English   /   Kannada   /   Nawayathi

دلت اور مسلمانوں کے مسائل کا حل’ اتحاد‘

share with us

دلت اپنا پیٹ پالنے کیلئے سماج کے نچلے و گندگی کے کام کرنے کو مجبور ہوئے تو مسلمان اپنے آبائی کاموں اور ہنر کے سہارے زندہ رہے۔ دونوں کی پسماندگی بھی لگ بھگ ایک جیسی ہے۔ شاید اسی لئے دستور ساز کمیٹی نے دلتوں کے ساتھ مسلمانوں کو بھی ریزرویشن دینے کی سازش کی تھی۔ اس وقت ریزرویشن مل گیا ہوتا تو آج مسلمان کس حالت میں ہوتے یہ کہنا مشکل ہے لیکن دلتوں کو دیکھ کر اس کا اندازہ ضرور لگایاجاسکتا ہے۔ ستر سال بعد بھی سچر کمیٹی نے مسلمانوں کا موازنہ دلتوں سے ہی کیا کیوں؟
دلتوں ومسلمانوں پر ظلم کرنے کے کچھ بہانے ہیں۔ ان میں سے ایک گائے بھی ہے۔ وہ گائے جس کی ماں کے طورپر پوجا کی جاتی ہے۔ اس کا پیشاب استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کو لے کر کچھ لوگ مرنے مارنے پر اتارو ہیں۔ ان گوپتروں کو اسے جانور کہنا بھی برداشت نہیں۔ لیکن اس بے چاری گوماتا کو پوچھ کوئی نہیں رہا۔ وہ لاوارث گھوم رہی تھی، گھوم رہی ہے، کوڑے کے ڈھیروں سے پالی تھین کھاکر اپنا پیٹ بھر رہی تھی، بھر رہی ہے۔ چلتے ٹریفک کے بیچ بیٹھی بلکہ حادثوں کی وجہ بنتی ہے اس کی حالت بھینس بکری جن کیلئے کسی کے من میں کوئی عزت نہیں سے بھی خراب بلکہ جانور سے بھی بدتر ہے۔ خیر ہم بات کررہے تھے دلت اور مسلمانوں پر گائے کے بہانے ہونے والے مظالم کی۔ اس کی تازہ مثال گجرات کے اونا سے سامنے آئی، جہاں چار دلت لڑکوں کو آدھا ننگا کرکے پیٹا گیا۔ اس کی’ طالبانی ویڈیو‘ آپ نے بھی دیکھی ہوگی۔ اس واقعہ نے ہریانہ کے دولینا چوکی کی یاد تازہ کردی، جہاں 2002میں گورکشکوں نے پولس چوکی کے اندر گھس کر چار دلتوں کا پیٹ پیٹ کر قتل کردیاتھا۔ اونا کا یہ معاملہ پہلا یا آخری نہیں ہے۔22مئی کو اونا سے 50کلو میٹر دور راجولا میں بھی دلتوں کو اسی طرح پیٹا گیاتھا۔ اس کی ویڈیو بھی بنائی گئی تھی۔ ایف آئی آر کے باوجود دوماہ تک پولس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ دادری یوپی کے بساہڑا گاؤں میں بھیڑنے اخلاق کے گھر میں گھس کر اس کو قتل کردیاتھا اوران کے لڑکے کو ’نیم مردہ‘حالت میں چھوڑ گئے تھے۔ ہریانہ میں جانور لے جارہے ٹرک کے ڈرائیور کو بھیڑنے پیٹ پیٹ کر مارڈالا تھا۔ ہماچل میں بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا اورپولس تماش بین بنی رہی۔ کئی مرتبہ تو پولس الٹے مظلوموں پر ہی پشو اتیاچار مخالف قانون کے سہارے کارروائی کرتی ہے۔ دلتوں و مسلمانوں پر اس طرح کے مظالم کا سلسلہ پورے ملک میں جاری ہے۔حالیہ واقعہ یہ ہے کہ مدھیہ پردیش کے مند سور ریلوے اسٹیشن پرپولس کی موجودگی میں دومسلم خواتین پر گؤ رکشکوں نے حملہ بولا ۔پولس بنی رہی تماش بین،مایاوتی نے اس مسئلہ پر بی جے پی کو راجیہ سبھا میں گھیرا۔
گائے جس طرح نفرت، فساد اور ظلم کا ذریعہ بنتی جارہی ہے، اس سے یہ امکان ہے کہ مسلمان اور دلت گائے کا پالن بن کردیں۔ جانوروں کے تاجر گائے کی خریدوفروخت میں دلچسپی لینا چھوڑدیں گے کیوں کہ خواہ مخواہ کوئی مصیبت مول لینا کیوں چاہے گا۔ اگر اپنے لوگوں کی پٹائی کے بدلے یہ لوگ بھی ویسے ہی گائے کو لاوارث چھوڑ دیں جیسے کہ ان کے دلارے چھوڑ دیتے ہیں تو ان کی سڑکوں پر تعداد اور بڑھ جائے گی۔ یہی لاوارث جانور اگر مرجائے تو کوئی بیٹا اپنی ماتا کی آخری رسومات تو دور اس کے مردہ جسم کو ٹھکانے لگانے بھی نہیں آتا۔ اس کی نعش سڑ نہ جائے اور کوئی بیماری نہ پھیلے، اس کیلئے سماج کے محروم طبقہ دلت کو ہی کام کرنا پڑتا ہے اور لمبے عرصہ سے وہ یہ کام کرتے آئے ہیں۔ وید، پرانڑ اور دیوی دیوتاؤں کی کہانیوں میں مسئلے کا حل ڈھونڈنے والوں کو ان سوالوں کا جواب شاید ہی ملے کہ اگر مردہ جانوروں کا چمڑا یہ دلت نہ اتاریں تو یہ کام کون کرے گا، جانوروں کے مردہ جسموں کو کون ٹھکانے لگائے گا، اگر لوگ گائے کی خریدوفروخت بند کردیں تو اس کا کیا مول رہ جائے گا،گائے پالنا آج نقصان کا سودا ہے، ایسے میں اس کی حفاظت کون کرے گا؟ شاید اسی لئے مہاراشٹر اسمبلی کے ایک بھاجپا ممبرنے اپنی پارٹی کی گؤپالیسی پر شدید اعتراض کیاتھا۔
گجرات میں دلتوں نے جس طرح کا رد عمل ظاہر کیا ویسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ دلتوں نے اپنے دم پر بغیر کسی کی مدد کے احتجاجی تحریک شروع کردی۔ اس معاملے میں اقتدار کی ملائی میں ڈوبے اور سیاست کی کیچڑمیں دھنسے دلت لیڈران کارویہ شرمناک رہا۔ جن لوگوں کو جاتی واد کا شکار بتابتا کر یہ نیتا بنے ان لوگوں کو بیچ سڑک پر بے عزت کر پیٹا گیا اوریہ کچھ نہیں بولے۔ وہ اکیلے ہی سڑکوں پر جدوجہد کرتے رہے۔ کوئی دلت لیڈر آگے نہیں آیا۔ بات تشدد تک پہنچ گئی تب جاکر ان کی میڈیامیں آنکھ کھلی۔ شروع میں دلت احتجاج کو نیشنل میڈیا نے رپورٹ کرنا ضروری نہیں سمجھا لیکن جب یہ آندولن پورے گجرات میں تانڈو کرنے لگا تب جمہوریت کے سارے چوتھے کھمبوں میں کرنٹ پہنچ گیا۔ اس بار دلتوں پر تشدد واستحصال کی بات نکلی تو دور تک چلی گئی۔ اسمبلی سے پارلیمنٹ تک اس کی گونج سنائی دی۔ پورے ملک میں دلت اس واقعہ سے بے چین ہیں اور گجرات میں جس طرح کا احتجاج ہورہا ہے اس سے سمجھ لینا چاہئے کہ دلتوں کے صبر کا پیالہ بھر چکا ہے۔ اقتدار میں بیٹھے دلت لیڈران یہی سوال کررہے ہیں کہ کیا دلت اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟ یہی حال مسلم رہنماؤں کا ہے ۔پہلے وہ مسلم عوام کی طرف دھیان نہیں دیتے لیکن جب مسئلہ بڑھ جاتا ہے تو وہ اس پر سیاست کی روٹیاں سینکنے نکل پڑتے ہیں۔ مولویوں کو مسجد اور مدرسہ کے چندے سے فرصت نہیں ہے اور سیاسی لوگوں کو اپنے آقاؤں کی غلامی سے۔ کہیں کوئی انہونی ہوجاتی ہے تو کچھ لوگوں کو ریلیف کے نام پر کھانے اور تفریح کا موقع مل جاتا ہے۔ دلتوں نے گجرات کے گؤرکشکوں کی مہم کی چمڑی ادھیڑ دی ہے۔ وہ چاروں دلت شاید ابھی تک بستر پر پڑے ہوں گے لیکن ان کے لوگوں نے پورا گجرات بلکہ پورا ملک سر پر اٹھا لیا ہے۔
کئی تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ گجرات جیسا آندولن اگر مسلمانوں نے کیا ہوتا تو ملک میں بوال ہوجاتا۔ بات صحیح بھی لگتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کے آندولن کے بغیر بوال نہیں ہوتا۔ انہیں نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر کیا ملک میں آگ نہیں لگائی جاتی؟ دلتوں نے جس طرح کے رد عمل کا اظہار کیا ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امبیڈکراور کانشی رام بھلے ہی آج ان کے درمیان موجود نہیں لیکن وہ ان کی خود داری، شعور کو جگاہی گئے۔ اپنے ساتھ ہورہی زیادتیوں پر آخر کار ان کا غصہ پھوٹا ہے۔ امبیڈکر نے دلتوں سے کہاتھا کہ تعلیم حاصل کرو، متحد رہو اور جدوجہد( آگے بڑھنے کی) کرو۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ دلت، پسماندہ اور انتہائی پسماندہ کا ایک حصہ پڑھ لکھ کر ملک کے متوسط طبقہ میں شامل ہے۔ وہ اپنے ساتھ ہورہے بھید بھاؤ اور ناانصافی کے خلاف متحد ہوکر جدوجہد کرنے کا احساس ان میں جگا رہا ہے۔ گجرات کے آندولن سے بھی یہ ثابت ہوگیا۔ دوسری طرف مسلمان ہیں جو قرآن اور نبیؐ کی بات پر بھی کان نہیں دھرتے بلکہ مسلک کے بہانے ہمیشہ بٹے رہتے ہیں۔
مسلمان اور دلتوں کے مطالعے سے ایسا لگتا ہے کہ یہ کبھی مارشل قوتیں رہی ہوں گی، ان کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے پسماندہ رکھا گیا ہوگا۔ دلتوں کو امبیڈکر نے ریزرویشن کے ذریعہ سہارا دیا لیکن مسلمانوں کو ان کے اپنے لوگوں نے اس سہولت سے محروم کردیا۔ بھارت نے آزادی کے بعد جب جمہوری آئین اپنایا تو دلتوں کو بھی برابری کا حق دیا۔ لیکن سماج نے ان کے ساتھ وہی غیرانسانی رویہ روا رکھا جو ڈھائی ہزار سال سے جاری ہے۔ انہیں ریزرویشن کے ذریعہ پارلیمنٹ، اسمبلیوں، تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں جگہ توملی لیکن یہ پابندی بھی لگادی کہ اگر وہ دوسرا مذہب اپناتے ہیں تو ریزرویشن کا خصوصی حق ان سے لے لیا جائے گا۔ بھارت میں سماجی نابرابری چھواچھوت سے اس بات کا امکان تھا کہ دلت اپنا مذہب تبدیل کرلیں۔ اس پابندی نے ان کے اس راستے کو روک دیا۔ پھر بھی کچھ لوگوں نے ہمت کی اور فائدے کی پرواہ کئے بغیر مذہب تبدیل کیا۔
ملک میں دلتوں کی آبادی 17-16 فیصد ہے اورمسلمان15-14 فیصد۔ یہ دونوں مل جائیں تو دیش میں سیاست کی ایک نئی عبارت لکھ سکتے ہیں۔ گجرات اور مہاراشٹر سے اٹھی دلتوں کی آواز نے بتادیا کہ انہیں کسی بڑے چھوٹے ،موٹے پتلے نیتا کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اپنی لڑائی خود لڑسکتے ہیں۔ مسلم عوام بھی اپنے اندر یہ حوصلہ پیدا کرلیں توان کی دلتوں کے ساتھ جوڑی بن سکتی ہے۔ کانشی رام نے ایک وفاق بنانے کی کوشش کی تھی۔ دنیا کا اصول ہے کہ اگر مظلوم اور پسماندہ ایک ساتھ جمع ہوجائیں تو ظالم کے پیر خود بخود اکھڑ جاتے ہیں۔ شاید اسی لئے گجرات میں دلت استحصال، ظلم اورفرقہ وارانہ حملوں کا ملا جلا ماڈل تیار ہوا جو ملک کے مختلف حصوں میں دکھائی دیتا رہتا ہے۔ ماڈل یہ ہے کہ دلتوں کو فرقہ وارانہ حملوں کااوزار بنایا جاتاہے اور مسلمانوں کو دلتوں کے سیاسی، سماجی مفادات کے خلاف کھڑا کیا جاتا ہے۔ امر سنگھ چودھری سرکار نے گجرات میں ریزرویشن فیصد بڑھانے کا فیصلہ کیا تو ریزرویشن مخالفوں نے پہلے دلتوں پر حملے کئے پھرگجرات بند کا اعلان۔ اس بند میں مسلمانوں نے حصہ نہیں لیا توان کے خلاف فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوگئے۔ اس طرح جب وی پی سنگھ نے ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا تو بی جے پی نے ہندوؤں کی رتھ یاترا نکال دی اورملک بھر میں فرقہ وارانہ وارداتیں ہوئیں۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ دلتوں کا مسلمانوں کے ساتھ ملنا اور مسلمانوں کا دلتوں کے ساتھ ہونا ان کے مفاد میں ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا