English   /   Kannada   /   Nawayathi

''جسٹس سری کرشنا کمیشن'' رپورٹ،اعلی وارفع،تاریخ ساز جسٹس کرشنا کو اعزاز قابل تعریف

share with us

آزادی کے بعد سے آج تک متعدد فرقہ وارانہ فسادات کے بعد ، فسادات کی تحقیقات کے لئے سرکاری کمیشن بٹھائے گئے ۔ جن کے سربراہ اکثر ، عدالتوں کے جج ہو تے آئے ہیں ۔ اپنی تحقیقات میں ججوں نے ، فسادات میں ملوث پارٹیوں ، افراد پولیس والوں کے نام بتلآئے ۔ کمشینوں کی رپورٹ اور شفارشات پر عمل کرنے کا وعدہ کرنے کے باوجود ، اج تک ریاستی سرکاروں نے کوء کارواء نہیں کیں ۔ یہ اک انتہاء افسوس ناک بات ہے ۔ ملک میں اکثر و بیشتر کانگریس کی سرکار صوبوں میں رہی اس نے کبھی بھی ۔۔ فسادی عناصر کے خلاف کوء بھی قانونی کارواء نہیں کی ۔ اس لئے یہ کہنا بے جا نہیں کہ فرقہ واریت کو بڑھانے میں کانگریس کا ہاتھ رہا ۔ کانگریس ہی نہیں متعدد غیر کانگریسی سیکولر پارٹیوں کا بھی رویہ کانگریس سے ملتا جلتا ہے ۔ ورنہ فرقہ پرستوں کو پھلنے پھولنے می اتنی آسانی نہ ہوتی کہ وہ آج مرکز میں اقتدار میں ہیں ۔ 
دسمبر 1992 ، جنوری 1993 میں،ممبئی میں ، بابری مسجد کی شہادت کے بعد ، انتہاء بد بخت فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ۔ بے پناہ جان ومال کی بربادی ہوء تقریبا دو ہزار سے زائید افراد مارے گئے ۔ جن میں اکثیریت مسلمانوں کی تھی ۔ مہاراشٹرا کی کانگریسی سرکار نے ، عدالت کے اک جج سری کرشنا کی سربراہی مین فسادات کی جانچ کرنے کے کمیشن بنایا ۔ جسے ''سری کرشنا کمیشن ''کہا جاتا ہے ۔ پانچ سال تک بانتہاء جانفشانی کے ساتھ سری کرشنا نے فسادات کی جانچ کی ۔ متعدد فسادات کے متعدد علاقون میں ، تفشیش کے لئے گئے ۔ تا کہ حقیقت حال سچاء کا پتہ لگے ، معصوموں کو انصاف اور خاطیوں کو کیفر کردار کو پہنچایا جائے ۔ تقریبا پانچ سو سے زیادہ گواہان کمیشن کے سامنے آئے ۔ بیرسٹر یوسف مچھالہ ، کمیشن کے سامنے مسلمانوں کی طرف سے حاضری دیا کرتے ر ہئے اس کے علاوہ مرحوم واحد علی و اے اے خان و فضل شاد ، نے مسلم گواہان کو بڑے پیمانے پر کمیشن کے سامنے حاضر کرنے میں نمایاں مستعدی دکھاء ۔ یہ انتہاء مشقت آمیز کام تھا ۔ کمیشن دیواروں کو دیکھ کر اپنی رپورٹ پیش نہیں کر سکتا تھا ۔ اگر اس قدر اتنی محنت و مشقت کے ساتھ گواہان کمیشن کے سامنے نہ اتے۔ نہ ہی اس قدر واضح اور مستد رپورٹ کمیشن پیش کرتا ۔ جسے ہم ملک میں ہر فسادات کا آئینہ کہہ سکتے ہیں ۔ اک بات کا ذکر ضروری ہے کہ صرف مرحوم محمد امین کھنڈوانی ہی واحد مسلم لیڈر تھے جو کرشنا کمیشن کے سامنے گواہی دینے آئے ۔ اور اپنے روشن ضمیر ہونے کا ثبوت دیا ۔ کتنے ہی اعلی پولیس آفیسروں کو بھی کمیشن نے بلایا ۔
سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ عدل وانصاف کی تاریخ میں بے شک اہم مقام رکھتی ہے کہ ہندو ہی نہیں مسلم افراد کی بھی فسادات کے تعلق سے، سر زنش کی ۔ ہندوتوا وادیوں کے نام اور پولیس والوں کو فسادات میں شامل ہونے کے ساتھ حکومت کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا ۔ ملک کے انصاف پسندوں نے بڑے پیمانے پر کرشنا کمیشن کی رپورٹ اور شفارشات کو سراہا ۔ افسوس ناک پہلو ہے کہ کمیشن کی رپورٹ پر عمل کرنے کا کانگریسی سرکار 
نے وعدہ کیا ، مگر مہاراشٹر میں برسہا حکومت ہونے کے باوجود ، کانگریس اپنا وعدہ پورا نہ کر سکی ۔ فسادی آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں فساد میں ملوث پولیس والے آزاد ہی نہیں ان کی ترقیاں بھی کانگریس راج میں ہوئیں ۔ 
>>> ملک میں انسانیت زندہ ہے یہ بات سری کرشنا ،کی انتہاء معیاری ''سری کرشنا کمیشن'' کی رپورٹ سے ہوتی ہے ۔ انسانی اقدار سے پر ، اعلی وارفع رپورٹ پر پر،محترم جج سری کرشنا کو تاریخ کے صفحات میں سنہرے الفاظ میں یاد رکھنے کی جگہ مل گء ۔ انسانیت انہیں سلام کرتی رہے گی نیز کانگریس کے منافقانہ چہرے کو بھی واضح کرتی رہے گی کہ انسانیت پر فرقہ واریت پر اس کے قول وعمل میں کس قدر تضاد ہے ۔
>>> کاش کہ مہاراشٹرا کی کانگریس سرکار، اپنے حسب وعدہ کرشنا کمیشن کی رپورٹ اور شفارشات پر عمل کر دیتی تو شاید ممبء فسادات کے بعد گجرات اور مظفر نگر یو پی اور دیگر جگہوں پر فسادات نہ ہوتے ۔ نہ گجرات سے ترقی پا کر،آج مرکز میں ہندوتواوای مودی کی سرکار ہوتی ۔۔ جس کے ہاتھوں پورا ملک اک انتہاء پر آشوب دور سے گذر رہا ہے ۔ 
محترم جج سری کرشنا کو اپنے بے پناہ انسان اقدار کی بناء4 پر، باندرہ ممبء میں، سید جلال عمری امیر جماعت اسلام ہند کے ہاتھوں ''سد بھاونا ''اعزاز سے اک جلسہ مین نوازا گیا ۔۔ یہ قابل تعریف کام ہوا ۔ ویسے انسانیت پر چلنے والے کسی دنیاوی اعزاز کے بھوکے نہیں ہوتے ۔ایسے لوگوں کے لئے یہ بڑی بات ہوتی ہے کہ وہ انسانیت کو فرض سمجھ کر کرتے ہیں ۔ اس پر ان کا ضمیر مطمئین ہو تا ہے ۔
>>> معزز سری کرشنا نے انہیں اعزاز ملنے کے موقع پر ،نتہائی بصیرت آمیز تقریر کرتے کہا کہ'کہ'' میں نے وہ کیا کہ جو اک انسان کو کرنا ضروری تھا ۔ یہ میرا فرض تھا ۔ انسان سوچنے سمجھنے کے لئے عقل رکھتا ہے ۔ اجھاء براء میں فرق محسوس کر سکتا ہے ۔ انسان کو اچھا راستہ اپنانا چاہئیے ۔ ہم سب اس ملک کی بلبلیں ہیں جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا تھا ۔ کسی اک بھی بلبل کو تکلیف نہیں ہونا چا ئیے ۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا