English   /   Kannada   /   Nawayathi

گیلے کاغذ کی طرح اَپنا مقدر ٹھہرا

share with us

ملک میں فرقہ وارانہ بڑے بڑے فسادات کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو عموماً یہی ملے گا کہ جن شہروں اور مقامات میں مسلمان قوم کا کسی صنعت و حرفت میں کچھ حصہ ہے، جہاں کہیں وہ کچھ نمایاں طور پر نظر آتے ہیں اور ان کے صبح و شام دو پیسوں سے کسی قدر سکون کے ساتھ گذر رہے ہوتے ہیں، وہاں ہی سارے فسادات، فتنے اور قتل و غارت گری کے طوفان برپا کئے جاتے ہیں۔ مقصد؟ صرف یہی ہوتا ہے کہ اس قوم کو کمزور کیا جائے، انہیں سر اٹھا کر، سکون کے ساتھ ہرگز جینے نہ دیا جائے، انہیں دوسرے نہیں، تیسرے بھی نہیں، اس سے بھی کمتر بنا دیا جائے، یہ ایسے حقائق ہیں جنہیں سب جانتے ہیں مگر سب کچھ جاننے اور سمجھنے کا فائدہ کیا ہوا؟
میرا ملنا جلنا ملک کے باہر بھی لوگوں سے ہوتا ہے، وہ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ اس ملک میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد ہوتے ہوئے آخر ایسا جمود اور ایسی بدترین صورتِ حال کیوں ہے؟ کیا مسلمانوں کا کوئی مخلص، قربانی دینے والا، ایثار پسند قائد اور لیڈر نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے؟ دنیا دیکھتی ہے کہ چھوٹے ملک ہوں یا بڑے، اپنے قائدین کی زیرِ قیادت اتحاد و اتفاق کی شمع لے کر بڑے بڑے انقلاب لاتے ہیں، پھر یہاں ایسا کچھ کیوں نہیں؟؟
جواب اسی سوال میں پوشیدہ ہے، یعنی نمبر ایک مسلمانوں کی پہلی اور عظیم بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی مخلص، ایثار پسند قائد نہیں، جو بھی آتا ہے اولاً بڑے بڑے بول، بول کر قوم کو اُلّو بناتا ہے اور تھوڑے ہی دنوں میں مسلم مخالفین کے روپیوں سے بھری ہوئی تھیلیوں کے اندر چلا جاتا ہے اور قوم بے چاری دور سے تکتی رہ جاتی ہے۔
آزادی کے بعد سے یہی سب دیکھتے دیکھتے ان نام نہاد، زَرپرست، خود غرض اور لالچی قائدین کے جھانسوں سے جوجھتے جوجھتے قومِ مسلم ستّر سالہ ایک ایسی ضعیفہ کی طرح ہوگئی ہے کہ جس کے سہارے کی لٹھیا بھی گھستے گھستے بہت کمزور اور چھوٹی ہوگئی ہے۔
ایسی بدقسمت قوم دنیا میں کہاں ہوگی جسے ستّر سال کے طویل ترین عرصے میں ایک بھی ایسا قائد ہاتھ نہ آسکے جو قوم کی ڈوبتی نیا کو، فتنہ و فساد، غربت و افلاس، جہالت اور حماقت اور ایسی ہی بہت سی المناک بیماریوں کی منجدھار سے نکال کر امن و امان، سکون و اطمینان اور تعلیم و تجربہ کے ساحل پر پہنچاسکے اور یہ قوم دو روٹی سکون سے کھا، کھلا سکے۔
قوم مسلم کے نام نہاد قائدین، ایثار اور قربانی کی باتیں، جو دو اور دو چار کی طرح بالکل سامنے کی ہوتی ہے، ہرگز سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔
اس قوم کے بڑوں میں ایثار نہیں ہے کیوں کہ ان میں اخلاص نہیں ہے، ان کے سامنے جب بھی کوئی بات آتی ہے کہ قوم کو متحد کرو، کسی ایک عنوان پر جو سب کا مشترک عنوان ہے، جسے سب بھگت رہے ہیں، جس کا رونا سب رو رہے ہیں یعنی کم از کم سیاسی نقطۂ نظر پر متحد ہوجاؤ اور اتحاد کی برکت کو دیکھو، جس کا حکم خود کتاب الٰہی میں ہے جس کی طرف بار بار فرمانِ الٰہی متوجہ کر رہا ہے، مگر کچھ بھی نہیں، کیوں؟ وہی بات کہ ایثار نہیں، فوراً ان کے سامنے سب سے بڑا، سب سے اہم اور بنیادی سوال یہ کھڑا ہوجاتا ہے کہ متحد ہوگئے تو صدر کون ہوگا، سکریٹری کون ہوگا؟ صدارت اور نظامت ان کے یہاں اصل ہے، قوم کا سدھار اور بھلائی جائے بھاڑ میں۔
اب صورتِ حال اتنی بگڑ چکی ہے، جو ناقابل بیان ہے، کچھ دنوں پہلے ایک باہمت اور باحوصلہ شخص، مولانا توقیر رضا صاحب نے یہ جسارت دکھائی کہ دیوبند میں ہی نہیں، دارالعلوم دیوبند تک آگئے اور اخبارات سے ساری دنیا نے جان لیا، مگر جواب میں کیا حاصل ہوا سیدھے سادھے کچھ سادہ لوحوں کے اخباری بیانات، کچھ واہ، واہی اور بس!
یہ بیماری اور سب سے بڑی بیماری، کینسر، سب ہی مسلم قائدین جو اپنے اپنے طبقے کے قائد بنتے ہیں، سب کے ساتھ یہ مرض جڑ پکڑے ہوئے ہے، کوئی کسی سے پیچھے ہٹنے اور کسی کا ماتحت بن کر چلنے کے لئے تیار نہیں ہے کیوں کہ پھر ان کی قیادت و سیادت، صدارت و لیڈری کا کیاہوگا اور پھر اس کے نتیجے میں جو حاصلات اور وصولیات ہیں جن سے ان کے بینک بیلنسی اور پھر جس کے دم سے ان کے تعیُّشات ہیں ان کا کیا ہوگا؟ تُف ہے ایسے خیالات پر۔
سوال ہے؟ جمعےۃ علماء ہند کے دونوں حضرات سے! بریلوی مسلک کے نمائندگان، جماعت اسلامی کے حضرات سے، اہل حدیث کے کرتا دھرتا، مسلک شیعہ کے حضرات سے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مجموعے سے! کیا یہ سارے حضرات کامل اتحاد کے ساتھ صرف سیاسی عنوان سے جڑ کر آنے والے اور اس کے بعد بھی، الیکشن کے موضوع پر کسی ایک پلیٹ فارم پر آسکتے ہیں؟ اگر آسکتے ہیں تو اس سے پہلے کیوں نہیں آئے؟ ستّر سال سے یہ سارے مسالک وجود میں ہیں اور اس طویل مدت میں کتنی ہولناک قیامتیں ملّتِ اسلامیہ کو اُدھیڑتی ہوئی ان کے وجود کو ملیا میٹ کرتی ہوئی گذر گئیں، مگر یہ ساری قیامتیں جو قدیم بھی ہیں اور جدید بھی، کیا ان نام نہادوں کو یکجا کرسکیں؟ نہیں، بالکل نہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے اور پھر عرض کر رہا ہوں، ایک قوم دلِت کہلاتی ہے، اس قوم کے ساتھ اسی ملک میں کیا کچھ نہیں ہوتا رہا ہے، یہ قوم ڈرائی دھمکائی جاتی رہی ہے، اس قوم میں شدید احساس کمتری پیدا کیا جاتا رہا ہے، یہ روتے رہے اور سوچتے رہے کہ کاش ہمارا بھی کوئی لیڈر ہوتا توہمیں راہ دکھاتا، جب دلِت قوم نے اپنی شدید مظلومیت، اپنی شدید پیاس اور طلب کی شدت کا احساس دلایا تو اس قوم سے ایک لیڈر ابھرا، جسے ’’کانشی رام‘‘ کے نام سے دنیا جانتی ہے۔ کون ’’کانشی رام‘‘ جسے تھوڑی ہی دنوں کی مہلت قدرت کی طرف سے ملی مگر چوں کہ اس میں اخلاص تھا، درد تھا، اپنی قوم کے لئے ایثار و قربانی کا حقیقی جذبہ تھا، جس سے دنیا ہل گئی۔ اس نے اپنا ایک ایسا جانشین چھوڑا جس نے تھوڑے ہی دنوں میں اتحاد و اتفاق اور اس کی طاقت و قوت کا ایسا صور پھونکا کہ ملک کا ایک صوبہ جو نمبر ایک کا ہے، سب سے اہم صوبہ ہے، اپنی محنت، اتحاد اور حکمت عملی سے وہ کر دکھایا جس کا تصور بھی ملک کے بڑے برے نامی گرامی سیاسی بازی گروں کو نہیں تھا، کہاں گئی وہ کانگریس؟ جو ہمیشہ کے لئے خود کو ملک کا مالک سمجھے ہوئے تھی، پچا س سال تک ملک میں سیاسی سوداگری کی، مگر بی ایس پی کے سامنے ڈھیر ہوگئی اور باقی دوسری پارٹیوں کو کیا کہا جائے؟
بدقسمت ملتِ مسلمہ کے نام نہاد قائدین! کیا تم نے خود کو اس دلت قوم کی لیڈر ’’محترمہ مایاوتی‘‘ سے گھٹیا ثابت نہیں کیا؟ آخر تم کہاں ہو؟ ہے بھی کہیں تمہارا وجود؟ 
قرآن کریم کے فرمان سے روگردانی اور واضح نافرمانی نے تمہیں ڈوب مرنے کے مقام تک پہنچا دیا ہے
تُفو بر تو زعمائے ملّت تفو!
سامنے سب سے اہم الیکشن ’’یوپی‘‘ کا ہے،نکل آئے برساتی مینڈک، اپنی اپنی دفلی بجا رہے ہیں، جن کا ابھی خاص کوئی وجود بھی نہیں ہوا، جیسے ڈاکٹر ایوب صاحب ایک پیس لئے ہوئے اور جناب اسد الدین اویسی صاحب نام نہاد ’’اتحاد المسلمین‘‘ کی انگلی پکڑے ہوئے اور ابھی دیکھتے جائیے کتنے اور کیسے کیسے صاحبانِ عقل و خرد میدان میں دفلیاں لے کر اتریں گے۔ ان سے کوئی کہے کہ کرنے کا کام یہ ہے کہ تم سب پہلے مذکورہ بالا جماعتوں کے صدور و نظماء سے ملو اور اخلاص کے ساتھ ملو اور ان کے کانوں میں جو میل اور دبیز گرد جم گئی ہے اسے نکالنے کی کوشش کرو، خدارا، بہت سوچکے، تمہاری نیند کی سنگینی کے آگے اب تو پتھروں کے دل بھی چھوٹ گئے، آنکھیں کھولو، اپنے عشرت کدوں سے باہر نکلو۔کب تک انگڑائی لیتے رہو گے؟ کب تک آنکھیں ملوگے؟ دیکھ نہیں رہے ہو، ملت کی بربادی کہاں تک پہنچ چکی ہے۔ اے ’’اتحادیو‘‘ اور اے ’’پیس‘‘ والو اپنی اپنی الگ دفلی بجانے کے بجائے انہیں جو ایک ایک جماعت پر پہلے سے قبضہ جمائے بیٹھے ہیں، انہیں جھنجھوڑو اور اگر یہ اپنی اغراض اور مطلب پرستیوں سے دست بردار نہیں ہوتے ہیں تو قوم کو جگا کر اس کے سامنے ان کے یہ حالاتِ بد پیش کرو، قوم کو انہوں نے ہی گہری نیند کا خطرناک انجکشن دے رکھا ہے، ساری قومِ مسلم انہیں چند جماعتی خانوں میں تقسیم ہو کر بے جان ہوگئی ہے، کوڑا کرکٹ بن گئی ہے۔ مسلم قوم کو بتاؤ کہ راوڑ کیلا، جمشیدپور اور کلکتہ سے لے کر تقریباً ساٹھ ہزار کا طویل سلسلۂ فسادات مظفرنگر پہنچا۔ مگر ان جماعتوں کے ٹھیکیداروں نے جب سے اب تک وہ کام نہیں کیا جس کا حکم قرآن نے دیا یعنی ’’ملت کو متحد کرو، اختلاف و انتشار سے بچاؤ، ان کی ہوا خیزی نہ کرو۔‘‘ اور پھر نتیجے میں قوم کو ذلت کے گہرے کھڈ میں گرا کر دم لیا، یہ قوم تو کہیں کی بھی نہ رہی اور اس کا حال وہی ہوا ؂
گیلے کاغذ کی طرح اپنا مقدر ٹھہرا
کوئی لکھتا بھی نہیں کوئی جلاتا بھی نہیں
ان قائدین نے قوم کو گیلا کاغذ بنا کر پھینک دیا جو کسی کام کا نہیں۔ یہ نام نہاد ملت فروش قائدین، ایسے ایسے گمراہ کن فلسفے ایجاد کرتے ہیں، تنہائیوں میں سوچ کر جس سے انہیں خود گھن آتی ہے مگر قوم کو کلورا فارم سونگھا کر ایسا بے ہوش کیا ہے کہ قوم بے چاری کچھ بھی سمجھنے سے عاری ہے۔
ستّر سال سے کانگریس اور پھر دوسری پارٹیوں نے مسلمانوں کے لیڈروں کو روپئے کی تھیلیوں میں بند کرکے ایسا سبق پڑھایا کہ اگر مسلمانوں میں اتحاد کی بات کرو گے تو سابقہ ’’جن سنگھ‘‘ اور پھر آر ایس ایس اور بی جے پی والے، ہندو قوم کو متحد کرلیں گے اور تمہیں ختم کردیں گے، حالاں کہ ہندو قوم پنڈت جواہر لال نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل ہی کے زمانے سے متحد ہونے لگی تھی اور کب کی ہوبھی چکی جس کا اتحادی نتیجہ صرف ۳۱فیصد ووٹ سے دنیا کو دکھا بھی چکی اور تم ہو کہ ابھی تمہیں ان کے اتحاد کا اندیشہ ستا رہا ہے، قوم کو دھوکہ دے رہے ہو ؂
آیا پروانہ، گرا شمع پہ اور جل بھی مرا
تم کھڑے سوچ رہے ہو کہ محبت کیا ہے؟
یہ سوچتے ہی سوچتے یہ بدقسمت ملت اندھیروں میں ڈوب گئی۔اس طرح کے ہوّے آج بھی تھیلیوں میں بند قائدین، قوم کو دکھاتے ہیں مگر ہائے رے سادہ لوح یہ قوم مسلم! تمہاری سمجھ میں کب آئے گا؟ یہ فلسفہ کہ: ’’اختلاف ڈالو، انہیں تقسیم کرو اور حکومت کرو۔‘‘ ہر الیکشن میں یہی تو کہا جاتا ہے کہ اصل میں ’’ووٹ تقسیم ہوگیا‘‘ ارے بھائی تقسیم کے ذمہ دار تو تم ہی ہو۔ ’’سیکولر، سیکولر‘‘ رٹ لگائی جاتی ہے جب کہ بار بار لکھا جاچکا کہ سیکولر تو کوئی رہا ہی نہیں، یہ کہنا تو چھوڑ ہی دو، اتحادِ کامل کا مظاہرہ کرو، جو کر سکتے ہو وہ تو کرکے دکھاؤ۔
میں نے بھی لکھا تھا کہ یہ نام نہاد کچھ دنوں کے لئے ذرا گوشہ گیر ہوجائیں، قوم کو اپنے لگائے ہوئے انجکشنوں کے اثرات سے باہر آنے دیں، یہ قوم اپنا صحیح مخلص، ایثار پسند لیڈر خود چن لے گی۔ اے نام نہاد قائدین، خدارا کچھ دنوں سکون سے ایک طرف رہ لو۔ ذرا آرام کرلو اور قوم کو راحت کا سانس لینے دو ورنہ جانتے ہو اور شاید تم یہی چاہتے بھی ہو کہ بی جے پی تقسیم کی برکت سے یوپی کا معرکہ بہ آسانی سر کرلے۔ اللہ تعالیٰ ہندوستان پر رحم فرمائے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا