English   /   Kannada   /   Nawayathi

زندگی کی بازی ہارنے والے ہی خودکشی کرتے ہیں

share with us

ایک تجزیہ کے مطابق ملک میں ہر پانچ منٹ کے اندر کہیں نہ کہیں خودکشی کا واقعہ رونما ہوتا ہے راجدھانی دہلی میں سالانہ تقریباً ایک ہزار افراد خودکشی کرکے اپنی جان گنوادیتے ہیں، گذشتہ دنوں تو ایک پان کی دوکان والے نے اپنے پورے خاندان کو زہر دیکر اپنی زندگی سے ہاتھ دھولیا، جس سے راجدھانی کے عام لوگوں کے دل دہل گئے تھے ، واردات کے بعد جب پولس نے گھر کی تلاشی لی تو وہاں اناج کا ایک دانہ نہیں ملا، پورا گھر بھکمری اور مفلسی سے عاجز آچکا تھا، گھر کی دیواروں پر انتہائی دردناک فقرے لکھے تھے، جب سے دلی میں ماحولیات کی اصلاح کو لیکر مہم شروع ہوئی اور کارخانے بند ہوگئے وہاں خودکشی کی وارداتوں کی شرح بڑھ گئی ہے، شہر کو صاف ستھرا اور خوبصورت بنانے کے نام پر کافی لوگوں کو فٹ پاتھ پر سے بھی ہٹایاگیا ، اس سے بڑی تعداد میں مقامی لوگ بے روزگار ہوگئے لیکن ان کے لئے روزی روٹی کمانے کا کوئی متبادل راستہ نظرنہیں بچا، حکومت سماجی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوگئی۔ یہ حال چند مخصوص شہروں کا ہی نہیں دوسرے بڑے شہروں سے بھی خبریں مل رہی ہیں کہ لوگ وہاں زندگی کی جدوجہد میں ناکام ہوکر فرار کا یہی راستہ اپناتے ہیں کہ خودکشی کرلیں، مختلف شہروں میں خود کشی کے اسباب جدا جدا ہوسکتے ہیں، کہیں حق تلفی اور مایوسی اس کا سبب بنتی ہے تو کہیں غریبی اور بے روزگاری سے عاجز آکر لوگ خودکشی کرلیتے ہیں، آندھراپردیش، مہاراشٹر اور کرناٹک میں کسان فصلیں خراب ہونے یا وقت پر پانی وبجلی نہ ملنے سے ، بینکوں کو قرض ادا نہیں کرپاتے تو موت کوگلے لگانے میں عافیت سمجھتے ہیں کیونکہ اس کے بعد ان کے اہل خاندان کو سرکاری کی طرف سے مالی امداد مل جاتی ہے۔
خودکشی کی بیشتر وارداتیں ، غربت، بے روزگاری یا مالی پریشانی کے باعث ہوتی ہیں، ان کے علاوہ دیگر اسباب بھی ہوسکتے ہیں مثال کے طور پر جہیز کے مظالم سے تنگ آکر یا عصمت دری کا شکار ہوکر بھی عورتیں مرجانا گوارہ کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ بعض بیماریاں اور نفسیاتی وجوہ بھی ہوسکتے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے بھوپال میں مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے ریاستی سکریٹری پرمود پردھان نے بغیر کسی ظاہر ی اسباب کے خود کشی کرکے مدھیہ پردیش کے دارالحکومت میں سنسنی پھیلا دی تھی، گذشتہ دنوں اسٹار ٹی وی کی خبروں میں بتایاگیا کہ ایک خاندان میں پیدا ہونے والے سبھی بچے اپاہج اور ایسی بیماری میں مبتلا ہیں جس کا علاج نہایت مہنگا ہے۔ حکومت کی طرف سے ان کو مدد نہ ملنے پر مایوسی کے عالم میں انہوں نے صدرجمہوریہ سے اجتماعی خودکشی کی اجازت طلب کی تھی ایسے اور بھی پریشان حال لوگ ہوسکتے ہیں۔
تاہم خودکشی کی ان وارداتوں کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ایک حقیقت واضح طور پر سامنے آئے گی کہ مسلمانوں میں اس کا اوسط دوسرے فرقوں کے مقابلے کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کا سبب ان کا وہ عقیدہ ہے جس کے مطابق ہر اچھے اور برے کا کرنے والا مالک حقیقی اللہ تعالیٰ ہے اس لئے عام طور پر مسلمان تنگی وبدحالی یا دیگر پریشانیوں کو برداشت کرنے کا زیادہ مادہ رکھتے ہیں دوسرے انہیں مذہبی طور پر اپنی جان خود ختم کرلینے سے منع کیاگیا ہے اور جزاء وسزا کے تعلق سے ان کا عقیدہ آخرت خود کشی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، حقیقت میں خود کشی کے روز افزوں واقعات بیمار معاشرہ کی دین ہیں، ہمارا سماج کیونکہ حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت دن بدن کھوتا جارہا ہے ، اس میں ہمت وبرداشت کم ہورہی ہے لہذا خودکشی کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں ان کو اگر روکنا ہے تو معاشرہ کے احوال کو درست کرنا پڑے گا۔ خاص طور پر اس میں اخلاقی جرأت اور ہمت کی افزائش ہونا چاہئے۔ تبھی اس بزدلی میں کمی آسکتی ہے۔
ہندوستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ایسی سماجی تنظیموں کا فقدان ہے جو مایوس وبے سہارا لوگوں کی بروقت رہبری ومدد کرسکیں، نفسیاتی طور پر انہیں دم دلاسہ دینے کا کام انجام دیں لہذا اس طرف حکومت کو ہی نہیں عوام کو بھی توجہ دینا چاہئے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا