English   /   Kannada   /   Nawayathi

اخبار والوں کیلئے:اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

share with us

کوئی کہتا ہے کہ اوپر ٹنکی پر چڑھ کر چھلانگ لگا دیں گے۔ تو کوئی خودسوزی کے بارے میں غور کر رہا ہے اور کوئی خود کشی کی پیچیدگی پر سوچ رہا ہے۔ لیکن ان سب سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ صحافیوں کی سب سے بڑی طاقت قلم ہوتی ہے اسی کا راستہ اپنانا ہوگا۔ اس سے بڑی طاقت دوسری کوئی نہیں ہوتی ۔ اور دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ ہمارے بھائی سب کچھ کر رہے ہیں لکھنے کے علاوہ۔ہمارے بہت استبصار پر بھائی وسیع الدین نے لکھنے کا کام شروع کیا ہے۔ جو امید ہے کہ اب دھیرے دھیرے سب بھائی اپنے اپنے اخبار میں لکھیں گے اور دوسرے اخبارات کو بھی مہیا کرائیں گے۔ انشا اللہ۔
آپ کو بتاتے ہوئے چلوں کہ حکومت نے جن وسائل کو پورہ کرنے کی اخبار مالکان سے مطالبہ کیا ہے وہ مشکل ہی نہیں بہت مشکل ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ مثلا۔ ہر اخبار کا مالک اپنا پرنٹنگ پریس لگائے۔ اخبار کا مالک دس کام کرنے والے ورکرس کی تنخواہ کے ساتھ ای پی ایف جاری کرے۔ حکومت کی پسندیدہ مہنگی نیوز ایجنسی کے ذریعہ اخبار بنائے۔ ہر مہینے کا اخبار جمع کرے۔جیسے کئی ایک مسائل ہیں۔ اب کوئی یہ بتائے کہ جن کی آمدن اخبار کے ذرائع سے 15000ہو رہی ہو وہ 50ہزار کا خرچ کیسے کریگا۔ وسیع الدین صدیقی کے مطابق آمدنی اٹھنی ۔خرچہ رپیہ۔
اس نئی پالیسی کے لاگو ہونے سے تمام مایوس برادران کو ایک نئی سمت توجہ دلانا چاہتا ہوں۔جہاں تک بات سننے میں آتی ہے کہ جعلی اخبارات پر پابندی لگانا مقصد ہے۔ پہلی بات جعلی اخبار کا لفظ ہی غلط ہے۔ اخبار مالکان نے رجسٹریشن کے تمام مراحل مثلا پولس انکوائری ، پریس ویری فکیشن، آ راین آئی ویری فکیشن یعنی کہ بڑے جانچ پڑتال سے اخبار کا رجسٹریشن ہوتا ہے تو جعلی کس بات کا۔ یا تو حکومت یہ کہہ دے کہ آر این آئی کا مطلب جعلی ہوتاہے۔ اگر اسی طرح جعلی کہنا ہے تو لیڈران نیتا بھی تو جعلی ہیں جو بغیر کام کئے کروڑوں کا سالانہ خرچ اپنے اوپر کراتے ہیں۔ جن کا کام صفر ہوا کرتا ہے۔ ان پر بھی پابندی عائد کی جائے۔ 
یہاں میرے لکھنے کا مقصد تمام صحافی بھائیوں سے یہ ہے کہ اخبار پر کسی طرح کی کوئی پابندی عائد نہیں ہو رہی ہے۔ ایک ڈی اے وی پی ہی اشتہار حاصل کرنے کا راستہ نہیں رہے گا۔ سیکڑوں راستے ہیں۔ یہاں پر پابندی ان آفیسران پر ہے جو ایک اشتہار دینے کے بدلے 50فیصد رقم واپس لے لیتے تھے۔ گھبرانے کی ضرورت صحافیوں کو بالکل نہیں ہے۔ گھبرانا تو انہیں چاہئے کہ جو کروڑوں کا اشتہار جاری کرکے نصف بجٹ اپنے پاس واپس لے لیا کرتے تھے ۔ اور یہ دھندھا کوئی چھوٹے پیمانے پر نہیں چلا کرتا تھا ۔ بہت بہت بڑے پیمانے پر چلا کرتا تھا۔ مثلا منسٹری میں ایک دلال جاتا ہے اور تین سو اخباروں کی ایک لسٹ وہاں کے آفیسر کو تھما دیتا ہے ۔ جن کو اشتہار گئے وہاں سے آدھے واپس دلال کے ذریعہ آفیسر کو پہنچ گئے۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ پابندی ان پر ہے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان آفیسران پر پابندی کے لگنے کے بعد اشتہار خود بخود ہمیں تلاش کرتے ہوئے آئیں گے۔ جس میں نہ کسی دلال کی رسائی ہوگی اور نہ ہی کسی سفارش اور کمیشن خوری۔ صحافی برادران تسلی بخش اپنا احتجاج درج کراتے رہیں ۔ ہمیں امید ہے کہ اس سخت امتحان کے بعد آسانی آئے گی۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا