English   /   Kannada   /   Nawayathi

حجاج کرام کے لے ۱۰ ذی الحجہ کے اعمال میں ترتیب

share with us

۱۰ ذی الحجہ کے یہ مذکورہ اعمال قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے نبی حضور اکرم ﷺ نے اپنے حجۃ الوداع میں جس ترتیب سے انجام دئے تھے وہ صحیح مسلم کی مذکورہ حدیث میں وارد ہے:
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالکٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ اَتَی مِنَی، فَاَتَی الْجَمْرَۃَ فَرَمَاہَا، ثُمَّ اَتَی مَنْزِلَہُ بِمِنَی وَنَحَرَ، ثُمَّ قَالَ لِلْحَلَّاقِ: "خُذْ" وَاَشَارَ اِلَی جَانِبِہِ الْاَےْمَنِ، ثُمَّ الْاَےْسَرِ، ثُمَّ جَعَلَ ےُعْطِےْہِ النَّاسَ۔ (صحیح مسلم ۔ کتاب الحج ۔ باب بیان ان السنۃ یوم النحر ان یرمی ثم ینحر ثم یحلق والابتداء فی الحلق بالجانب الایمن من راس المحلوق)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب منی آئے تو پہلے جمرہ عقبہ پر گئے اور وہاں کنکریاں ماریں، پھر منی میں اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے اور پھر قربانی کی، اس کے بعد حجام سے کہالو اور اپنے سر کے داہنی طرف اشارہ کیا اور پھر بائیں جانب اشارہ کیا اور اپنے بال لوگوں کے دینے شروع کردئے۔
نیز صحیح مسلم میں وارد ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کی کنکریاں مارتے ہوئے ارشاد فرمارہے تھے کہ مجھ سے اپنے مناسکِ حج سیکھ لو، اس لئے کہ مجھے معلوم نہیں کہ میں اس حج کے بعد پھر حج کروں گا۔ 
حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ حجاج کرام کو ۱۰ ذی الحجہ کے اعمال اُسی ترتیب سے کرنے چاہئیں جو صحیح مسلم میں ذکر کئے گئے ہیں اور عازمین حج کو یہی تعلیم دینی چاہئے کہ یہ چاروں اعمال اُسی ترتیب سے کریں جس ترتیب سے تمام نبیوں کے سردار حضور اکرم ﷺ نے اپنے پہلے اور آخری حج میں کئے تھے۔ لیکن اگر کوئی حاجی ان اعمال کو ترتیب کے خلاف کرلے مثلاً رمی سے قبل قربانی کرلے یا رمی سے قبل بال منڈوادے تو کیا اس کی وجہ سے کوئی دم واجب ہوگا یا نہیں؟ اس میں فقہاء وعلماء کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ طواف زیارت اور باقی تمام تین اعمال (رمی، قربانی اور حلق) کے درمیان بالاتفاق ترتیب واجب نہیں ہے، یعنی طواف زیارت‘ رمی، قربانی اور حلق یا قصر سے قبل یا بعد میں کبھی بھی کیا جاسکتا ہے۔ ان اعمال سے فراغت کے بعد طواف زیارت عام لباس میں ورنہ احرام کی حالت میں ادا کیا جائے گا۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ حج افراد ادا کرنے والے کے لئے چونکہ قربانی واجب نہیں ہے اس لئے اس کے حق میں قربانی میں بھی ترتیب ضروری نہیں ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے میں حج قران اور حج تمتع کرنے والے کے لئے رمی، قربانی اور حلق یا قصر میں ترتیب ضروری ہے، چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے رائے میں رمی، قربانی اور حلق یا قصر میں ترتیب کی خلاف ورزی کی صورت میں دم واجب ہوگا۔ لیکن حضرت امام ابوحنیفہؒ کے نقطۂ نظر کی بابت یہ بات ضرور ملحوظ رکھیں کہ اگر کوئی شخص مسائل سے عدم واقفیت کی بنا پر ترتیب کی خلاف ورزی کرے تو خود حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک بھی دم واجب نہیں ہوگا، حضرت امام ابوحنیفہؒ کے مشہور شاگرد حضرت امام محمدؒ نے خود اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی دلیل حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول ہے: جس شخص نے حج کے کسی (اہم) عمل کو مقدم یا مؤخر کیا تو اس پر دم واجب ہوگا۔ نیز یہ بھی دلیل ہے کہ احرام باندھنے کے بعد اگر کسی حاجی کے سر میں بہت زیادہ جوئیں ہوجائیں تو شریعت اسلامیہ نے احرام کی حالت میں سر منڈوانے کی اجازت دی ہے لیکن فدیہ واجب ہوگا یعنی روزہ یا صدقہ یا قربانی جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ البقرۃ آیت ۱۹۶ میں ذکر کیا ہے، تو جب عذر کی وجہ سے قبل از وقت سر منڈوانے پر روزہ یا فدیہ یا دم واجب ہوا تو بغیر عذر کے اگر قربانی اور رمی سے قبل حلق کردے تو بدرجہ اولیٰ دم واجب ہونا چاہئے۔
اس کے علاوہ عقلی دلیل بھی ہے کہ جس طرح میقات مکانی میں تاخیر ہوجائے یعنی کوئی شخص احرام کے بغیر میقات سے تجاوز کرجائے تو دم واجب ہوتا ہے، اسی طرح ۱۰ ذی الحجہ کو جس عمل کے لئے جو وقت مقرر ہے، مثلاً اوّل رمی، پھر قربانی اور پھر حلق یا قصرتو مقررہ وقت سے تاخیر یعنی ترتیب کے بدلنے پر دم آنا چاہئے۔
حضرت امام مالکؒ کی رائے ہے کہ رمی سے قبل حلق یا قصر کرانے والے پر دم واجب ہوگا ۔ (المدونہ الکبری ۱/۲۳( 
حضرت امام احمد بن حنبل ؒ ، حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے دونوں مشہور شاگرد حضرت امام یوسفؒ اور حضرت امام محمدؒ کی رائے ہے کہ ان مذکورہ اعمال میں ترتیب واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔ (رد المختار ۲/۲۵۰، بدائع الصنائع ۲/۱۴۱) لیکن سب نے جانتے بوجھتے ترتیب کی خلاف ورزی کو باعث کراہت کہا ہے۔ ان حضرات کا استدلال اُن مشہور روایات سے ہے جو صحاح ستہ میں منقول ہیں اور جن میں حج سے فراغت کے بعد ذبح سے پہلے حلق اور رمی سے قبل ذبح کے سوال میں آپ ﷺ نے "کوئی حرج نہیں ہے" فرمایا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ حجۃ الوداع میں منی میں لوگوں کے لئے تشریف فرماہوئے تاکہ لوگ سوال کریں، ایک شخص نے کہا کہ میں نے لاعلمی میں ذبح سے پہلے حلق کیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ذبح کرلو کوئی حرج نہیں، دوسرے نے آکر کہا میں نے رمی سے قبل قربانی کرلی ہے، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں، تقدیم اور تاخیر سے متعلق جو بھی سوال کیا گیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔ (صحیح بخاری )

ائمہ ثلاثہ اور صاحبین نے اس حدیث میں حرج سے حرج دنیوی اور حرج اخروی دونوں ہی مراد لئے ہیں ، یعنی نہ ایسے شخص پر دم جنایت واجب ہوگا اور نہ وہ آخرت میں گنہ گار ہوگا۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے اس حدیث سے حرج اخروی مراد لیا ہے یعنی ان تنیوں اعمال کے آگے پیچھے کرنے پر آخرت میں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ نیز غلطی کرنے والے صحابۂ کرام کو مسائل سے واقفیت ہی نہیں تھی جیساکہ احادیث کے الفاظ سے واضح ہوتاہے اور مسائل سے نا واقفیت کی وجہ سے ان اعمال کو ترتیب سے نہ کرنے پر حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے میں بھی کوئی دم لازم نہیں۔ لیکن قصداً ان اعمال کو ترتیب کے خلاف کرنے پر حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے میں دم لازم ہوگا۔

اس موضوع پر فقہ اسلامی ہند نے قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی سرپرستی میں علماء وفقہاء کا ایک سیمنار منعقد کیا تھا کہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے میں ۱۰ ذی الحجہ کے اعمال (رمی، قربانی اور حلق یا قصر) میں ترتیب برقرار رکھنا ضروری ہے، لیکن آج کے حالات میں ترتیب برقرار رکھنا انتظامی امور کی وجہ سے مشکل ہوگیا ہے، نیز ان دنوں حکومت سعودیہ نے اپنی نگرانی میں ادارے قائم کئے ہیں جو قربانی کراتے ہیں اور یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ ان کے یہاں ترتیب واجب نہ ہونے کی وجہ سے عموماً ترتیب کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے تو کیا اس کے حل کے لئے عدم وجوب کے قائلین اور احناف میں صاحبین کے قول کو اختیار کیا جاسکتا ہے؟ اس موضوع پر متعدد مفتیان کرام نے اپنے قیمتی مقالے تحریر کئے ہیں۔ اکثر مفتیان کرام کی رائے پر یہ فیصلہ کیا گیاکہ جمہور اور صاحبین کی رائے بھی قوی دلیل پر مبنی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن مسائل میں حضرت امام ابوحنیفہؒ اور صاحبین کے درمیان اختلاف ہو ان میں صاحبین کی رائے کو ترجیح دینا اصحاب افتاء کے یہاں کوئی نادر امر نہیں ہے،چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ حجاج کرام کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو ترتیب کی رعایت کو ملحوظ رکھیں اور یہی مطلوب ومقصود ہے تا ہم ازدحام، موسم کی شدت اور مذبح کی دوری وغیرہ کی وجہ سے صاحبین اور ائمہ ثلاثہ کے قول پر عمل کرنے کی گنجائش ہے، لہذا اگر یہ مناسک ترتیب کے خلاف ہوں تو دم واجب نہیں ہوگا۔ 
ان دنوں بعض حضرات حضور اکرم ﷺ کی سنت اور صحابۂ کرام کے عمل کے برخلاف عازمین حج کو ابتداء ہی سے یہ دعوت دیتے ہیں کہ ۱۰ ذی الحجہ کے اعمال (رمی، قربانی اور حلق یا قصر) اپنی سہولت سے جب چاہیں کریں۔ ان اعمال میں ترتیب واجب نہ ہونے کو اگر تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم عازمین حج کو حج کی ادائیگی سے قبل یہ ترغیب دیں کہ وہ حضور اکرم ﷺ کی سنت کے مطابق ان اعمال کو کرنے کی کوئی کوشش ہی نہ کریں بلکہ اپنی مرضی اور سہولت سے ان اعمال میں سے جو چاہیں کرلیں۔ یہ یقیناًشریعت اسلامیہ کی روح کے خلاف ہے، علماء کرام کو چاہئے کہ وہ عازمین حج کو یہی تعلیم دیں کہ ۱۰ ذی الحجہ کے اعمال اُسی ترتیب سے کریں جس ترتیب سے حضور اکر م ﷺ نے کئے تھے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں گزرا ،اور حجۃ الوداع میں ایک لاکھ سے زیادہ صحابۂ کرام نے یہ اعمال اسی ترتیب سے کئے تھے۔ لیکن اگر کوئی حاجی غلطی سے، لاعلمی سے، تکلیف اور دشواری کی وجہ سے یہ اعمال ترتیب سے نہ کرسکا تو ان شاء اللہ دم واجب نہیں ہوگا، جیسا کہ بعض صحابۂ کرام نے مسائل سے ناواقفیت کی وجہ سے غلطی ہونے پر حضو ر اکرم ﷺ سے سوال کیا تھا اور آپ ﷺ نے "لا حرج" کہہ کر ان کو مطمئن کیا، مگر باقی تمام صحابۂ کرام نے جن کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی، یہ اعمال اُسی ترتیب سے کئے جس ترتیب سے حضور اکرم ﷺ نے کئے تھے۔ نیز جن حضرات سے غلطی ہوئی، انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے سوال کے وقت فرمایا تھا کہ مسائل سے نا واقفیت کی وجہ سے یہ غلطی ہوئی ہے، جس پر آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔ 
غرضیکہ وہ اعمال جو ہمارے اختیار میں ہیں اس میں ہم ترتیب کو حتی الامکان باقی رکھیں مثلاً اگر قربانی کا ہمیں علم نہیں ہوپارہا ہے کہ کس وقت قربانی ہوئی تو ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ ہم نے کنکریاں ماری یا نہیں نیز سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا ہمارے اختیار میں ہے۔ لہذا ہم سر کے بال اسی وقت منڈوائیں یا کٹوائیں جب ہم کنکریاں مارچکے ہوں اور کافی حد تک یہ یقین ہوجائے کہ ہماری قربانی ہوگئی ہوگی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام عازمین حج کے لئے آسانی وخیر کا معاملہ فرماکر اُن کے حج کو مقبول ومبرور بنائے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا