English   /   Kannada   /   Nawayathi

بھوپال کی مشہور خاتون نثر نگاروں پر ایک نظر

share with us

بیگم صاحبہ سے پہلے کوئی خاتون نثر نگار یہاں نہیں ملتی، شاہ جہاں بیگم نے شاعری اور نثر میں اپنے جوہر دکھائے، دوسرے اہل قلم کی سرپرستی بھی کی، صدیق حسن خاں سے نکاح کے بعد تو بیگم صاحبہ کی علم پروری میں کافی اضافہ ہوگیا مختلف علوم وفنون کی نہایت بلندپایہ کتابیں حکومت کی سرپرستی میں تصنیف وتالیف ہوئیں۔
نواب شاہ جہاں بیگم کی بیٹی نواب سلطان جہاں بیگم نے حکومت وانتظام کے شعبوں میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوانے کے ساتھ ساتھ اکتسالیس کتابوں کی مصنفہ کا اعزاز حاصل کیا، ان کے زمانے میں ریاست کے سبھی قوانین اردو میں مرتب ہوئے، سبھی مدارس میں اردو کی تعلیم لازم کی گئی، ملازمت کا اعلیٰ معیار اردو دانی کو قرار دیا گیا، دفتر تاریخ قائم کرکے بڑے پیمانے پر علمی کتابیں لکھوائی گئیں، مشہور اہلِ قلم حضرات کی بھوپال میں سرپرستی کی گئی اور یہاں کی مالی امداد سے باہر بھی کتابیں شائع ہوئیں، جن میں علامہ شبلی نعمانی کی ’’سیرۃ النبی‘‘ سرِ فہرست ہے، سلطان جہاں بیگم کی توجہ سے بھوپال میں حمیدیہ لائبریری قائم ہوئی جو علم وادب کا بیش بہا خزانہ تھی، اسی زمانہ میں ’’الحجاب‘‘ اور ’’ظل السلطان‘‘ کے نام سے خواتین کے دو ماہنامے جاری ہوئے، خود سلطان جہاں بیگم فصیح اردو لکھتیں اور بولتی تھیں، انہوں نے مختلف شہروں کی علمی وادبی مجلسوں کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کانویکشن میں جو تقاریر کیں، وہ اردو نثر کا معیاری نمونہ ہیں، خواتین کیلئے ان کے کارناموں کے بارے میں مہتمم دفتر تاریخ محمد امین زبیری لکھتے ہیں۔
’’حقیقت یہ ہے کہ کثرتِ مطالعہ نے جو زمانہ ولی عہدی میں بیگم صاحبہ کا خاص مشغلہ تھا، معلومات میں غیر معمولی وسعت وہمہ گہری پیدا کردی تھی، تصنیف وتالیف کا شوق بھی موروثی وفطری تھا، اس کی طرف بھی توجہ مائل ہوئی ، سب سے پہلے ۱۹۰۳ء ؁ میں اپنی جدہ محترمہ خلد نشیں کے نقوش قدم پر ’’سفر نامہ حرمین شریفین‘‘ مرتب کرکے شائع کیا، اس کے بعد آخر سال حیات تک تصنیف وتالیف کا مشغلہ ریا، انہوں نے ساٹھ سے زیادہ کتابوں کے ترجمے کرائے، جن کا تعلق عورتوں کی زندگی کے مختلف شعبوں سے تھا اور جن کے ۱۰ ہزار ۷ سو ۴۶ مختلف سائز کے صفحات ہیں۔ 
(حیات سلطانی صفحہ۳۰۳)
نواب سلطان جہاں بیگم کا یہ کارنامہ بھی سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے کہ انہوں نے عورتوں کو سماجی بندھن اور بے جا رسم ورواج سے نجات دلانے کی ہرممکن کوشش کی اور ان کے اندر خود اعتمادی وخود شناسی کے جوہر پیدا کئے، وہ چاہتی تھیں کہ ریاست کی لڑکیاں تعلیم پائیں، انہیں اچھی تربیت ملے چنانچہ اس کا احساس دلاتے ہوئے وہ خود کہتی ہیں۔
’’تمہاری تعلیم مصیبت کے وقت تم کو خود اپنی مدد آپ کرنے کے قابل بنادے گی اور خدانخواستہ اگر تم میں سے کسی پر مصیبت کا وقت پڑے تو غیرت وحمیت کے ساتھ اپنی روزی خود پیدا کرسکو اور جب تم صاحبِ اولاد ہو تو اس کی تعلیم وتربیت اپنی گود سے شروع کرو‘‘
(خطبات سلطانی صفحہ ۲۳۵)
نواب سلطان جہاں کے علمی مذاق اور مشغلہ تصنیف وتالیف کے اعتراف میں علامہ شبلی نعمانی، نواب وقار الملک، مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی او ر خواجہ حسن نظامی ایک زبان ہیں، مولانا آزادی کی تحریر کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’حضورِ عالیہ کی ذاتی قابلیت ولیاقت ، قوتِ تدبیر، نظمِ ریاست اور علم پروری ایسے اوصافِ حسنہ ہیں، جن میں سے ہر ایک وصف انسان کے شرف وامتیاز کا بہتر نمونہ ہوسکتا ہے، اس پر مستزاد یہ ہے کہ وہ بحیثیت مصنفہ اور اہلِ قلم کے بھی جلوہ افروز رہیں اور مسلسل مفید کتابیں ان کی تالیف وتصنیف میں شائع ہوچکی ہیں۔ 
(حیات سلطانی صفحہ ۳۱۰)
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیگم بھوپال علم وادب، سماجی خدمات اور علم پروری کا کتنا اعلیٰ ذوق رکھتی تھیں کہ مشاہیر بھی ا س کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے۔
نواب سلطان جہاں بیگم کے بعد ان کی بہو بیگم میمونہ سلطان کا نام بھوپال میں خاتون نثر نگار کی حیثیت سے سامنے آتا ہے، وہ نواب حمیداللہ خاں کی اہلیہ تھیں، ان کی تعلیم وتربیت نواب سلطان جہاں نے خود کی اور ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا، اسی کا نتیجہ ہے کہ لکھنے پڑھنے سے ان کا شوق بڑھتا گیا، سب سے پہلے علامہ شبلی نعمانی کے رسالہ ’’بدرالاسلام‘‘ کا ترجمہ فارسی سے اردو میں کیا، ۱۹۱۱ء میں یوروپ او ر ترکی کا سفر کیا تو وہاں کے حالات اپنے سفر نامے ’’سیاحتِ سلطانی‘‘ میں رقم کئے، میمونہ سلطان کی کی دوسری تصانیف میں ’’ذکرِ مبارک‘‘ اور ’’خلافتِ راشدہ‘‘ مقبول ہوکر بھوپال، علی گڑھ، حیدرآباد کے نصاب میں داخل ہوئیں، بچوں کی اخلاقی تعلیم وتربیت پر بھی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
بھوپال میں شاعروں کے مقابلہ میں نثر نگاروں کی کمی رہی ہے، یہاں افسانہ نگاری کا باقاعدہ آغاز نیاز فتح پوری نے کیا ۔ ۱۹۱۵ء میں وہ بھوپال آئے تو گیارہ سال تک یہیں مقیم رہے، یہی ان کی افسانہ نگاری کے عروج کا زمانہ ہے، جس نے ہم عصر قلم کاروں کو بھی اس صنف کی طرف راغب کیا ، تاہم یہاں خواتین کے کہانی لکھنے کا سلسلہ کافی بعد میں شروع ہوا، جن میں اختر جمال، زہرہ جمال دونوں بہنیں سرفہرست ہیں، زہرہ جمال کی کہانیوں میں جہاں اختصار ملتا ہے وہیں اختر جمال نے اپنے افسانوں میں وضاحت سے کام لیا ہے لیکن درد مندی اور انسانیت نوازی دونوں کا مشترکہ جوہر ہے، دونوں کی کہانیوں کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ کوثر جہاں خواتین کہانی کاروں میں اپنے مجموعہ ’’جادونگری‘‘ کے وسیلہ سے مشہور ہوئیں، ان کی کہانیوں میں کرداروں کے ذریعہ انسانی اخوت ومحبت کو ابھارا گیا ہے اور تجربے ومشاہدے کی آنچ سے کہانیوں میں گہرائی پیدا کی گئی ہے، فرحت جہاں کہانیوں کو معمولی معمولی واقعات سے سنوارنے کا ملکہ رکھتی ہیں ’’بازیافت‘‘ ان کی کہانیوں کا مجموعہ ہے اس کی سبھی کہانیاں ذہن پر ایک خاص اثر چھوڑتی ہیں۔
بھوپال کی خاتون نثر نگاروں کی یہ فہرست مکمل نہیں قبل ازیں ریڈیو کے ہی ایک پروگرام کے دوران راقمہ نے صفیہ اختر کی نثر نگاری کا ان کے خطوط کے آئینے میں اور شفیقہ فرحت کی افسانہ نویسی اور طنز نگاری کا ان کے پانچ مجموعوں کو سامنے رکھ کر جائزہ لیا ہے۔
اسی طرح محترمہ طیبہ بی صاحبہ کی تحریری صلاحیت کا موصوفہ کی کتاب ’’تاریخ فرمانروایان بھوپال‘‘ کے پس منظر میں، ڈاکٹر رضیہ حامد کی صحافت، تنقید نگاری اور افسانہ نویسی کا، ڈاکٹر انیس سلطانہ کی انشائیہ نگاری کا ’’قصورمعاف‘‘ کے تعلق سے تحقیقی کام ، بھوپال میں تحقیق کے حوالے سے ڈاکٹر کشور سلطان اور ڈاکٹر رفعت سلطان کا ان کے تحقیقی کام کے وسیلہ سے ، رشیدہ بیگم مرحومہ کا ان کی کتاب’’ اردو نثر کے طنزیہ ومزاحیہ ادب میں بھوپال کا حصہ‘‘ کے تعلق سے تجزیہ کرچکی ہوں۔ اسی ضمن میں دوسری نثر نگار خواتین کا بھی ذکر ہوا ہے لیکن اسی سلسلہ کا ایک اہم نام وسیم بانو قدوائی کا ہے جنہوں نے حقیقت میں اپنے ناول اور افسانوں سے بھوپال کی نثر کو مالا مال کردیا ، ضرورت اس کی ہے کہ بھوپال کی اس کہنہ مشق نثر نگار پر تحقیقی کام ہو تاکہ ان کی افسانہ نگاری اور ناول نویسی کا صحیح مقام متعین ہوسکے۔
اسی طرح خواتین افسانہ نگاروں میں اہم نام ذکیہ سلطان حزیں ؔ کا ہے، جو کافی مقبول ہوا، سلطانہ حجاب صحافت وشاعری دونوں شعبوں میں مخصوص شناخت کی مالک ہیں جبکہ ڈاکٹر ارجمند بانو افشاں نے شاعری کے ساتھ تنقید وتحقیق میں اپنے جوہر دکھائے ہیں، ان کی کتاب اس سلسلے کا اہم کام ہے، پری بانو، فیروزہ یاسمین، ڈاکٹر شمسہ عارف کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، اس سلسلے کی کافی تفصیل میرے اسی عنوان سے پچھلے مضمون میں آچکی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا