اور خود ان کی اپنی جماعت کے سینیٹرز کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔رپبلکن سینیٹر لنڈسی گراہم جو کہ آرمڈ سروسز کمیٹی کی رکن بھی ہیں، کہتی ہیں کہ یہ اقدام 'اوباما جیسی غلطی ہے'۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایران اور روس کی بڑی فتح ہے۔سینیٹ کی فارن سروسز کمیٹی کے سربراہ باب کروکر نے اسے برا فیصلہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریپبلکن سینیٹرز کو صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے افسوس ہوا اور دھچکا پہنچا ہے کہ وہ اپنے کرد اور عرب اتحادیوں کو صدر اسد اور ترکی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔سابق صدارتی امیدوار سینیٹر مارکو روبیو نے اس فیصلے کو ایک ایسی بڑی غلطی قرار دیا جس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ دولتِ اسلامیہ کو شکست نہیں ہوئی ہے۔عالمی سطح پر جہاں روس کی جانب سے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا ہے وہیں امریکہ کے اتحادی ممالک نے اس پر تحفظات ظاہر کیے ہیں۔روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا زخرووا نے کہا ہے کہ امریکی فیصلے کے نتیجے میں شام میں سیاسی سمجھوتے کے حقیقی امکانات روشن ہو گئے ہیں۔برطانیہ کے وزیرِ دفاع ٹوبائس ایلوڈ نے صدر ٹرمپ کی جانب سے دولتِ اسلامیہ کو شکست ہونے کے بیان پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کے دعوے کے برعکس دولتِ اسلامیہ کا خطرہ بدستور موجود ہے۔اسرائیل نے کہا ہے کہ اسے بتایا گیا ہے کہ امریکہ کے پاس خطے پر اثرانداز ہونے کے دیگر ذرائع ہیں لیکن وہ اس بات کا جائزہ لیتا رہے گا کہ یہ کیسے ہوتا ہے اور اس کے اسرائیل پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق شام میں امریکی افواج زیادہ تر ملک کے شمالی علاقوں میں تعینات ہیں جو کہ کرد علاقے ہیں۔دولتِ اسلامیہ نے چار برس قبل شام کے بڑے علاقے میں اپنا اثرونفوذ قائم کر لیا تھا اور امریکی افواج کے شامی کردوں اور عرب جنگجوں کے ساتھ مل کر کام کرنے سے شمالی علاقے سے تقریبا دولتِ اسلامیہ کا صفایا ہو گیا ہے۔تاہم اب بھی شدت پسند کچھ مقامات پر موجود ہیں۔ ایک حالیہ امریکی رپورٹ کے مطابق شام میں اس وقت دولتِ اسلامیہ کے تقریبا 14 ہزار شدت پسند ہیں جبکہ ہمسایہ ملک عراق میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے اور یہ خدشہ ہے کہ وہ اپنا نیٹ ورک دوبارہ بنانے کے لیے گوریلا جنگ کا سہارا لے سکتے ہیں۔
 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا