English   /   Kannada   /   Nawayathi

دھولیہ ضلع کے ایک تعلقہ کی معصوم ۱۶ سالہ لڑکی کی عصمت دری اور پولس کی لاپرواہی

share with us

باپ کی اتنی کمائی نہ تھی کہ اس پر گھر کا گذارہ ہو سکے۔ اس نے بیڑہ اٹھایا تھا کہ اب وہ گھر کی کفالت کیلئے اسکی ماں کے پیشے کو جاری رکھے گی لہٰذا وہ بھی لوگوں کے برتن پانی کر نے لگی ۔ 
ایک دن جب اسکی ماں شرڈی سائی بابا ہاسپٹل میں اپنے شوہر کے ساتھ علاج کیلئے ۱۱؍ اکتوبر ۲۰۱۳ ؁.ء کو شرڈی گئی تو اس موقع کا فائدہ اٹھا کر ایک لڑکے نے اس بھولی بھالی ، شرمیلی اور سیدھے سادھے مزاج والی لڑکی کو ایک اچھی جگہ کام دلانے کے بہانے ایک محسن بن کر شام میں شہر کے باہر لے گیا ۔ پولس میں درج کی گئی تحریری فریاد کے مطابق وہاں اس لڑکے نے اور اسکے دو تین ساتھیوں نے اس لڑکی کے ساتھ منہ کالا کیا ۔ اس حادثہ سے ذہنی طور سے اس لڑکی کو پھانسی لیکر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آیا ۔ کیونکہ ایک تو وہ غریب تھی ، خاندان کی عزت اور یہ معاملہ اگر پولس تک پہنچ گیا تو چھوٹی بہن کے رشتے آنے میں روڑا بننے کا خطرہ اسے لاحق ہو گیا۔ لہٰذا اس نے ۱۲ ؍ اکتوبر ۲۰۱۳ ؁.ء کو شام میں اپنے چھوٹے سے مکان کے پترے کی چھت کے پائپ میں دوپٹے سے لٹک کر اس دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔ 
پولس کے یہ بات ذہن میں نہ آئی ہو کہ ۱۶ سال کی لڑکی جو کسی اسکول یا کالج میں تعلیم حاصل نہیں کر رہی تھی اس کے ماں باپ کی غیر حاضری میں اس کا پھانسی لیکر لٹک جانا مشکوک تھا ۔ ایک بالغ کنواری لڑکی کی موت اگر ان حالات میں ہوتی ہے تو عصمت دری کے امکان کو یکسر خارج نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ لہٰذا اس لڑکی کے پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر کو عصمت دری کے شک سے آگاہ کروا کہ اس کی طبی جانچ شامپور میں کروائی جاتی یا اس کیلئے دھولیہ شہر کے گورنمینٹ ہاسپٹل میں اسکا پوسٹ مارٹم کروایا جاتا تو شاید ایسے امکان کے تعلق سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ۔ 
تدفین کے بعد چونکہ اسکا باپ بھولا بھالا ہے جبکہ ماں جو ٹھیک سے بیس قدم بھی نہیں چل سکتی ہے ، وہ ۱۳ ؍ اکتوبر ۲۰۱۳ ؁.ء سے سینکڑوں قدم چل کر روزآنہ پولس اسٹیشن جا کر پولس سے یہ بتلاتی رہی کہ اس کی لڑکی کی عصمت دری کی گئی ہے لہٰذا عصمت دری کا گناہ داخل کیا جائے لیکن پولس کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔ پولس نے اس عورت کے روزآنہ چکر سے تنگ آ کر ۱۹؍ اکتوبر ۲۰۱۳ ؁.ء کو اس عورت سے شامپور پولس اسٹیشن میں ۳۔۴ گھنٹے کچھ کہہ کر ، کچھ سن کر ، کچھ کاغذ پر کچھ لکھا اور اس عورت کی اور اسکی شوہر وغیرہ کی ان کاغذات پر دستخط لیکر یہ کہہ کر روانہ کیا کہ تمہاری لڑکی کے عصمت دری کے گناہ کو درج کیا گیا ہے اور دو تین روز میں تمہیں ایف آئے آر کی کاپی مل جائیگی ۔ لڑکی کی ماں چونکہ اپنی معصوم بچی کی موت کے صدمہ سے ہر چند کے سمبھلی نہیں تھی لیکن پہلی بار اسے اس بات کی خوشی ہو رہی تھی کہ بھلے سے ہی اس کی لڑکی اب اس دنیا میں نہیں رہی لیکن آنے والے وقت میں جو اسکی بچی کے ساتھ ہوا وہ اوروں کی بچیوں کے ساتھ نہیں ہو گا ۔ راقم الحروف جو کہ ایک آرٹی آئے ایکٹیوسٹ ہے اور چھوٹے موٹے سماجی کاموں میں ملوث رہتا ہے، جب اسے اس بات کا پتہ چلا تو وہ اپنے چند کرم فرماؤں کے ساتھ رات میں ۲۱؍ اکتوبر ۲۰۱۳ ؁.ء کو شامپور پہنچے ۔ وہاں پہنچ کر لڑکی کی ماں نے اپنے شکوک کا اظہار کیا اور پوری روداد سنائی ۔ 
دھولیہ آکر راقم الحروف نے کارگزار ڈی ایس پی سے ملاقات کی کوشش کی اور ملاقات نہ ہونے پر ۲۳ ؍ اکتوبر ۲۰۱۳ ؁.ء کو شام میں میل کے ذریعے اس لڑکی کی پر اسرار موت کے تعلق سے تحقیق کی گذارش کی ۔ موصوف نے فون پر راقم الحروف کو شامپور جا کر وہاں کے ایس ڈی پی او ، کو اس تعلق سے تحریری طور سے معاملہ کی آگاہی کروانے کیلئے کہا ۔ لہٰذا ۲۴ ؍ اکتوبر ۲۰۱۳ ؁.ء کو راقم الحروف اپنے ساتھیوں کے ساتھ شامپور شہر پہنچ کر ایس ڈی پی او ، آفس پہنچنے پر انھیں پتہ چلا کہ صاحب کو اچانک چکر آنے پر دھولیہ میں شفٹ کیا گیا ہے ۔ لہٰذا تحریری آگاہی کے خط کو ایس ڈی پی او ، آفس میں جمع کیا گیا جس میں اس معاملہ میں تحقیق کے قانونی نکات کو درج کر کے گذارش کی گئی کہ اس طرز طریقے سے تحقیق اگر کی جاتی ہے تو کہیں کوئی سراغ ملنے کے قوی امکانات ہیں ۔ بعد ازیں راقم الحروف شامپور پولس اسٹیشن پہنچ کر پولس انسپیکٹر سے تفصیل سے بات کی اور انھیں یہ بات باور کروائی کہ لڑکی کی پھانسی والا معاملہ یقیناًمشکوک ہے جسے پولس انسپیکٹر نے بھی تسلیم کیا اور اس معاملے میں تحقیق کا بھروسہ دلوایا ۔ لیکن افسوس کہ کچھ نہ ہو سکا ۔ جب لڑکی کی ماں کو یہ بتلایا گیا کہ تمہاری فریاد تک داخل نہیں ہے تو لڑکی کے ماں باپ اور رشتے داروں کے ساتھ کارگزار ڈی ایس پی سے ۲۷؍ اکتوبر ۲۰۱۳ ؁.ء کو شام میں ملاقات کی گئی اور تفصیل سے لڑکی کی ماں نے اسکی لڑکی کی عصمت دری اور اسکے تعلق سے زبانی فریاد منسلک پولس اسٹیشن پر درج کرنے کے واقعہ کو اپنے الفاظ میں بتایا اس پر انھوں نے ایک بات ضرور کہی کہ تم نے تحریری طور سے شکایت دینا چاہئے تھا ۔ بہر حال ساری حقیقت ان کے گوش گذار کرنے پر انھوں نے شامپور کے ذمہ دار افسران پر فون سے ہمارے سامنے گفتگو بھی کی اور لڑکی کی ماں کی شکایت کو ان افسران کے گوش گذار کروایا۔ لیکن افسوس کہ یا تو کارگذار ایس پی نے فون پر بات کرنے کا ناٹک کیا یا انکی کسی بھی قسم کی پکڑ انکے معاوین پر نہیں تھی یا اور کچھ بات ہو سکتی ہے ۔ کیونکہ ۲۷؍اکتوبر ۲۰۱۳ ؁.ء کے بعد بھی اس معاملہ میں کوئی پہل شامپور کے پولس اسٹیشن نے نہیں کی ۔ 
کارگزار ایس پی کے کہنے کے مطابق آخر کار ۳۰ ؍ اکتوبر ۲۰۱۳ ؁.ء کو تحریری طور سے اسکی لڑکی کی عصمت دری کے تعلق سے صاف صاف تحریری طور سے فریاد لیکر جب لڑکی کی ماں شامپور پولس اسٹیشن پہنچی تو اس سے وہ شکایت لینے سے انکار کیا گیا ۔ لہٰذا وہ سیدھے اپنے شوہر کے ساتھ دھولیہ آئی اور ایس پی سے ملاقات کر کے انھیں اس معاملہ سے آگاہ کرنا چاہا لیکن اسکی ملاقات ڈی ایس پی صاحب سے نہ ہونے پر اس نے ڈی ایس پی آفس کے سپرینٹینڈینٹ کے آفس میں شامپور پولس انسپیکٹر کے نام تحریر کی گئی فریاد کی کاپی جمع کروا کر اس کے تعلق سے رسید بھی لے لی اور ۳۰؍اکتوبر ۲۰۱۳ ؁.ء کی کارگزاری راقم الحروف کو سنوائی ۔ راقم الحروف نے تنگ آکر مہاراشٹر کے ایک اعلیٰ پولس افسر سے فون پر بات کی اور معاملہ کو ان کے گوش گزار کیا ۔ موصوف نے راقم الحروف سے دھولیہ ضلع کے ڈی ایس پی جو ٹریننگ سے لوٹ چکے تھے ان سے ملاقات کا حکم دیا ۔ لہٰذا راقم الحروف بالمشافہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ ڈی ایس پی صاحب سے شام میں اسی دن ملاقات کی اور تمام تر حقیقت تفصیل سے بتلانے پر انھوں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ یہ معاملہ ایک معمولی خودکشی کا نہیں ۔ انھوں نے ہمارے سامنے شامپور کے پولس انسپیکٹر کو سختی سے کہا کہ ایسے حالات میں یہ بات ثابت ہوتی ہیکہ اس لڑکی کے ساتھ ذلیل حرکت کی گئی ہے لہٰذا اس تعلق سے گناہ درج کیا جائے۔ فوراً اسی وقت لڑکی کی ماں کو پولس اسٹیشن بلایا گیا اور اس سے تحریری فریاد لی گئی جسمیں خلاصہ سے اسکی لڑکی کی عصمت دری کے تعلق سے شکایت کی گئی تھی ۔ وہ تحریرنامہ پولس اسٹیشن پر دیکر دوسری کاپی پر وہاں کے تھانے عملدار سے دستخط لی گئی جو اس بات کی دلیل ہیکہ یہ تحریری فریاد انھیں دی گئی۔ لڑکی کی ماں باپ اور رشتہ داروں سے رجسٹر کے کورے صفحات اور کاغذات پر دستخط لیکر اسے کہہ دیا گیا کہ اسکی فریاد تحریر کی گئی ہے ۔ لیکن افسوس کہ اس معاملہ سے ثابت ہوتا ہیکہ ہمارے ملک میں جہاں عورت کبھی دُرگا کبھی سرسوتی کبھی سیتا کبھی لکشمی کبھی سنتوشی ماتا وغیرہ وغیرہ کہہ کر انکی پوجا کی جاتی ہے وہی ایک عورت جب عام انسانی صورت میں پیدا ہوتی ہے تو اسکے ساتھ عصمت دری جیسی درندہ سفت اور ذلیل حرکت ہوتے ہی رہتی ہے ۔ کیونکہ اس امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہیکہ ایسے ذلیلوں کو بڑھاوا اسلئے ملتا ہیکہ کہیں نہ کہیں پولس ایسے بدکاروں کے تعلق سے نرم رویہ اختیار کرتی ہے ۔ جس شکارزدہ لڑکی کو میڈیا کا ساتھ مل جاتا ہے وہ معاملہ ملک گیر پیمانہ پر تشہیر پا کر ملزم کی تلاش اور پھر سزا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے لیکن اس لڑکی جیسی کروڑوں لڑکیاں ہندوستان میں ایسی ہیں جہاں پر میڈیا کی نظر نہیں پڑ پاتی ہے یا کسی نے ان کو حادثہ کے تعلق سے میل بھی کر دیا تو انکی مصروفیت اس میل کو پڑھنے کی اجازت نہیں دیتی ہے ۔ جیسا کہ اس معاملہ میں ہوا۔ 
ایف آئے آر کی کاپی ملنے پر جب پتہ چلا کہ سی آر پی سی سیکشن ۱۵۴ کے مطابق تحریری فریاد کے اہم نقطہ Substance کو ایف آئے آر میں درج نہیں کیا گیا لہٰذا ملزم پر اور وہ بھی ایک ہی ملزم پر آئے پی سی سیکشن ۳۰۶ کے مطابق گناہ داخل کیا گیا۔ اس پر راقم الحروف نے ایک تحریری خط کے ذریعے ۲؍ نومبر ۲۰۱۳ ؁.ء کو دھولیہ ڈی ایس پی سے ملاقات کر کے ان کو ایف آئے آر کے تعلق سے پولس کی کوتاہی کی پاداش میں منسلک پولس پر ایکشن لینے کے تعلق سے خط دیا گیا لیکن نتیجہ صفر ۔ بعد ازیں مورخہ ۱۳ ؍ نومبر ۲۰۱۳ ؁.ء کو لڑکی کی ماں کو ایک گمنام عورت کا فون آیا اور جس میں کچھ دم داٹی کی بات کہی گئی تھی اس کے تعلق سے گناہ درج کرنے کے بارے میں لڑکی کی ماں نے ۱۴؍ نومبر ۲۰۱۳ ؁.ء کو دھولیہ ڈی ایس پی سے راقم الحروف کے ساتھ ملاقات کی اور گمنام فون کے تعلق سے تحریری فریاد بھی ان کے حوالے کی اور ساتھ ہی پولس اگر سنگین گناہ کے تعلق سے شکایت نہیں درج کرتی ہے تو ۱۲ ؍ نومبر ۲۰۱۳ ؁.ء کے فاضل سپریم کورٹ کے لینڈمارک فل ججمینٹ کے تعلق سے راقم الحروف نے بات بھی کی اور ایسے پولس افسر کے خلاف آئے پی سی سیکشن 166A (ترمیم قانون ۲۰۱۳ ؁.ء ) کے تحت گناہ داخل کرنے کے باوجود اس پولس افسر پر سخت تادیبی کاروائی کرنے کے تعلق سے بھی تحریری اور زبانی طور سے گذارش کی چونکہ آئے پی سی سیکشن 166A کے تحت اس قسم کے گناہ کو درج نہ کرنے کی پاداش میں منسلک پولس افسر کے خلاف گناہ داخل کیا جاتا ہے لیکن نتیجہ ٹھن ٹھن گوپال۔ لہٰذا لڑکی کی ماں نے راقم الحروف کے ساتھ ۱۶؍ نومبر ۲۰۱۳ ؁.ء کو شامپور پولس اسٹیشن جا کر پولس انسپیکٹر سے یہ بات سمجھنا چاہی کہ تحریری فریاد کے مطابق گناہ کیوں نہیں درج دیا گیا لیکن ہمیں دیکھکر پولس انسپیکٹر پولس اسٹیشن چھوڑ کر چلے گئے ۔ ان کے معاوین کے ذریعے ان سے جب راقم الحروف نے گذارش کی کہ اس معاملہ میں ان سے بات کرنا ہے تو وہ پولس اسٹیشن آ جائے لیکن انھوں نے پولس اسٹیشن آنے سے انکار کیا تب انھیں کہا گیا کہ منسلک پولس کے تعلق سے آئے پی سی سیکشن 166A کے تحت تحریری فریاد دینا ہے تو انھوں نے کہا کہ وہ فریاد پولس اسٹیشن میں دے دے ۔ لہٰذا تحریری فریاد پولس اسٹیشن میں دیکر اس پر منسلک تھانے عملدار کی دستخط لی گئی ۔ بعد ازیں چونکہ معاملہ خود شامپور پولس اسٹیشن کے خلاف تھا اسلئے وہی فریاد ایس ڈی پی او ، شامپور کو دینے کیلئے وہاں جب شکایت کنندہ عورت پہنچی تو وہاں ایس ڈی پی او ، حاضر نہیں تھے ۔ انکے ایک معاوین کو یہ شکایت دیکر اس پر ایکنالیجمینٹ لی گئی اس پر منسلک راقم الحروف نے انگیریزی زبان میں چند الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کو مع مستند دستاویز میل بھی کیا لیکن تادم تحریر اس تعلق سے کوئی آواز نہیں اٹھی یہ کچھ اور بات نہیں اس لڑکی جیسی ہندوستان کی کروڑوں لڑکیوں کی شومئی قسمت کہئے ۔ 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا