English   /   Kannada   /   Nawayathi

جن سے الفت تھی بہت

share with us

بس وہی لمحہ اور پھر حرکتِ قلب آہستہ آہستہ بند ہونے لگی، اورتھوری ہی دیر میں آپ ہمیشہ کے لیے دنیا کو داغِ مفارقت دے گیے ،اور یہ پورا وقفہ بس صرف دوسے چار منٹ تک کا رہا ہوگا۔ اتنی آسانی سے روح کا قبض ہو جانا ، ان کی رات دن کی دعاوؤں کی قبولیت کا اثر، اورایک بندۂ مومن کی زندگی کے اختتام کا روح پرور سماں تھا۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
فکردے خاندان کے روشن چراغ ،اس کی دینی اور علمی پہچان مرحوم کے قابلِ فخر فرزند، مشفق بہنوی مولانا عبد الباری علیہ الرحمۃ کے دنیا سے رخصت ہوئے ابھی تقریبا پانچ ماہ ہی کا عرصہ گزرا تھا کہ ان کے والدِ ماجد بھی اپنے فرزند کے بغل میں آرام فرما گیے۔خانوادۂ "فکردے" بھٹکل کے اہلِ نوائط کا ایک مشہور خاندان ہے۔ "عرب دیار ہند "کے فاضل مصنف مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی ندوی کے تحقیقی رجحان کے مطابق "فکردے "خاندان کا انتساب فخر الدین نامی صاحبِ مقام وحیثیت شخصیت کی طرف ہوتاہے، اور بقول ان کے " یہ گھرانہ بھی تاجروں کا ہے، اور اسی میں فروغ اور ترقی پا رہا ہے" ۔ مگر اس کے ذکر کے ساتھ ہمیں کہیں علمی یا دینی دعوت کے لیے قربانیوں میں ماضی قریب میں کوئی نظر نہیں آتا ہے، لہذا خانوادۂ فکردے کی نیک نامی،شہرت کی بلندی اور عزت میں ترقی کا باعث مرحوم کے فرزند مولانا عبد الباری ہی تھے، جن سے پورے خاندان کا نام روشن ہوا، تو یہ محض توفیقِ الہی کے بعد ان کے والدین کی تربیت اور صحیح دینی تعلیم کا انتخاب ہے۔اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ چلتا ، اور شجرِ سایہ دار کی طرح پہلتا رہے گا، اور مولانا کے عالم و فاضل اور لائق وقابل فرزندان کی بدولت چراغ سے چراغ جلتا رہے گا۔ جنہیں ورثہ میں اپنے والدِ ماجد کایہ سرمایہ ہاتھ آیا ہے، جن کے تمام بچوں نے دینی تعلیم پائی ، اور اسی راستہ کو اپنایا ، جس پر ان کے والد نے عمل کرکے دکھایا ۔ اور جاتے جاتے بچوں کویہی وصیت بھی کر گئے کہ دین کی خدمت او ر اس کی نشر واشاعت ہی ہماری میراث ہے ۔
ابتدائی تعلیم درجۂ چہارم ( چوتھی کلاس) تک حاصل کی، اپنے والدجناب محمد بن اسماعیل فکردے کے انتقال کے بعد اقتصادی عدمِ استحکام اور گھریلومعاشی حالات نے تعلیم ترک کرنے پر مجبور کیا،اوراحساسِ ذمہ داری نے معاش اور ملازمت کی تلاش کی راہ دکھائی، لہذا صرف ۱۴ سال کی چھوٹی ہی عمر میں ملازمت اختیار کی، پھرریاست"ِ ٹامل ناڈو" کے صنعتی شہر" کویمبتور "کے دیوی ہوٹل میں بر سرِ روز گار ہوئے، جہاں تقریبا ۴۵ سال تک کام کرتے رہے، عمرِ عزیز کا اہم ترین حصہ یہیں بسر ہوا، جوانی سے ادھیڑ عمر تک کے ایام یہیں گزارے، چھوٹی ملازمت سے لے کر بڑے عہدہ تک فائز رہے۔
عمر کے اس حصہ میں، بوڑھاپے کے ظہور کے بعد بھی حسین وخوبصورت چہرہ ، سبحان اللہ ، ماشا ء اللہ، جب اس عمر میں خوبصورتی کا یہ عالم تھا، تو جوانی میں خوبصورتی کا کیا عالم رہا ہوگا۔ ان تمام ظاہری اور نمایاں خوصیات کے ساتھ اوصافِ فاضلانہ و اخلاقِ کریمانہ کا وقار بھی غالب تھا۔ نیک مزاجی اور صلح جوئی عادتِ ثانیہ بن چکی تھیں، بے طمعی اور فقیر دوستی حد درجہ تھی ۔اس لیے جہاں رہے،ہر جگہ نیک نامی پائی، ہر دلعزیز رہے اور ایک صاف ستھری مثالی اور ایمانی زندگی بسر فرمائی۔
یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا
ہمیشہ خوش رہتے، لوگوں کو خوش دیکھنا پسند فرماتے ، زیرِ لب مسکراہتوں سے سلام کرتے، خیریت پوچھتے، صرف اسی کی نہیں بلکہ مخاطب کی متعلقین تک کی خیریت دریافت فرماتے،اپنا سلام غائبین تک پہنچاتے، طبیعت میں ظرافت تھی، باتوں باتوں میں نکتہ نکالتے، ظریفانہ مزاج میں مشفقانہ اسلوب ملحوظ رکھتے ،چاہنے والوں کو بہت چاہتے، بلکہ اپنے بچوں اور ان سے نسبت رکھنے والوں سے اظہار بھی فرماتے، گویا بچوں سے عملا یہی کہہ رہے تھے کہ : ع: تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں 
اپنے معمولات اور نظام الاوقات کے بڑے پابند تھے، ہر کام وقت پر فرماتے، فجر سے پہلے اٹھتے، تہجد کے لیے کھڑے ہوتے، تہجد کبھی ناغہ نہیں کرتے ، پھر نمازِ فجرکی تیاری کرتے، اذان ہوتے ہی مسجد جاتے، سنتوں سے فارغ ہو کر اپنے اذکار واوراد میں مشغول رہتے، جماعت کے انتظار میں رہتے، تکبیرِ اولی کا اہتمام فرماتے، نمازوں کے اذکار اور سنتوں کا پورا اہتمام فرماتے، اور یہی حال بقیہ نماز، کا بھی رہتا، نماز سے پابندی کانہیں بلکہ عشق کی حد تک تعلق تھا۔فجر بعد کے معمولات سے فارغ ہو کر باغبانی کرتے، درختوں کو پانی ڈالٹے۔ گھر کا کام کاج خود کرنا پسند فرماتے، اپنے کپڑے خود دھوتے، دھو کر سکھاتے، سوکھنے کے بعد الماری میں تریب سے رکھتے۔ سودا سلف لاتے، پیدل چلنے کے عادی تھے، چلتے بھی تیز تیزتھے۔اگر آپ کو دعوت دی جاتی تو قبول فرماتے،اپنی حاضری سے داعی کو خوش کرتے۔ اپنی صحت کا پورا خیال رکھتے، کھانے پینے میں بھی احتیاط برتتے ۔
مرحوم سے ہمارے تعلقات اس روز سے شروع ہو چکے تھے جس وقت ہماری چھوٹی ہمشیرہ صاحبہ کی نسبت ان کے قابلِ رشک فرزندِ ارجمند مولانا عبد الباری علیہ الرحمۃ سے ہوئی تھی، اور اسی کے ساتھ ہمارے تعلقات کا آغاز ہوا تھا، جن کی پہلی ملاقات سے آخری ملاقات تک ہمارے ان سے روابط رشتہ داری میں منتقل ہو گیے تھے، اور یہ نیا تعلق پرانے اور قدیم تعلقات پر سبقت کر گیا تھا۔
غالبا سن ۱۴۰۷ ہجری ، مطابق ۱۹۸۷ عیسوی کا زمانہ تھا ، مجھے بہنوی مرحوم کے ساتھ کالیکٹ مدرسہ تحفیظ القرآن کے پروگرام میں جانے کی سعادت حاصل ہوئی، وہاں سے کویمبتور چلے گئے، جہاں بہنوی مرحوم کے والد رہتے تھے ، بہنوی نے ایک یا دو دن قیام فرمایا، اور مجھے اپنے والد کے پاس چھوڑ کر بھٹکل روانہ رہے، اس وقت میں چھوٹا تھا، اس لیے بہنوی کے ساتھ ہی واپس لوٹنا چاہتا تھا، مگر آپ نے مجھے سیر وتفریح کی لالچ دی، قریبی جگہوں میں اونٹی تفریح کے لیے مشہور جگہ تھی، مجھے وہاں لے جانے کا آس دلایا، اپنی چاہتوں سے قریب کیا بہت اصرار سے روکا تو اب میرے پاس سوائے رکنے کے کوئی چارہ نہ تھا، اور مجھے رکنا پڑا۔ اس وقت مجھے آپ کو قریب سے دیکھنے کا پہلا موقعہ تھا، آپ نے بہنوی کی موجودگی میں ان کے ساتھ سلایاتھا، مگر ان کے جانے کے بعد اپنے ہی کمرہ میں رکھا، آپ نے ہر طرح سکون پہنچانے کی فکر فرمائی، میرے کپڑوں سے لے کر کھانے پینے تک کا پوراخیال رکھا، ذرا برابر اجنبیت کا احساس ہونے نہیں دیا اور اپنے اعلی اخلاق سے پدرانہ شفقت اور حد درجہ محبت سے نوازا، بلکہ اظہارِ محبت کی حد یہ کہ کھانے بیٹھنے پر چند لقمہ اپنے ہاتھ سے کھلاتے، جو سلسلہ آخری سالوں تک چلتا رہا، اور کبھی کبھار جب بھی مجھے ان کی رہائش گاہ پرکھانے بیھٹنے کا اتفاق ہوتا ، لقمہ دو لقمہ یا کوئی گوشت کا ٹکڑا ضرور میرے منھ میں رکھتے اور عقیدت کا اظہار فرماتے۔ مجھ سے ہمشیرہ کہا کرتی تھی ، کہ تمہارا شمار ان کے پاس مخصوص لوگوں میں ہوتا ہے، اسی لیے تم بھٹکل رہو تو ملاقاتیں کرتے رہا کرو، تم آنے سے بہت خوش ہوتے ہیں، اور ابھی آخری سفر میں بھٹکل سے دبئی روانگی کے وقت اپنے گھر سے والدین اور اہلِ خانہ کو رخصت کرنے کے بعد ان کے گھر آیا، اور آخری ملاقات ان سے کی ، ان کی پیشانی کا بوسہ لیا اوروعا وسلام کے ساتھ رخصت ہوا تھا، ۔
مہمان نوازی ایک فن ہے اور ایک اعلی ذوق بھی، مہمان نوازی کے لئے امیری یا غریبی شرط نہیں ہے،مرحوم میں یہ وصف ہوٹل کے مالک ، رکنِ شوری جامعہ اسلامیہ، جناب سید موسی کاظمی علیہ الرحمۃ کی وجہ سے بھی تھا،جو ایک امیر اور مالک ہونے کے باوجود انتہائی متواضع ،ملنسار، خدمت گزار اور غریب پرور تھے،اسی ہمدردی اور جود وسخا کی وجہ سے وہ ہوٹل کے ملازموں کے درمیان بلا امتیازِ مراتب خود بھی شریکِ کار ہوتے۔ایسے مخلص شخص کی صحبت میں رہ کرجیلانی مرحوم میں بھی وہ ساری صفتیں یکجا ہو گئیں تھیں۔اسی لیے مہمان نوازی میں آپ کی عمر کا ایک وافرحصہ گذرا،آپ کے مہمانوں میں بڑے چھوٹے، امیر وغریب، طالبِ علم اور استاذ سب رہتے تھے، خصوصا جب آپ کویمبتور کے مشہور ہوٹل ( جو ریلویے اسٹیشن کے روبرو واقع ہے)میں ملازمت کر رہے تھے ، تو اکثر وبشتر جانے پہنچانے اور کبھی انجانے احباب بھی تشریف لاتے،تو آپ ان کی خدمت فرماتے، ان کا بھرپور خیال رکھتے، پردیسوں کے لیے معمولی خیال رکھنا بھی بہت ہوتا ہے، مگر آپ ان کا حد درجہ اور پورا خیال فرماتے، کسی بھی تکلیف کا احساس ہونے نہیں دیتے، انھیں ہر طرح آرام پہنچاتے، مہمان کے ہر ذوق اور ہر سہولت کا خیال فرماتے، ان کی ہر ضرورت خود پوری کرنے میں سعادت محسوس کرتے تھے۔
فراخ دلی اور سخاوت بھی مثالی پائی تھی، جس کا ایک مظہر مہمان نوازی میں تھاتو دوسرا اقربا اور رشتہ داروں میں تحفہ وتحائف کے ذریعہ ظاہر ہوتا تھا، جب بھی آپ کویمبتور یا بینگلور سے تشریف لاتے ، اچھی اور عمدہ مٹھائیاں اور موسمی پھل وغیرہ ساتھ لاتے۔ اسی طرح ضرورتمندوں کی امدد اور خفیہ تعاون کرتے، چھپا چھپا کرمستحقین تک پہنچاتے،اور اس مدد کا کسی کو پتہ یا احساس بھی ہونے نہیں دیتے تھے۔
دعا کا اہتمام اورشوقِ آخرت آخری سالوں ، مہینوں اور ہفتوں بلکہ دنوں میں بڑھتا ہی جا رہا تھا،موت کے استقبال میں رہا کرتے ،اور کبھی زبان پر معافی کے الفاظ رہتے ، اللہ کے حضور معافی مانگتے ہوئے کہتے " اللہ معاف فرما، اے اللہ معاف فرما" تو کبھی حسنِ خاتمہ کی دعائیں کرتے، اوربالخصوص اپنے فرزند کے انتقال کے بعد تو گویا دنیا ومافیہا سے بے رغبتی بڑھتی ہی جا رہی تھی، آخرت کا استحضار غالب رہتا تھا۔فرزند کی بیماری کے ظہور کے ساتھ ہی کمزوری شروع ہو چکی تھی،جو آہستہ آہستہ بڑھتی گئی، اور بیماری کی شکل اختیار کر کے مرض الموت بن گئی۔ آپ کی سن پیدائش ۱۹۳۴ ؁ عیسوی ہے، انتقال کے وقت آپ کی عمر عیسوی اعتبار سے ۸۲ /سال اور ہجری ۸۵ / سال تھی۔
عشاء کی اذان سے کچھ پہلے جنازہ اٹھا، اور اس ایمبولینس(Ambulance) پر جنازہ رکھا گیا جو آپ کے مرحوم وبزرگ فرزند کی طرف منسوب ادارہ کی پہلی پہل اور اس کا آغاز تھا، جس کا افتتاح عید الفطر کی نماز کے بعد جامع مسجد کے سایہ میں ہوا تھا، جامع محلہ پہنچنے کے بعد صدہا مسلمانوں نے کاندھا بدلتے بدلتے قدیم شہر کے قبرستان میں پہونچا دیا گیا۔ نمازِ جنازہ جامعِ مسجد میں ادا کی گئی، نمازآپ کے پوتے مولوی عبد الاحد ندوی نے پڑھائی، تدفین مرحوم فرزند کے بغل میں ہوئی۔
ایک عام جنازہ سے کہیں زیادہ لوگ اس جنازہ میں شریک تھے، جبکہ ان کا تعلق عوام الناس سے تھا،لوگ اس مرنے والے کے خد وخال سے اس کی ذاتی خصوصیات اور اوصاف سے زیادہ واقف نہیں تھے،جنازہ میں لوگوں کی کثرت کا سبب خود ان کا شہر کے ہر جنازہ میں شریک ہونا ہے ، اوریہ خود اس شخص کا ذاتی وصف تھا، جو یقیناًاللہ کی طرف سے آپ کو عطا ہوا تھا،اور اس جیسا وصف عوام الناس میں خال خال ہی نظر آتا ہے، دوسرا اہم سبب کثرتِ تعداد کا ان کا دینی تعلیم اور علومِ شرعیہ سے محبت کااثر اور اس انتساب کا حقیقی ثمرہ تھا جس سے آپ نے اپنے بڑے بیٹے محسنِ قوم نوائط کو بہرہ ور فرمایا تھا،اور شاید یہ بھی اللہ کو منظور تھا کہ اس دینی تعلیم کی مقبولیت کے اثر کو اپنی زندگی میں دیکھ کر اس جہان فانی سے کوچ کر جائیں۔ 
آپ کا ازدواجی رشتہ خاندانِ فقیہ احمدا ( جاکٹی ) کی با اثر شخصیت مرحوم عبد الرحمن صاحب فقیہ احمدا کی بیٹی محترمہ وحیدہ صاحبہ سے طئے ہوا، محترمہ ایک صالحہ اور متقیہ خاتون ہیں، جن کی زبان اللہ کے ذکر سے تر اوردن اوراد واذکاراورعبادات و معمولات میں بسر ہوتا ہے۔ نعمتوں پر شکربجا لانا ، حالات پر صبرکرنااور قضا وقدر پر کامل یقین رکھنا آپ کی خصوصی صفات ہیں۔ مرحوم کو آپ سے چار اولاد ہیں، دو بیٹے اور دو بیٹیاں ، بڑی بیٹی تبلیغی جماعت سے وابستہ ، ایک مخلص داعی جناب محمد اشفاق صاحب کاڈلی کی زوجہ محترمہ ہیں ،چھوٹی بیٹی مخلص قومی خادم ، صالح نوجوان جناب عبد الواجد کولا صاحب کی اہلیہ ہیں ۔اور بڑے بیٹے مولانا عبد الباری مرحوم اور چھوٹے بیٹے جناب عبد الرحمن یاسر سلمہ اللہ ہیں، تمام بچے ، بیٹے اور بیٹیاں ، نواسے اور پوتے پوتیاں نیک اخلاق کے مالک ، بہت سی خوبیوں کے حامل ہیں،آپ کی ایک پوتی اور دو پوتے حافظِ قرآن ہیں ، تین پوتے عالمِ دین ہیں، الحمد للہ سبھی دیندار ہیں،اسلامی شعائر کے پاند ہیں، دعوت وتبلیغ سے بھی وابستہ ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حدیثِ مبارکہ کی روشنی کے مطابق " ولدِ صالح" کی دعائیں پاتے رہیں گے، ثوابِ جاریہ کا یہ سلسلہ جاری رہے گا،اور آپ مغفرت کے ساتھ ساتھ اپنے درجات کی بلندیوں کے حقدار بنین گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کی اور آپ کے مرحوم فرزند اور جملہ مرحومین کی مغفرت فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا