English   /   Kannada   /   Nawayathi

دھماکہ خیز اشیاء کی برآمدگی

share with us

اس دوران ایک مضحکہ خیز صورت حال یہ بھی پیدا کی گئی کہ اس واردات کی تفتیش کے دوران تفتیشی ایجنسیاں دھماکہ خیز اشیاء کے ذخائر بھی برآمد کررہی ہیں اور جن کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ انڈین مجاہدین سے وابستہ لوگوں نے انہیں ذخیرہ کرکے رکھا تھا۔ ان دھماکہ خیز اشیاء کی برآمدگی کی خبریں گوکہ پورے ملک سے آرہی ہیں مگر جھارکھنڈ اور بہار سرِ فہرست ہیں اور اس کے لئے وسیع پیمانے پر تفتیشی ایجنسیاں چھاپہ مار رہی ہیں۔ یہ چھاپے ماری کس طرح ہورہی ہے اور انڈین مجاہدین کے مفلوج العقل ارکان(اگر وہ موجود ہیں تو) کیوں دھماکہ خیز اشیاء کا ذخیرہ کررہے ہیں،ان کا کیا مقصد ہے یا پھر ان کے پسِ پشت کون سے عوامل ہیں؟ اس کی توثیق یا تصدیق کا ہمارے اس آر ٹی آئی قانون کے حامل ملک میں اس کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ پولیس و تفتیشی ایجنسیاں جو دعوے، جو گرفتاریاں اور جن خطرات کی نشاندہی کریں اس پر آنکھ موند کر صمیم قلب سے ایمان لالیا جائے اور اس کی چھان بین میں بالکل نہ پڑاجائے کہ تفتیشی ایجنسیوں نے جو دعویٰ کیا ہے وہ کس حد تک صحیح ہے۔کیونکہ اگر آپ نے تفتیشی ایجنسیوں کی فراہم کردہ اطلاعات پر کسی قسم کے شک وشبہے کا اظہار کیا تو پھر آپ کا بھی وہی حشر ہوسکتا ہے جو اس سے قبل ہزاروں مسلم نوجوانوں کے ساتھ ہوا ہے یعنی کہ کسی زیرِحراست ملزم(جنہیں ہماری میڈیاوہمارا سماج عدالتی کارروائی سے قبل ہی ملزم بنا دیتا ہے ) کی ڈائری میں آپ کا ٹیلی فون نمبر، ای میل یاپتہ تحریر کیا ہوا مل سکتا ہے اور پھر آپ انڈین مجاہدین کے سرگرم ممبر بن چکے ہونگے۔
یہاں یہ بات بڑے ہی وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ملک میں اب تک جتنے بھی بم دھماکے ہوئے ہیں ، ان کے اصل مجرمین ہنوز آزاد ہیں جبکہ ان کی پاداش میں سیکڑوں مسلم نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے پہونچا دیا گیا ہے ۔ ورنہ دہشت گردی کے الزام میں جتنے مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ہے ، اگر واقعی ان کا تعلق دہشت گردی سے ہے تو اب تک یہ سلسلہ کب کا ختم ہوچکا ہوتا۔ مگر جس طرح کی دہشت گردانہ وارداتیں ہورہی ہیں اور جس طرح بم دھماکے ہورہے ہیں ، وہ اس بات کی چغلی کھاتے ہیں کہ دہشت گردی کے اصل مجرمین ابھی تک قانون کی گرفت سے نہ صرف بہت دور ہیں بلکہ وہ اپنی سرگرمیاں بھی انجام دے رہے ہیں۔جیسا کہ گزشتہ مضمون میں پٹنہ ریلوے اسٹیشن سے گرفتار شدہ منوج نامی ایک نوجوان کا تذکرہ کیا گیا تھا جو بعد میں پولیس اسٹیشن پہونچنے کے بعد امتیاز انصاری بن گیا تھا، اس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہونچتی ہے کہ اس پورے معاملے پر آئی بی کی مضبوط گرفت ہے ۔ پٹنہ پولیس کی ابتدائی تفتیش صحیح خطوط پر تھی مگر بعد میں اس کو انڈین مجاہدین کی جانب موڑ دیا گیا ۔ یہ گھماؤ کس کے اشارے پر ہوا اوروہ کون لوگ ہیں جو بم دھماکوں کے حقیقی مجرمین کی پردہ پوشی چاہتے ہیں؟ اس کے بارے میں لکھنؤ کے رہائی منچ کا یہ بیان ہی کافی ہوگا جس میں انہوں نے اس پورے معاملے کو آئی بی اور آر ایس ایس سے جوڑتے ہوئے اس کی باریک بینی سے جانچ کی مانگ کی ہے۔(دیکھئے:http://sanhati.com/articles/8400/)
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ دھماکوں کے فوری بعد بی جے پی سربراہان کے جوبیانات میڈیا میں کی زینت بنے تھے ان تمام میں کسی نہ کسی طور پر بم دھماکوں کی اس واردات کو بھنانے اور اسے کیش کرنے کے واضح اشارے موجود تھے۔ (دیکھئے:نوبھارت ٹائمز،ممبئی،28 اکتوبر2013)البتہ صرف مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے اس کی باریک بینی سے تفتیش کا مطالبہ کیا تھا جو اتفاق سے مطالبے سے آگے نہیں بڑھ سکا ۔ اس کے برخلاف اس پورے معاملے کو مسلمانوں کی سمت موڑ کر مودی کو ہیرو بنانے کی مہم ضرور شروع ہوگئی جس میں انہیں بی جے پی کی جانب سے وزیراعظم کے برابر سیکوریٹی فراہم کرنے کا بنیادی مطالبہ سرِ فہرست ہے اور جس پر سیاسی سطح پر خوب اٹھاپٹک جاری ہے۔ اب آئیے دھماکہ خیز اشیاء کی برآمدگی پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔
رانچی پولیس نے شہر کے دھوروا علاقے کی بستی سی ٹی او سے انڈین مجاہدین کے مشتبہ دہشت گرد امتیاز کے ٹھکانوں پر چھاپہ مار کر آئی ای ڈی میں استعمال ہونے والا بارود سے بھرا پریشر کوکر برآمد کیا ۔(اے بی پی نیوز،28اکتوبر2013)
جھارکھنڈ پولیس نے رانچی کے اِرم گیسٹ ہاؤس میں چھاپہ مار کر 9 بم، 19 ڈیٹونیٹر سمیت درجنوں جلیٹن کی سلاخیں برآمد کی ہیں۔اس کے علاوہ لاج کے کمرے سے اردو میں لکھے دو بنڈل کاغذات اور پٹنہ کے کئی مقامات کے نقشے بھی ملے ہیں۔پولیس کے مطابق برآمد کئے گئے تمام بم کافی طاقتور اور بڑا نقصان پہنچاسکتے تھے ۔اس سلسلے میں دولوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔(امراجالا،5نومبر2013)
سینٹرل ریزرو پولیس فورس ( سی آر پی ایف ) نے بدھ کی صبح جھارکھنڈ کے سنگھ بھوم ضلع کے سینووا تلاشی مہم کے دوران میں 15 کلو دھماکہ خیز مواد برآمد کیا اور تین آئی ای ڈی کو ناکارہ بنایا۔(نوبھارت ٹائمز،6نومبر2013)
محبوب آباد (آندھرا پردیش )کی پولس نے گری پرساد نگر میں رہنے والے بابولال پاشا کے مکان پر چھاپہ مار کر جلیٹن کی 500 چھڑیں،000ڈیٹونیٹر ، 25 تار کے بنڈل اور 40 کلو گرام امونیم نائٹریٹ ضبط کیا۔(نوبھارت ٹائمز،5نومبر2013)
چھتیس گڑھ میں سونیا گاندھی اور نریندر مودی کے دورے سے قبل سی آر پی ایف اور ریاستی پولیس فورس کے ایک مشترکہ ٹیم نے سکما ضلع کے چتلنار کے قریب دورناپال اور جاگرگُڑا کے درمیان کے ہائی وے سے -25 25 کلو گرام کے دو دیسی بم برآمد کئے ۔(دیکھئے: زی نیوزNovember07,2013,18:03)،جبکہ راجستھان پتریکا کے مطابق الگ الگ مقامات سے کل 100کلوگرام دھماکہ خیز اشیاء برآمد ہوئے ہیں۔(راجستھان پتریکا،7نومبر2013)
دھماکہ خیز اشیاء کی یہ برآمدگی اس بات کا اعلان ہے کہ پٹنہ بم دھماکوں کے بعد پورے ملک میں دھماکہ خیز اشیاء کی برآمدگی کا ایک سیلاب سا آیا ہے ۔ اس تعلق سے میڈیا میں آئی خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان برآمدگیوں میں سے کچھ کا تعلق انڈین مجاہدین کے حوالے سے مسلمانوں سے جوڑا جارہا ہے تو کچھ کا نکسل واد تحریک سے۔ جبکہ پٹنہ بم دھماکوں سے قبل ہوئے دھماکہ خیز اشیاء برآمدگی پر اگر ایک نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں انڈین مجاہدین یا نکسل واد سے کوئی رابطہ نہیں ہے بلکہ یہ راست طور پر بھگوا دہشت گردوں کا کارنامہ معلوم ہوتا ہے۔کیونکہ دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی کی ایک پوری فہرست ہے جس میں کسی نہ کسی طور پر ایسے لوگوں کے نام سامنے آتے ہیں کہ اگر ان کی باریک بینی سے چانچ کی جائے تو اس کا دوسرا سرا ناگپور کے آر ایس ایس ہیڈکوارٹر سے ملتا ہے۔ مثال کے طور پر اگست20013میں رائے پور کے ایک کباڑی کے دوکان سے برآمد ہونے والے دھماکہ خیز اشیاء کی برآمدگی کا ہی معاملہ لے لیں جس کے الزام میں پولیس نے اتپندر پانڈے نامی ایک شخص کو گرفتار کیا تھا۔ لیکن اس برآمدگی کو غیرقانونی کباڑ کے اشیاء کی خرید وفروخت کے معاملے سے جوڑدیا گیا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ مالیگاؤں 2006کے دھماکوں سے قبل احمد نگر میں 12اکتوبر2006کو شنکر شیلکھے نامی ایک شخص کے گودام پر چھاپہ مارکر آر ڈی ایکس کی ایک بہت بڑی مقدار برآمد کی تھی اور جس کی برآمدگی کے بعد شنکر شیلکھے نے خودکشی کرلی تھی۔ اسی طرح 2006اور2007کے درمیان فوجی اڈوں سے دھماکہ خیز اشیاء کی چوری کے بے شمار واقعات میڈیا میں آئے تھے اورٹرک کے ٹرک دھماکہ خیز مواد راستوں سے ہی غائب ہوجایا کرتے تھے۔
مذکورہ حقائق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملک میں سرگرم بھگوادہشت گرد اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے لئے نہ صرف دھماکہ خیز اشیاء کا ذخیرہ کرتے ہیں اور کررہے ہیں بلکہ موقع ومحل کے مطابق اپنے آقاؤں کی ایماء پرواردات بھی انجام دیتے ہیں۔ لیکن چونکہ دہشت گردانہ وارداتوں کا تعلق مسلمانوں سے جوڑنے کی تفتیشی ایجنسیوں میں ایک ہوڑ سی مچی ہوئی اس لئے اس کا راست تعلق اندین مجاہدین جیسی غیرموجود تنظیموں کے حوالے سے مسلمانوں سے جوڑ دیا جارہاہے۔ اس ضمن میں ملکی سطح پر ایک زبردست منصوبہ بندی کا عمل بھی سامنے آتا ہے جس کی سربراہی قومی سلامتی کے حوالے سے آئی بی انجام دے رہی ہے۔رانچی کے اِرم گیسٹ ہاؤس سے دھماکہ خیز اشیاء کی برآمدگی میں بھی راست طور پر آئی بی کی یہی منصوبہ بندی سامنے آتی ہے جو اس کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کی سمت ایک اہم قدم بھی ہے ۔ اس کو این سی ٹی سی کی منظوری کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو بات بہ آسانی سمجھ میں آجاتی ہے۔واضح رہے کہ این سی ٹی سی کی مخالفت کرنے والوں میں بہار بھی شامل تھا جس کی سزا اسے دہشت گردانہ واردات کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ اس کے ذریعہ اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ بہار بارود کے دہانے پر ہے اور اسے صرف اور صرف این سی ٹی سی کا قانون ہی بچا سکتا ہے جو آئی بی کو ایک تفتیشی ایجنسی کی صورت میں تبدیل کردیگا۔ 
پٹنہ میں جس طرح دھماکے ہوئے تھے اور جس طرح چھتیس گڑھ میں نریندر مودی وسونیا گاندھی کی ریلی سے قبل دھماکہ خیز مواد برآمد ہوئے ہیں اس نے اگر ایک جانب ملکی سلامتی پر سوالیہ نشان لگادیا ہے وہیں خفیہ ایجنیسوں کی مفسدانہ کوششوں کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔ پٹنہ دھماکوں کے بعد بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کا یہ بیان کہ آئی بی کی جانب سے انہیں کوئی ان پٹ نہیں ملاتھا ، اپنے آپ میں ایک اہم بیان تھاجو دھماکوں کے شور میں دب سا گیا ۔ دراصل آئی بی اپنی اسی خفت کا بدلہ لینے کے لئے رانچی کے گیسٹ ہاؤس سے دھماکہ خیز مواد کی فراہمی کا کہانی پلانٹ کی ہے تاکہ اس کو اپنی اہمیت اجاگر کرنے کا موقع مل جائے اوراس کے پسِ پردہ مسلمانوں کو مزید معتوب کیا جاسکے نیز ووٹوں کا بڑے پیمانے پر پرولائزیشن کرایا جاسکے۔اس لئے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بم دھماکے اور دھماکہ خیز مواد کی یہ برآمدگی بی جے پی کی انتخابی پالیسی کے تحت ہورہا ہے اور جس میں آئی بی ودیگر تفتیشی ایجنسیاں بی جے پی کی حمایتی گروپ کی شکل میں سامنے آرہی ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا