English   /   Kannada   /   Nawayathi

اقلیتوں کا بنیادی مسئلہ جانبداری کا رویہ ہے

share with us

اس کے برعکس اکثریت کی فرقہ پرست جماعتوں کے رہنما باربار یہ دہائی دیتے رہے کہ ’’ہندوستان میں اقلیتوں کو پوری دنیا سے زیادہ حقوق ومراعات دی گئیں ہیں جن کی وجہ سے ہندو اکثریت کے حقوق غصب ہورہے ہیں‘‘ حالانکہ اس طرح کا شکوہ کرنے والے تنگ نظروں نے اس حقیقت کو فراموش کردیا ہے کہ دستورِ اساسی کی پالیسی ایک چیز ہے جس میں ممکن ہے کہ ہندوستان کئی ملکوں سے آگے ہو لیکن دوسری چیز دستور کے متن اور روح کا نفاذ ہے اس میں ہمارے ملک کی کارکردگی اتنی بھی لائق اطمینان نہیں جتنی کہ بدعنوانی یا چھوت چھات کے معاملہ میں نظر آتی ہے کہ دستور میں مذکورہ برائیوں کی ممانعت کے باوجود کوئی بھی سمجھدار اس حقیقت سے منکر نہیں ہوسکتا کہ ہندوستان میں آج ہر سطح پر بدعنوانی کا دور دورہ ہے۔ اور ایک بڑا طبقہ ایسا موجود ہے جس کے ساتھ چھوت چھات برت کر ، ذات ، برادری اور نسل کی بنیاد پر سخت امتیاز برتاجارہا ہے۔
دستور کوئی جاندار چیز تو ہے نہیں کہ اس کے ہاتھ پیریا صور ت شکل بھی ہو اور وہ اپنا دل ودماغ بھی رکھتا ہو وہ جو کچھ کہتا ہو یا اس سے جو مطالبہ کیاجائے اس پر عمل کرنے کی قدرت کا بھی وہ مالک ہو،حقیقت یہ ہے کہ دوسرے تمام قوانین کی طرح ملک کا دستو ربھی ان افراد یا اداروں کا محتاج ہے جن پر اس کے نفاذ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اگر یہ افراد یا ادارے صحیح شعور اور دیانتداری کے ساتھ اس پر عمل نہیں کرتے تو دستور کی اچھی سے اچھی دفعات عوام کے لئے سودمند ثابت نہیں ہوسکتیں، اسی لئے جن جمہوری ممالک میں شہریت کے حقوق وفرائض کا جاگتا ہوا احساس نہیں پایاجاتا اور نہ سیاسی شعور اتنا ترقی یافتہ ہوتا ہے کہ وہ ارباب اقتدار یا نوکر شاہی کی نگرانی کرسکے وہاں عموماً دستور اساسی کی پالیسی اور حقیقی صورت حال میں نمایاں فرق وامتیاز نظر آتا ہے۔
ہمارے ملک ہندوستان میں کیونکہ قوانین سے آگاہی نہ تو ان لوگوں کو ہے جو ان سے متاثر ہوتے ہیں اور نہ ان کو جن پر قوانین کے نفاذ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس لئے اقلیتوں کو دستوری تحفظات کا خاطرخواہ فائدہ نہیں پہونچتا لیکن یہاں کے تنگ نظر سیاست داں صر ف زبان وبیان سے ہی شور نہیں مچاتے بلکہ اس کو اکثریت کی حق تلفی بھی گردانتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔
ہندوستان میں اقلیتوں کا مسئلہ محض قانونی اور عدالتی انتظام کے ذریعہ حل نہیں کیاجاسکتا بین الاقوامی سطح پر اس کا تجربہ پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ پر یورپ میں کیاگیا جب لیگ آف نیشنز کے تحت دی جانے والی گارنٹی کے ذریعہ مشرقی اور وسطی یورپ کے ممالک میں بسنے والی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کا جتن کیاگیا لیکن جلد یہ ثابت ہوگیا کہ اقلیتوں کا مسئلہ کیونکہ سب سے پہلے ایک انسانی مسئلہ ہے اسلئے صرف قانون کے ذریعہ اس سے نمٹا نہیں جاسکتا، دوسرے یہ تمام دستوری دفعات نیز ضمانتوں کی طرح نافذ کرنے والوں کی نیک نیتی اور اہلیت پر منحصر ہوتا ہے۔ ہندوستان میں اقلیتوں کا بنیادی مسئلہ ہر سطح پر وہ جانبداری ہے جس کا دائرہ دن بدن وسیع سے وسیع تر ہوتاجارہا ہے، اس کے پنپنے کا سبب یہ نہیں کہ ملک کا قانون ناقص ہے یا دستوری تحفظات ناکافی ہیں بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ اول تو مذکورہ قوانین او ر تحفظات پر دیانتداری سے عمل نہیں ہوتا ۔ دوسرے اکثریت یا ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے درمیان ایسی سماجی اور نفسیاتی رکاوٹیں حائل ہیں کہ مختلف فرقوں میں مل جل کر رہنے کی وہ مشترکہ بنیاد نہیں بن پارہی جو قومی اتحاد کو فروغ دینے والی ہو لیکن اقلیتوں کے تشخص کو بھی ختم نہیں ہونے دے۔ ان تعصبات کا سرکاری حکام پر بھی اثر پڑتا ہے اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں ان کی غفلت وکوتاہی مزید بڑھ جاتی ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے آئے دن اعلانات ہوتے ہیں کبھی پندرہ نکاتی پروگرام کے نام پر کبھی لسانی مسائل حل کرنے کے سوال پر مگر اقلیتوں کے شام وسحر وہی رہتے ہیں جو پہلے تھے اس کی بنیادی وجہ تلاش کرنے کی آج سب سے زیاد ہ ضرورت ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا