English   /   Kannada   /   Nawayathi

اردو زبان کیلئے ہم خود کیا کرسکتے ہیں؟

share with us

آزادی کے بعد ہندوستان میں یہ رویہ تو نہیں اپنایاگیا کیونکہ وہ ایک جمہوری ملک اور جمہوریت میں ایسے اقدامات کی بظاہر گنجائش نہیں ہوتی پھر بھی نہایت کوشش ومہارت سے یہ ضرو کیاگیا کہ نئی نسل اردو اور اس کے پورے قیمتی ورثہ سے بے بہرہ ہوکر رہ جائے لہذا ۶۹ سال کی محنت کے بعد آج دکھائی دیتا ہے کہ ہر سطح پر اردو کو نظرانداز کیاجارہا ہے۔ اس کی تعلیم کا سرکاری سطح پر معقول انتظام نہیں۔ اس کے اداروں سے سوتیلا سلوک برتا جارہا ہے۔
گذشتہ سات دہائیوں کے دوران روا رکھے گئے اس سلوک کے نتیجہ آج حال یہ ہے کہ نئی نسل کا تعلق اپنے لسائی اورثقافتی ماضی خصوصاً اردو زبان سے تقریباً منقطع ہوچکا ہے۔ آج سرکاری اسکولوں کے پرائمری درجات میں اردو کی تعلیم کا تقریباًخاتمہ ہوگیا ہے درمیانی درجات میں اردو طلباء کی تعداد تشویشناک حد تک محدود ہوگئی ہے اور اعلیٰ درجات سے جو طلباء تعلیم حاصل کرکے نکل رہے ہیں ان کی صلاحیت مشکوک اور استعداد لائقِ تشویش ہے۔ نہایت مہارت کے ساتھ ملک میں نظام تعلیم ایسا نافذ کیاگیا ہے جس میں اردو پڑھے کا نئی نسل کو موقع ہی نہیں ملتا جس سہ لسانی فارمولے کا اعلان کیاگیاتھا اس میں اردو کی جگہ سنسکرت کو ملی اور اس طرح اردو پڑھنے والوں کے لئے طرح طرح کی دیواریں کھڑی کردی گئیں ہیں اور نفسیاتی طور پر بھی وہ اپنی زبان کو بے وقعت سمجھنے لگے ہیں جس کے پڑھنے میں انہیں کوئی اقتصادی فائدہ نظر نہیں آتا۔ اس کی دوسری شکل اردو کے حق میں وہ نعرے بازی ہے جو عموماً سیاست داں اردو مجلسوں، مشاعروں اور مذاکروں میں کرتے ہیں اور اس سے ان کا واحد مقصد اردو داں طبقہ کی ہمدردی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن عملی سطح پر اس لفاظی سے اردو کا کچھ بھلا نہیں ہوتا۔ اردو تحریک کی ایک بڑی کمزوری یہ رہی ہے کہ اہل اردو نے حکومت وقت سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرلی تھیں بلکہ منطقی دلیلوں پر بھی ان کی طرف سے بہت زیادہ زور دیاجاتا ہے حالانکہ ان دونوں کی اہمیت وافادیت دن بدن محدود ہوتی جارہی ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل اردو خود کیا کررہے ہیں پہلے اس پر وہ غور کریں۔
اردو کابنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اردو پڑھنے اور اردو میں دسترس حاصل کرنے کے بعد کسی کو روزی حاصل کرنے میں، فکر معاش میں اور اقتصادی زندگی کی جدوجہد یا مقابلے میں کسی طرح کی کمزوری،مجبوری اور دشواری پیدانہ ہو یہی اردو کا معاشی مسئلہ ہے۔
جب تک حامیانِ اردو اور محبانِ زبان اس مقصد کو پیش نظر نہیں رکھیں گے یا اس کے حصول کے لئے عملی راہیں متعین نہیں کی جائیں گی، بے ربط سرگرمیاں یا آہ وبکا کام آنے والی نہیں اور کتنے ہی جلسوں یا کانفرنسوں کے باوجود اس ملک کی سماجی اور تہذیبی زندگی میں اردو بنیادی مقام حاصل نہیں کرسکتی۔اردو کی معاشی بنیاد کو مستحکم کرنے کے لئے مختلف سمتوں میں سرگرم عمل ہونے کی ضرورت ہے مثلاً اردو میڈیم اسکولوں کا قیام جہاں اردو داں حضرات کو کام مل سکے گا میونسپل کارپوریشنوں اور دیگر بلدیاتی اداروں میں اردو عملہ کا تقرر جہاں بڑی تعداد میں اردو کے تعلیم یافتہ کھپ سکیں گے جن اسکولوں اور کالجوں میں اردو کے ٹیچروں کی آسامیاں برسوں سے خالی پری ہیں حکومت کی جانب سے ا ن کو فوراً پر کرانے کی جدوجہد وغیرہ یہ کام اگر پوری یک جہتی اور یکسوئی سے انجام دےئے جائیں تو اس سمت میں کامیابی مل سکتی ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اردوداں حضرات اپنا جائزہ لے کر یہ دیکھنے کی تکلیف گوارہ کریں کہ انہیں خود اپنے گھر میں اردو کو کس قدر نمائندگی دے رکھی ہے؟ کیا انہوں نے اپی اولاد کی تعلیم وتربیت میں اردو کا کوئی حصہ مقرر کیاہے یا جو والدین خود اردو جانتے اور سمجھتے ہیں ان کے بچے بھی اردو سے اسی قدر واقفیت ہیں کہ فخر سے اسے اپنی زبا کہہ سکیں اگر نہیں تو یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ سرکاری ذرائع پر اردو کی تعلیم کا معقول انتظام ہونا چاہئے اس میں اختلاف کی قطعی گنجائش نہیں لیکن اس کار خیر کی ابتدا اپنے گھروں پر اردو پڑھانے سے ہوتو بنیادی طور پر اردو کے مطالبہ میں استحکام پیدا ہوگا۔کیا یہ ممکن نہیں کہ ایسے تمام والدین جو اردو لکھنا اور پڑھنا جانتے ہیں اپنا وقت نکال کر خود اولاد کو اردو سے روشناس کرائیں اور ان کے پاس وقت ہو یا ان کی حیثیت اس قابل ہوتو معلم رکھ کر تعلیم کا نظم کرائیں اگر وقت وحیثیت دونوں کے وہ مالک نہیں تو ایسے افراد کو دوسروں کے ساتھ مل کر بچوں کی اجتماعی تعلیم کا انتظام کرنا چاہئے۔ جہاں اردو سے تعلق رکھنے والے بکھرے ہوئے ہیں وہاں محلے کے دوچار گھروں کے بچوں کے لئے اردو کی تعلیم کا انتظام کیاجاسکتا ہے زیادہ نہیں تو اس کی ابتداء خواتین کے ذریعہ ہوسکتی ہے جو ان نونہالوں کی تعلیم میں ہمیشہ سے اہم کردار ادا کرتی آئی ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا