English   /   Kannada   /   Nawayathi

اتحاد بین المظلومین کی تسبیح کو توڑنے میں کہیں خود ان کا تو ہاتھ نہیں ؟

share with us

پارلیمانی الیکشن کی انتخابی مہم سے بہت پہلے سے ہی آر ایس ایس اور بی جے پی نے انتہائی منظم مہم کے ذریعہ ملک کو در پیش صعوبتوں کے لیے کانگریس کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ملک کے عوام سے ’’کانگریس مکت ‘‘حکمت عملی اختیار کرنے کی اپیل کی تھی۔پارلیمانی الیکشن میں نتائج کے بل پر بی جے پی اور این سی پی نے جو رنگ دکھائے اس کے نتیجہ میں چھگن بھجبل کے خلاف حاشیہ تنگ کیا جانا اور اجیت پوار اور سنیل تٹکرے کی دفتریت کی لال فیتہ شاہی کے طفیل ابھی تک ان کا ابھی تک محفوظ اور معنون رہنے سے وہ آشکار ہے۔اس حکمت عملی کے تناظر میں مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں مجلس اتحاد المسلمین کے دو امیدواروں کی کامیابی کے کچھ عرصہ بعد اورنگ آباد میونسپل کارپوریشن کے الیکشن میں اس کے پچیس امیدواروں کی فتح کے بعد باندرہ (مشرق)کے ضمنی الیکشن میں عملی طور پر حصہ لے کر شیو سینا کی کامیابی کے لیے راہ ہموار کرنے کے واقعات کے تسلسل نے بھی مہاراشٹر میں کانگریس مکت مہم میں اس کے دردپردہ شمولیت نے اس کے وجود پر کچھ حد تک شکوک و شبہات کے سائے وا ہو سکتے ہیں ۔؟
اس امر کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اورنگ آباد میونسپل کارپوریشن میں مجلس کے امیدواروں کی امیدیں بر لانے میں بیرسٹر اسدالدین اویسی اور اکبر الدین اویسی کی شعلہ بیانی ‘کانگریس پر تنقید اور بعض وارڈس میں روڈ شو میں حصہ لینا بھی اس سلسلہ میں کارگرثابت ہوا۔یہ علیحدہ بات تھی کہ مہاراشٹر میں مخلوط حکومت کے طفیل وزرات داخلہ کا قلمدان این سی پی کے زیر اثر رہنے کی وجہ سے وزرات داخلہ اور انتظامیہ کی جانب سے مجلس اتحاد المسلمین کے قائدین کے مہاراشٹر میں داخلہ پر پابندیاں عائد تھیں ۔بیڑ میں بھی میونسپل الیکشن کا بگل بج چکا ہے۔طویل عرصہ سے این سی پی کے زیرِ اثر بلدیہ میں مجلس کے داخلہ کی وجہ سے اس کے وجود پر کیا رد عمل ہوگا اس کا جائزہ دلچسپی کا سبب بن سکتا ہے؟
یہاں یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ اورنگ آباد میں مجلس اتحاد المسلمین کو متعارف کروانے میں جاوید قریشی کا کلیدی رول رہنے کے باوجود کارپوریشن الیکشن میں انہیں ٹکٹ کے حصول کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلناپڑے تھے ۔سلوڑ بلدیہ کے الیکشن میں ان کی بے جا مداخلت کی پاداش میں انہیں کارپوریشن کے الیکشن میں شکست سے دو چار ہونا پڑا تھا۔ اورنگ آباد سینٹرل حلقہ سے مجلس کی غیر متوقع کامیابی مجلس کے لیے فائدہ بخش رہی یا اس کے نقصانات کی شروعات ہوئی یہ موضوع بڈّی لین اور کباڑی پورہ کے الیکشن میں کھل کر منظر عام پر آیا۔ اس کا آغاز میونسپل کارپوریشن کے سابق میونسپل کمشنر مہاجن کے خلاف بی جے پی اور شیو سینا کارپوریٹرس کی جانب سے عدم اعتمای تحریک میں جاوید قریشی کو اندھیرے میں رکھ کر اس کی تائید کی وجہ سے سامنے آیا۔ بہ حیثیت مجلس کے ضلع صدر ہونے ان کی اعتراض حق بجانب تھا۔ جاوید قریشی کے مخالف گروپ کی سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں صدارت کی ذمہ داریوں سے بغیر شو کاز نوٹس جس طرح بے دخل کیا گیا اس سلسلہ میں مجلس کے اکثریتی کارپوریٹیرز نے پارٹی کے اس فیصلہ سے اختلا ف بھی کیاتھا۔اور ویسے بھی جاوید قریشی کے خاندان کی بلدیہ اور میونسپل کارپوریشن میں نمائندگی کا جائزہ لیں تب بلدیہ اور کارپوریشن میں ان کے نانا مرحوم حاجی قریشی ان کے صاحبزادہ فیاض احمد قریشی خود جاوید قریشی اور ان کی اہلیہ زرینہ قریشی کی نمائندگیوں کی بدولت اس خاندان کو بلدیہ اور کارپوریشن میں حق نمائندگی کے سلسلہ میں جو مواقع ملے دوسرے کسی کارپوریٹر نے ان کا ریکارڈ توڑنے میں آج تک کامیابی حاصل نہ کی تب مجلس کی جانب سے ان کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکنے کا فیصلہ کس طرح مناسب قرار دیا جا سکتا ہے؟ 
بڈی لین اور کباڑی پورہ جہاں ضمنی انتخاب کی نوبت لانے والی سابق کارپوریٹر شکیلہ بیگم فیاض الدین کے بہی خواہوں کا مجلس کی مقامی قیادت پر یہ الزام کہ بوگس کاسٹ سرٹیفکیٹ کی کاروائی کے آغاز میں ہی پارٹی کارپوریٹر کے ساتھ جو رویہ اپنایا وہ قطعی غیر مناسب تھا۔ اس سلسلہ میں ان کی قانونی یا اخلاقی رہنمائی کے بجائے ان سے دوری کے نتیجہ میں آج اس وارڈ کے ضمنی الیکشن کی نوبت آئی۔ اس کے ردعمل میں آج ان کی پوری ٹیم ترنم عقیل احمد کی کامیابی کے لئے میدان عمل میں سرگرم ہے ۔اس طرح عارف کالونی کے کارپوریٹر ضمیر احمد قادری کے خلاف بوگس کاسٹ سرٹیفکٹ کے سلسلے میں جنسی پولیس اسٹیشن میں بے بنیادشکایت درج کروانے پر بھی مقامی قیادت کے تماشائی کا کردار ادا کرنے پر جاوید قریشی نے ان کی ضمانت اور قانونی کاروائی میں ان کے ساتھ تعاون کے ذریعہ انہیں اس الجھن سے نجات دلوانے میں مددکی۔ کھام ندی پر حفاظتی دیوار اور وارڈ کے تشنہ مسائل کی یکسوئی کے لیے ضمیر احمد قادری کو وارڈس کے ووٹرس کے تعاون و اشتراک سے کارپوریشن کے خلاف ایک بڑا احتجاجی جلوس منظم کرنا پڑا۔ مجلس کی قیادت کی جانب سے اس سلسلہ میں خاموشی اختیار کرنے کا رد عمل نے مجلس کے ووٹرس میں جس طرح غم وغصہ پیدا کیا اس کے اثرات اسمبلی الیکشن میں مرتب ہونے سے انکار کی گنجائش نہیں؟
مقامی اسمبلی کے سیاسی شعور اور بذلہ سنجی کا جائزہ لیں تب یہ نظر آئے گا کہ ایک رکن امسبلی میں جس سیاسی پختگی کا تقاضہ ہوتا ہے ابھی ان میں وہ صلاحیت پیدا نہیں ہوپائی ۔رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد موصوف نے ڈی پی ڈی سی کی میٹنگ میں اظہار خیال کرنا چاہا تب وزیر رابطہ رام داس کدم نے انتہائی حاکمانہ انداز میں انہیں اپنا موقف مرہٹی میں پیش کرنے کا حکم دینے پر صاحب موصوف اپنی جگہ نامراد سے بیٹھ گئے۔حالانکہ کام چلاؤ مرہٹی سے بھی اپنے موقف کا اظہار کرتے یا ان میں سیاسی شعور رہتا تب موصوف اسی وقت رابطہ وزیر کو منہ توڑ جواب دے کر یہ کہتے کہ ہندی ہماری قومی زبان ہے اور ایک ہندوستانی کے ناطہ رابطہ وزیرکی جانب سے اس کی مخالفت زیب نہیں دیتی ۔یہ موصوف احتجاجاً اس میٹنگ سے بائیکاٹ کرتے ہوئے خود کے ہیرو اور پارٹی کی نیک نامی میں اضافہ کا سبب بنتے؟
بڈی لین ‘کباڑی پورہ کے ضمنی الیکشن کی وجہ سے مخالف سیاسی پارٹیوں کی معرفت گرین بیلٹ کے عام ووٹرس کا غم و غصہ جس شدت سے منظر عام پر آیا ہے وہ اس گرین بیلٹ کی ابتر صورتحال کی منہ بولتی تصویر ہے کہ اس مخصوص علاقوں کی سڑکوں کا برا حال ‘فراہمی آب کے سلسلہ میں شکایتوں کی داستان الف لیلیٰ ‘ڈرینیج نظام کی ناکامی ‘مجلس کے زیر اثر وارڈ میں گذشتہ سال ڈینگو سے دو اموات کے باوجود اس سلسلہ میں کسی بھی اقدام سے گریز کی وجوہات سے مجلس کے تمام کارپوریٹرس تنقیدوں کی زد میں ہیں ۔ایسے میں مقامی ذمہ داروں کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ اس کا کیا علاج کریں ۔مرے پہ سو درے کی طرح بڈی لین‘کباڑی پورہ کے ضمنی الیکشن کی الٹی بساط میں اب نعرہ تکبیر کے جوابی نعروں میں اب وہ جوش و خروش باقی ہے نہ اب وہ امنگوں آرزوؤں امیدوں کی تفسیر بننے کے لیے آمادہ ہیں۔
قارئین کی معلومات کے لیے یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ کل تک جو حیدرآباد میونسپل کارپوریشن مجلس کی زیر اثر تھی اب وہاں بھی ٹی آر ایس کا بول بالا قائم ہو چکا ہے ۔نقیب ملت۔حبیب ملت اور مجلس کا ہیڈ کوارٹر ہونے کے بعد وہاں مجلس کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔سال گزشتہ پڑوسی ریاست کرناٹک کی راجدھانی بنگلور کے میونسپل کارپوریشن میں مجلس کے تمام بتیس امیدوار شکست سے دو چار ہوئے تھے۔تب زور و شور سے بہار کے اسمبلی الیکشن میں مجلس نے داخلہ لیا ۔وہاں بھی اس کا کھاتہ نہ کھل سکا ۔اب مجلس کے قدم آہستہ آہستہ اتر پردیش و دہلی کی جانب گامزن ہیں۔ہم یہ شوشہ چھوڑنا مناسب نہیں سمجھتے کہ اس بہانہ مسلم ووٹس کو زائل کرتے ہوئے اپنے نئے دوست کو سیاسی فائدہ پہنچانے کی کوئی حکمت عملی تو نہیں ؟

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا