English   /   Kannada   /   Nawayathi

تبدیلیاں

share with us

گرمیوں میں گرم ہواؤں کے تھپیڑے لُو کی شکل میں جھیلنے پڑتے ہیں تو سردیوں میں روح کوکپا دینے والی سرد ہوائیں ہوتی ہیں۔برسات میں اُمس ایسی ہوتی ہے کہ لوگ ’لُو‘ چلنے کی دعا مانگنے لگتے ہیں۔بہر حال موسم کے اُتار چڑھاؤ، زندگی کے اُتار چڑھاؤکے ساتھ سیاست کے اُتار چڑھاؤ بھی دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔اس بار مودی سرکاردو سال سے چڑھاوے پر چل رہی ہے، ابھی تین سال تک اور چڑھاوا چڑھتا رہے گا۔ بھکتوں نے اگر زور مارا اور دو چار دنگے کرا دیے تو ایک بار پھر مودی سرکار، اگلے پانچ سال کے لیے پھر جلوہ افروز ہو سکتی۔ 
وکاس کے نعرے کے ساتھ مودی سرکار تشریف لائی تھی لیکن وکا س کایہ حال ہے کہ وہ گھٹنوں کے بل بھی نہیں چل پا رہا ہے۔اس کے علاوہ اوربھی بہت سے لبھاؤنے نعرے تھے۔مثال کے طور پر ’میں صرف کہتا نہیں ہوں بلکہ کر کے بھی دکھاتا ہوں‘۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ جو مدّے ان کی شہرت کی وجہ بنے وہی مدّے ان کے لیے سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔کیونکہ زمین بِل پر سرکار پلٹی کھا چکی ہے،کالا دھن واپس لانے کو جملہ کہہ کر پھنس چکی ہے، روزگار میں کوئی بڑھوتری نہیں ہوی، صفائی اور یوگاابھیان میں بے پناہ خرچ کر کے وکاس کا نظارہ کرایا جا رہا ہے۔ایک صاحب نے اسی وکاس کی بات پرایک اشتہار دے ڈالا کہ ’’بیٹا وکاس !تم جہا ں بھی ہو چلے آؤ، تمہارے پاپا اور (ممی کی جگہ پر)انکل بہت پریشان ہیں،اب وہ تم کو کچھ نہیں کہیں گے‘‘۔
ایک نعرااور بھی دیا گیا تھا کہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘۔یہ نعرہ بہت اچھا ہے، سب کا ساتھ لیکر ہی ترقی کی جا سکتی ہے۔ دلتوں کو انسان نہ سمجھنے والی ذہنیت جو پہلے تھی حقیقت میں اُتنی اب نہیں ہے۔ اس سوچ میں وکاس ہوا ہے۔لیکن اس غلط فہمی میں آپ نہ رہیں کہ یہ وکاس مودی سرکار کی دین ہے، یہ پچھلی حکومتوں کی دین ہے۔اس حکومت میں تو یہ خبر آتی ہے دلِت کی چتا بھی نہیں جلانے دی گئی،دلت دولہے کو گھوڑے پر نہیں بیٹھنے دیا گیا۔مردہ گائے کی کھال اُتارتے ہوئے دلتوں کو بری طرح پیٹا گیا۔ ایک دلت اپنی بیوی کی لاش کو ۱۲؍کلومیٹر دور اپنے کندھے پر لادکرلے گیا، کسی نے خبر نہیں لی۔لوگوں کے ضمیر کتنے مردہ ہو چکے ہیں،سب تماشہ دیکھ رہے ہیں، فوٹو لے رہے ہیں، ویڈیو بنا رہے ہیں لیکن اس کی مدد کے لیے کوئی آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔
مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدترہے جبکہ مسلمانوں نے ملک کی آزدی کے لیے بڑھ چڑھ کر اپنی جانوں کی قربانی دی ہے پھر بھی ٹی.وی.چینلس مسلمانوں کے خلاف دن بھرزہر اُگلتے رہتے ہیں۔ایساکیوں؟کیا کسی کو پتہ نہیں ہے کہ ’دلّی سے’ لاہور‘ تک سڑک کے کنارے پیڑوں پرمسلم علماء کے سر قمقموں کی طرح لٹکائے گئے تھے۔اور آج انہیں کے جاں نشینوں پرشک کر رہے ہو۔اس طرح ملک کا وکاس ہو رہا ہے یا وناش ہو رہا ہے۔ ’دلت‘ اور’ مسلم ‘قوموں کوالگ کر کے کن لوگوں کا وکاس کروگے؟ صرف ان لوگوں کا جن کے نہ ہاتھ صاف، نہ دِل صاف نہ ذہن صاف۔ وکاس کے لیے ۱۲۵؍ کروڑ افراد کے بارے میں سوچنا ہے۔ فراقؔ گورکھپوری نے کیا خوب سچّا شعر کہا ہے ؂
ایک حلقۂ زنجیر کوئی زنجیر نہیں
تقدیر تو قوموں کی ہوا کرتی ہے

ایک نقطۂ تصویر کوئی تصویر نہیں
ایک فرد کی تقدیر کوئی تقدیر نہیں
ویسے یہ پوری صدی وکاس کی رہی ہے۔دن بہ دن ہر انسان کی زندگی میں تبدیلی آئی ہے، خوب وکاس ہوا ہے۔سواری کے لیے ہاتھی،اونٹ، گھوڑے، بیل گاڑی،ڈولی، فینس سے ہوتے ہوئے سائکل، موٹر سائکل،کاریں،ٹرک،ٹرین،ہوائی جہاز، پانی کاجہاز اور راکٹ سے چاند اور مرّیخ تک پہنچ گئے۔دنوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہونے لگا۔ لکڑی ، کنڈوں کے چولہوں کی جگہہ گیس و مائکرو چولہوں نے لے لی۔ابھی صرف تیس پینتس سال پہلے تک ٹیلیفون امیری کی علامت سمجھا جاتا تھااب مزدور بھی جہاں مزدوری کرنے جاتا ہے وہاں اپنا موبائل چارج میں لگا دیتا ہے۔
سن۷۲،۷۳ کی بات ہے ہماری ایک قریبی رشتہ دار نے ہم سے بڑی خوشامدانہ کہا تھا’’ بھیّہ!چار بوری سیمنٹ دلا دو تو کمرے میں پلاسٹر کروا لیں‘‘۔اس کام کے لیے مجھے کئی بار سپلائی آفس جانا پڑا تھا۔آج سیمنٹ کی فراوانی ہے۔یہ فراوانی اِن دو سالوں میں نہیں آئی ہے ، یہ پچھلی سرکار کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔’ماں بیٹے ‘ کی حکومت میں جب دال ۶۰؍روپئے کلو ہوئی تھی تو اِس وقت سرکار میں بیٹھے لوگ سڑکوں پر آگئے تھے اور ’مہنگائی روکو یا گدّی چھوڑو ‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ آج دال ۲۰۰؍روپئے کلو ہے بک رہی ہے لیکن سرکار میں چین کی بنسی بج رہی ہے۔
نگر پالکا کے پرائمری اسکول میں پڑھنے کے لیے مائیں اپنے بچوں کو راجہ بابو بنا کر بھیجتی تھیں اور جب بچہ اسکول سے لوٹتا تھا تو پتہ چلتا تھا کہ بچہ پڑھ کر آیا ہے۔ہاتھ،پیر،چہرا اور کپڑے ،تختی پوتنے والی سیاہی اور سیٹھے کے قلم سے لکھنے والی کھریہ مٹی سے سنے ہوتے تھے۔آج کے بچے راجہ بابو بن کر اسکول جاتے ہیں اور راجہ بابو ہی بنے واپس آجاتے ہیں۔ پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ اسکول گئے تھے یا آفس گئے تھے۔یہ وکاس دو سالہ نہیں ہے ساٹھ سالہ ہے۔
سیاسی تبدیلیاں بھی خوب ہوئی ہیں۔پہلے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا نعرہ تو نہیں لگایا جاتا تھا لیکن وکاس کے معاملے میں ارکان حکومت فکر مند ررہتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان ساٹھ سالوں میں شہروں کی سڑکیں گاؤں تک پہنچ گئی ہیں اور ضرورت کا سامان دیہاتوں میں ملنے لگا ہے یہاں تک دودھ کے پیکٹ اور اخبار بھی پہنچ رہے ہیں۔دیہاتوں میں اب بجلی بھی ہے اورلوگ اپنے بچوں کو ’کمپیوٹر کے ساتھ تعلیم بھی دلا رہے ہیں۔بھارت میں ’کمپیوٹر ‘ کا انقلاب’راجیو گاندھی ‘ کا لایا ہواہے اور اس انقلاب کی مخالفت میں پنڈت اٹل بہاری باجپائی نے بیل گاڑیوں سے پارلیمنٹ کا گھراؤ کیا تھا۔ سنگھ پریوار میں سمجھدار سمجھے جانے والے لیڈر کی یہ سوچ تھی۔جس ملک میں دلت کوعام انتخابات کے زمانے میں ہندو مان لیا جاتا ہے،اُسی دلت کو عام دنوں میں اپنے مردوں کو شمشان گھاٹ پر جلانے کی اجازت نہیں ملتی،اس وقت اُس کو اُس کی اوقات بتلا دی جاتی ہے اس لیے اُسے اپنے مردے کی چتااپنے آنگن میں ہی بنانی پڑتی ہے۔
اگر اس وقت راجیو گاندھی ہوتے تو کچھ اس طرح سے فکر مند نظر آتے کہ’’ ہمیں دیکھنا ہے کہ آگے کوئی بھی چتا گھر میں نہ جلائی جائے، نہ کوئی دلت اپنی بیوی کی لاش اپنے کندھے پرنہ لادے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ آگے کوئی بھی کسان ،قرض کے بوجھ سے دب کر خودکشی نہ کر ے‘‘۔لیکن ہم دیکھتے کیا ہیں کہ کسان بھوکھ سے اور قرض سے خودکشی کرتا چلا جا رہا ہے،ان کا قرض قابل معافی نہیں ہے لیکن جن کا قرض ہزاروں کروڑ میں ہے اسے معاف کیا جا رہا ہے۔یہ کون سا وکاس ہے؟
ہزاروں مسائل سے گھرے ملک کا ’پردھان سیوک‘ یا ’چوکیدار‘ کا دَس لاکھ کا سوٹ کروڑوں میں بِک کر ’گنیز بُک‘ میں جگہ بنا سکتا ہے۔اسی پردھان سیوک کے نائب خدمتگاران کے زبان پر کوئی لگام نہیں کسی کو طووائف بنا دیں،کسی کے چہرے کی رنگت پر رائے زنی کریں،کس کو حرام زادہ کہہ دیں، اپنی ہی قوم کو نا مرد کہہ دیں،کسی اہم شخصیت کا موازنہ کسی دہشت گرد سے کر دیں۔کسی کا سر کاٹ کر لانے پر انعمات کی بارش کر دیں۔ایک فرضی ڈگری والے وزیر تعلیم کوہٹا کر ڈگری دھاری کو وزیر تعلیم بنایا گیا۔ ان کے علم کے مطابق سبھاش چندر بوس، بھگت سنگھ، پنڈت نہرو،سردار پٹیل کو آزادی حاصل کرنے کے لیے پھانسیوں پرچڑھا دیتے ہیں۔گاندھی جی کے مجسمے کی بے عزتی کرتے ہیں، ناتھو رام گوڈسے کو اپنا آئڈئیل مانتے ہیں۔ مہاتماگاندھی کی قربانیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کو راشٹر پتا کے عہدے سے ہٹا کر ،بھگوان شری کرشن کی لا محدود طاقت کو محدود کرتے ہوئے بھارت کے راشٹر پتا بنانے کے لیے سنگھ خاندان میں غور و فکر چل رہی ہے۔خدا خیر کرے۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا