English   /   Kannada   /   Nawayathi

اے خدا جو مجھے پند شکیبا ئی دے....

share with us

خود فراز صاحب کو کیا سوجھی تھی پتا نہیں- ضرور انکے احباب بھی انہیں جھوٹی تسلی و تشفی دے کر حوصلہ رکھنے کی تلقین کر رہے ہونگے جب وہ کسی ادبی یا سیاسی یا پھر "آئیڈیالوجیکل" نا انصافی کا شکار ہو رہے ہونگے اور سب کچھ قوت برداشت سے باہر ہورہا ہوگا تب ہی یہ شعرہوا ہوگا ویسے فراز صاحب نے تو بہت کچھ کہا تھا اور نہ جانے انکا کہا کس کس پر کیسے کیسے اور خود ان پر کیونکر چسپاں ہوا ہوگا کہ 150 " کوئی بھی نظم چمن ہو یہ ہم نے دیکھا ہے ...... سحر کا نغمہ سرا شام آشیاں میں نا تھا- اور یہ بھی کہ "جگر فگار کرو دل کو تار تار کرو.... یہی صلے ہیں آگہی کے، یونہی سہی- اور یہ بھی کہ: فراز اپنی جگر کاویوں پہ ناز نہ کر ...... کہ یہ متاع ہنر بھی سدا کسی کی نہیں- یہ سب اشعار تو ادباء و شعراء پر ہی خوب چسپاں ہوتے ہیں کہ " یہ جو سر گشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے ...... ان سے مت مل کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے"، اور پھر انہیں حضرات کے لئے دی گئی وہ تنبیہ بھی یاد آتی ہےکہ " ناداں ہیں وہ کہ جن کو ہے گم نامیوں کا رنج..... ہم کو تو راس آئے نہ شہرت کے رات دن .. واقعی یہ تو میر و مرزا سے جوش و فراق تک کسی کو بھی راس نہیں آئے ، اور موجودہ دور کے اہل قلم حضرات کو ان سے ضرور سبق لینا چا ہیے .... ان سب کے علاوہ وہ اشعار بھی تو خوب کہے ہیں جو بر صغیر کے ارباب اقتدار کے اعمال و بیانات پر پورے اتر تے ہیں کہ: رہرو بھی خود، رفیق بھی خود، راہزن بھی خود.....اک میر قافلہ سبھی القاب لے گیا - اور یہ بھی کہ، ہر ایک کو دعوی ہے یہاں چارہ گری کا ..... اب دل کے اجڑجانے کے امکاں ہیں زیادہ- جس تاج کو دیکھو وہی کشکول نما ہے ... اب کے تو فقیروں سے بھی سلطاں ہیں زیادہ150

الغرض شیفتہ کے پاس پہنچنے سے پہلے یہ بھی خیال آیا کہ ادباء و شعرائے کرام کا یہ وطیرہ نہیں رہا ہے کہ انکی تمام تر تخلیقات انکے ذاتی مسائل کے ارد گرد ہی گھومتی ہو، بلکہ انکا تخیل اور انکے افکار معاشرہ کے حالات سے متاثر ہوتے ہیں- یہی سب کچھ سوچ کر ہم شیفتہ کے زخم کی گہرا ئی ناپنے شام چمن میں جا پہنچے- ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے مصرعہ ثانی بھی داغ دیا اور فرمانے لگے، حضور مسلمانوں کے ساتھ اب نا انصافیاں نا قابل برداشت ہو رہی ہیں، اور جو حضرات سیکولرازم کے نام پر یا مفاہمت، امن پسندی، حقیقت پسندی یا رواداری کے نام پر حمیت اور غیرت کو طاق پر رکھ رہے ہیں، یا بنیاد پسندی اور اسلام پسندی کے القابات سے ڈرے سہمے ہیں، انہیں اب یہ جان لینا چا ہیے کہ: نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا......تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہوگا- ہم نے بھی فورا کہہ دیا کہ: چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو ........ یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہوگا - فرمایا، مجھے اے ہم نشیں رہنے دے شغل سینہ کاوی میں ..... کہ میں داغ محبت کو نمایاں کر کے چھوڑوں گا -

فرمایا، ہندوستان میں مسلمانوں کو دھمکا کر اور دبا کر رکھنے اور ان کے خلاف استعمال کیے جانے والے سیاسی حربوں میں کبھی کہیں گائے کو لایا جاتا ہے تو کبھی یونیفارم سول کوڈ کو، کبھی ایک سے زائد شادی اور کبھی ایک نشست میں تین طلاق کو اور کبھی نان نفقہ کو- اکثر "اسلامک ٹیرر ازم" کے نام پر عالمی میڈیا سنسنی پیدا کرتا ہے تاکہ سیاست غلیظہ کو سیاست جمہوریہ بنا کر پیش کیا جا ئے، اور تاکہ خونی سیاسی سازشوں اور معاشیات و اقتصادیات میں ناکامی سے عوام کی نظر ہٹ جائے- ان سب کے علاوہ موسم و تہوار کی مطابقت سے بھی کچھ موضو ع ہوتے ہیں جن میں سردی میں نہاری سے لے کر عید الضحی پر قربانی تک سب کو لے کر مسلمانوں اور اسلام پر لعن طعن کیا جاتا ہے - اور پھر ان کا ساتھ دینے کچھ گھر کے بھیدی بھی ہیں جو یہ سوچ کر پھلجڑیاں چھوڑتے رہتے ہیں کہ شاید کوئی اعزاز یا انعام ہاتھ لگ جا ئے یا کوئی ستائیش یا پھر بقول فراز شہرت کے رات دن، ان میں چند احمق ایسے بھی ہیں جو قربانی کا متبادل کیک کاٹنے کو سمجھ بیٹھے ہیں 150 ان سب کا بس چلے تو صلاہ کا متبادل یوگا اور سو ریہ نمسکار" کو، صوم کا متبادل کھاتے پیتے روزوں کو اور حج کا متبادل اولمپک کو بنا ڈالیں لیکن خالق حقیقی ان کا بس چلنے نہیں دیتا - رہی بات عوام کی تو بر صغیر کی عوام کو ویسے بھی ضروریات زندگی کے علاوہ دال روٹی میں الجھا کر ایسا رکھا گیا ہے کہ الکشن کے ساون کا ہر ایک اندھا انہیں مسیحا نظر آتا ہے 150 عوام جن کی اکثریت کو سرمایہ داروں نے مادیت پرستی کے سمندر میں غرق کر رکھا ہے اور سیاستدانوں نے جنہیں خواب خرگوش میں مبتلا کر رکھا ہے - اب ذرا مندرجہ بالا دھمکیوں اور سازشوں سے بھر پور واقعات پر غور کریں تو انکی شرح فیصد تو دور کی بات ہے حقیقی اعداد و شمار بھی کسی کے پاس موجود نہیں- اہل خبر و نشر ہوں یا اہل فکر و قلم یا اہل خرد، اکثر حضرات ان سیاسی حربوں کے پس پشت اسلام اور مسلمان دشمنی کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں - اور پھر میڈیا میں مچی ان موضوعات پر اچھل کود کو سمجھ نہیں پاتے اور اپنے عقائد میں پوشیدہ حکمتوں سے ہی اختلاف کرنے لگتے ہیں، جن میں کچھ تو ایسی حکمتیں ہیں جنکے مباح یا لازم ہونے میں مختلف شرائط لاگو ہوتی ہیں، اور جو وقت اور انفرادی حالات و واقعات پر منحصر ہوتی ہیں - ہو سکتا ہے کچھ احکامات آج ایک زمرے میں آتے ہوں لیکن مستقبل میں کبھی کہیں دوسرے زمرے میں بھی آسکتے ہیں، اور یہ انتخابات و اختیارات سب قرون خیر سے ثابت شدہ ہیں ، اور اسی نقطہ نظر سے دین فطرت ایک لا فانی نظام حیات ہونے کا دعوی کرتا آیا ہے اور اسے ہر دور میں ثابت بھی کرتا آیا ہے - اسکے علاوہ حسن اخلاق ہو یا مصلحت ، رخصت ، اضطرار ہو یا اجتہاد ، مباح ہو یا جائز و ناجائز اور حلال و حرام ، یہاں تک کہ غیرت و حمیت کے اصول بھی دین فطرت نے مقرر کیے ہیں-اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اسلام ایک جامع اور کامل نظام حیات ہے لیکن اس کا کامل نفاذ بھی ہر دور میں ممکن ہو یہ ضروری نہیں ہے، اور نہ ہی یہ مشیت الہی کا حصہ ہے - اسلام توازن، اعتدال، تناسب ، نیک عمل ، یوم جزا اور حساب کتاب کا قائل ہے اور دنیا میں عدل کو نا تمام مانتا ہے اور انصاف کو غیر مکمل، اور معاشرے میں زیادہ سے زیادہ امن و آشتی اور کم سے کم فتنہ و فساد ہو اس پر زور دیتا ہے - غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کتنے مسلمان ہیں جو گائے کا گوشت کھاتے ہیں ؟ کتنے مسلمان ہیں جو ایک سے زائد شادیاں کرتے ہیں ؟ کتنے مسلمان ہیں جو ایک نشست میں تین طلاق دیتے ہیں ؟ کتنے مسلمان دہشت گردی میں شامل ہیں؟ ان سب کی شرح فیصد کیا ہے ؟ کتنے فیصد مسلمان ہیں جو قربانی کرتے ہیں اور کسقدر اہتمام سے کرتے ہیں ؟ اہل فکر و قلم کو سازشی موضوعات کے پیچھے پوشیدہ ہاتھ اور ان کے پس پردہ مخصوص اوقات اور سیاسی واقعات نظر کیوں نہیں آتے؟ فرمایا، یہ دور اسلام اور مسلمان دشمنوں کو سمجھنے اور ان کے خلاف کھل کر بولنے کا ہے نہ کہ اپنے عقیدہ میں غیر ضروری تنازعات پیدا کرنے کا - 

فرمایا، ٢٠١٥ کی خود ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق ، جو ٢٠١١ سے ٢٠١٣ کے اعداد و شمار پر مشتمل ہے، مسلمانوں میں طلاق کی شرح ہزار میں پانچ بھی نہیں ہے، جبکہ غیر اسلامی طرز معاشرت میں طلاق کی شرح ہر ایک ہزار میں ٧ سے ١٣ بلکہ اس سے بھی زاید ہے، اور نام نہاد مغرب میں تو یہ شرح ٤٠ سے ٥٠ فیصد ہے- یعنی ہر ہزار جوڑوں میں ٤٠٠ سے ٥٠٠ جوڑے طلاق شدہ ہیں، اب اس میں ایک نشست میں تین طلاق دینے والے مسلمانوں کی شرح کیا ہوسکتی ہے اہل خبر و نظر سے پوشیدہ نہیں ہوگی - قابل غور بات یہ بھی ہے کہ ان تمام اعداد و شمار میں اکثر" کورٹ میریج و طلاق " یعنی غیر اسلامی طرز معاشرت کے نام لیوا ہیں - اور ا ن تمام میں بشمول مسلمانوں کے طلاق ٢٠ سے ٣٥ سال کی عمر کے جوڑوں کے درمیان واقع ہوئی ہے، یعنی تہذیب جدیدہ کی ماری بے چاری مغرب زدہ نسل کے درمیاں - اور یہ شرح فیصد ہر سال ١٥ سے ٥٠ فیصد کی شرح سے مختلف ممالک میں بڑھ رہی ہے - اب ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تہذیب جدیدہ میں جو طرز معاشرت اور تہذیب و تمدن کا مغربی ڈھول پیٹا جا رہا ہے وہ کتنا پھٹا ہوا ہے- اور ٹی وی میڈیا، مغرب زدہ اور دین بیزار حضرات اس پھٹے ڈھول کو پیٹ پیٹ کر کیا ثابت کرنا چا ہتے ہیں؟ کتنی خواتین ہیں جو طلاق مغلظہ یا طلاق رجعی کو لے کر دارالافتاہ کو رجوع کرتی ہیں، یا طلاق سے بر سر پیکار جوڑے اپنے اپنے خاندان کے بزرگ ثالثی کو رجوع کرتے ہیں- تھذیب جدیدہ نے خاندانوں میں بزرگ باقی ہی کہاں رہنے دئے ہیں کہ کوئی ثالثی کرے- اور وہ کون سے جید علماء حق ہیں جو طلاق مغلظہ کی ہمت افزائی کر رہے ہیں یا ایک سے زاید شادی کی، اور اس بات پر بھی غور کیا جانا چا ہیے کہ غیر اسلامی نظام و قوانین کے تحت تہذیب جدیدہ میں کیسی کیسی غلیظ ترین طلاقیں اور شادیاں نہیں ہور ہی ہیں ، یا تہذیب جدیدہ میں کتنے ایسے مسلمان خواتین و حضرات ہیں جو اسلامی احکامات کے تحت طرز معاشرت ، نکاح، طلاق پر کاربند رہتے ہیں- پھر اسلام ، قران، احادیث کو لے کر متعصب اور بکاؤ میڈیا میں ڈھول پیٹنا چہ معنی، اسلامی قانون ہو یا کوئی اور قانون ، طلاق کے مسئلہ کو لے کر اس سے زیادہ کوئی اور کیا کرسکتا ہے کہ مرد کو عورت کے ساتھ ظلم و جبر پر سزا دے اور بہر حال طلاق اور علیحدگی تو مرد کی منشا ہو یا عورت کی ، فوری ہو یا بدیر ، اگر رجعت نہیں کرنا ہے تو یقینی ہے- اسلامی قوانین میں معاشرہ میں سدھار اور مثبت تبدیلی لانے اور تہذیب و تمدن کی تشکیل کے لئے خاطر خواہ شقیں موجود ہیں لیکن وہ جمہور علما کی اتفاق رائے سے مشروط ہے ناکہ کسی فرد کی اپنی دلربا خواہش سے ، اور نا ہی چند گنے چنے جدید علوم سے آراستہ ذہین و فطین حضرات کی درد مندی سے جنہیں کروڑوں متقی علمائے حق کے تفقہ سے انکار ہے 150 جبکہ اسلامی قوانین کی شرائط بھی بلکل اسی طرح ہیں جس طرح انسانی جمہوری قوانین کی شرائط ہوتی ہیں- آج انسانی قوانین فوری طلاق یا ایک نشست میں طلاق اور علیحدگی کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن کل یہی قوانین معاشرے کے حالات دیکھ کر فوری طلاق اور علیحدگی کی ضرورت پر زور دے سکتے ہیں، بلکل اسی طرح مرد کی ایک سے زائد شادی وقت حالات اور موقع محل سے مشروط ہے - فرمایا، اعداد و شمار کا کیا ہے، تہذیب جدیدہ میں ایک لاکھ گدھے جمع ہو جائیں تو ایک انسان کو بندر اور ایک بندر کو انسان ثابت کر سکتے ہیں، بلکہ کر رہے ہیں- حقیقت صاف عیاں ہے کہ بر صغیر ہو یا مغرب، صنعتی انقلاب کے بعد نظام معاشرت کی حشر سامانیاں تہذیب جدیدہ میں اندھے کو بھی نظر آسکتی ہے کہ کیسی شادیاں ، اور کیسی طلاقیں ؟ کیا کوئی نظام معاشرت نافد ہے جدید معاشرے میں ؟ اور اگر ہے تو کہاں ہے اور نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے؟ اور انسانیت کو اس سے کیا کیا نقصانات ہورہے ہیں ؟ بحث و مباحثہ اور تنقید کے اصل موضوعات یہی ہونا چاہیے نہ کہ اٹکل پچو کے تیر چلائیں اور دین فطرت کے لچکدار قوانین کی دہا ئی دے دے کر را ئی کا پربت بنا ئیں ، بلکہ میڈیا تو ایٹم کا پربت بنانے پر تلا ہوا ہے ، اور اب تو اچھے بھلے پڑھے لکھے سمجھدار اور ایماندار لوگ بھی میڈیا کے نقار خانہ میں سر ملانے حاضر ہو جارہے ہیں - الله ہم سب کو صحیح راہ دکھائے- آمین-

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا