English   /   Kannada   /   Nawayathi

موجودہ دنیا کی خوں آشام تہذیب کا تاریخی پس منظر

share with us

یہ ایک نئے دور کا آغاز تھا جس میں بظاہر خدا کے لئے خدا کے کائنا ت میں کوئی جگہ نہیں رکھی گئی تھی۔ یہ علی الاعلان مذہب کے خلاف بغاوت کا دور کہلاتا ہے۔ مذہب کے خلاف بغاوت کی یہ تحریک مضبوط سے مضبوط تر تو ضرور ہوتی گئی لیکن دلوں میں مذہب کی خاطرایک خاموش چنگاری مغرب کے بتکدوں میں لگاتار سلگتی رہی۔ اگر بعض دیگر مؤرخین کی بات مانی جائے تو یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دراصل مغرب کی نشأۃ ثانیہ کا دور چودھویں سے سترہویں صدی کا دور نہیں ہے بلکہ صلیبی جنگوں کے دوران مسلم ممالک اور مسلم تہذیب سے ارتباط کے بعد کا دور زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہی وہ دور ہے جس میں مسلمانوں کے درمیان رائج علوم وفنون سے ان کو متعارف ہونے کا موقع ملا۔ اگر اس تاریخی پہلو کو دھیان میں رکھا جائے تو پھر مغرب کے نشأۃ ثانیہ کا دور گیارہویں اور بارہویں صدی میں ہی شروع ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اہل علم یہ مانتے ہیں کہ مغرب کا معاشرہ اپنی ترقی کے لئے اسلام کے احسان سے ہمیشہ زیربار رہے گا۔ واضح رہے کہ صلیبی جنگوں کی شروعات کلیسا کے رہبروں نے گیارہویں صدی کے اواخر میں کی تھی۔ ان جنگوں میں عیسائی مذہب کے پیروکاروں کو صرف میدان جنگ میں ہی شکست نہیں ملی بلکہ اسلامی تہذیب نے علمی میدان میں بھی ان کو اپنا اسیر بنایا۔ آخر کار وہ دور آیا جب انیسویں اور بیسویں صدی تک کرہ ارضی کا کوئی حصہ مغربی تہذیب کے اثر سے اچھوتا نہ رہ سکا۔
فکر وفلسفہ کی دنیا میں مغرب نے فلاسفہ وحکماء کی بڑی تعداد پیش کی جن میں فرانسس بیکن‘ اسپینوزا‘ والٹائر‘ ایمینویل کانٹ ‘ شاپنائر‘ ہربرٹ اسپینسر‘ ہیگل اور نتشے جیسے لوگ کافی مشہور ہوئے۔ ان حکماء مغرب نے ارسطو اور سقراط کے قدیم فلسفوں کے احیاء کے ساتھ ساتھ مسلم حکماء کے علمی خدمات کو مزید آگے بڑھانے میں بھی وسعت قلبی سے کام لیا۔ مغرب کے ان فلاسفہ میں فرانس کے عہد تنویر کا خالق فلسفی وولٹائر کو خاص مقام حاصل ہے۔ اٹھارویں صدی کے انقلاب فرانس میں اس کی تعلیم کو بڑا دخل ہے۔ انقلاب سے قبل کا فرانس در اصل تین طبقوں میں بٹا ہوا تھا۔ ایک طبقہ اہل مذہب کا تھا ‘ دوسرا طبقہ شرفاء کا اور تیسرا طبقہ فرانس کے عوام کا تھا۔ حکمرانی کی کلید لوئس شانڑدہ کے ہاتھ میں تھی۔ اولین دو طبقے ( شرفاء او را ہل مذہب) صرف طبقہ ثالث سے ان کی محنت کی کمائی وصولتے تھے او ر داد عیش دیتے تھے۔ اور اٹھارویں صدی کے نصف ثانی میں جب عوام پر ٹیکس کا بار ناقابل برداشت ہو گیا تو لوئس شانڑدہ کے مالی امور کا کنٹرولر جنرل کالون کی گزارش کے باوجود اولین دو طبقوں نے ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری اپنے سر لینے سے صاف انکار کر دیا اور اس طرح 1787 میں منعقد شرفاء کی اسمبلی سنگین اقتصادی مسئلے کو حل کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئی۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ تباہی کا طوفان عنقریب ہی آنے والا ہے۔ فلاسفہ کی تعلیم کی وجہ سے عوامی طبقہ کسی حد تک اپنے حقوق کے تئیں بیدار ہو چکا تھا اور مزید ذلت سہنے کے لئے آمادہ نہیں تھا۔ نتیجتاً 1789 میں جب انقلاب کا طوفان اٹھا تو پھر وہ پوری ایک دہائی تک تھم نہ سکا۔ لوئس شانڑدہ کے خلاف بغاوت کی لہر اتنی تیز ہو گئی کہ جنوری 1793 عیسوی میں اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ گویا مغربی تہذیب میں خوں ریزی کا یہ پہلا باب تھا جو اہل مغرب اپنے ہاتھوں سے رقم کر رہے تھے۔ 1793 سے 1794 کے دوران پورے فرانس میں قتل وغارت گری کا تماشہ ہر جگہ جاری رہا اور 15 ہزار سے زیادہ لوگوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ خوں ریزی کا یہ سلسلہ میکسملن روبس پیری کی قیادت میں چل رہا تھا جو لوئس کے بعد 1793 کے دستور کے تحت زمام قیادت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ لوئس کے دفاع میں اگرچہ پڑوسی ممالک آسٹریااور پروشیا نے فرانس پر فوج کشی کر دی تھی لیکن میکسمیلن کے زیرقیادت فوج نے باہری افواج کو بھی فرانس سے بے دخل کردیا۔ البتہ تشدد او رہلاکت کا جو بازار روبس پیری نے سجایا تھا آخر کار وہ اس کا شکار وہ خود بھی ہو گیا۔ جولائی 1794 میں اس کو ہلاک کردیا گیا۔ اس کے بعد کا دور بھی ظلم وتشدد کے لئے ہی مشہور رہا تاآں کہ 1799 میں نیپولین نے فرسٹ کاؤنسل کے طور پر فرانس کی قیادت اپنے ہا تھ میں لی اور 15 سالوں تک فرانس فوجی حکومت کے زیر اثر رہا۔
انقلاب فرانس کی تفصیل قدرے طوالت سے پیش کرنے کی غرض یہ ہے کہ یہ اندازہ ہو جائے کہ مغربی تہذیب کا آغاز ہی سماجی تناؤ اور خوں ریزی کے ذریعہ ہو اہے۔ فلاسفہ کا خدا بیزار نظریہ پہلے ہی انسانوں کا رشتہ خالق کائنات سے کاٹ چکا تھا اور اب ان کیے یہاں مادہ اور معدہ کے علاوہ کسی بھی چیز کی بالادستی قابل قبول نہیں رہ گئی تھی۔ روح کا علاج مہیا کرنے کا دم بھرنے والا کلیسا صحیح مسیحی تعلیم کے ڈگر سے صدیاں ہوئیں کہ بھٹک چکا تھا۔ ایسے ماحول کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ جب فرانس کو مادی اور علمی قوت حاصل ہوئی تو اپنی طاقت کے ذریعہ دنیا کی دیگر قوموں کو اپنا غلام بنانے کے لئے نکل پڑا۔ اور اس کا پہلا شکار اسلامی ملک مصر ہوا۔ کیوں کہ مسلم ممالک ہی مغرب کی نظر میں اولین حریف کی صف میں موجودتھے۔ فرانس کی جارحیت کا پہلا شکار 1799 میں مصر ہوا۔ لیکن زیادہ دنوں تک اپنی استعماریت کو قائم نہ رکھ پایا۔ مغرب کی خوں آشام تہذیب کا بھیانک چہرہ زیادہ واضح طریقے سے تب سامنے آیا جب فرانس نے شمالی افریقہ کے مسلم ممالک کا رخ کیا اور تیونس اور جزائر میں خون کی ہولی کھیلا۔ صرف جزائر کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تب بھی مغرب کی سفاکی کا پہلو نہایت واضح ہو جاتا ہے ۔جزائر کی حقوق انساں کمیٹی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق فرانسیسی سامراج نے محض 1830 سے 1962 کے دوران نوے لاکھ جزائر کے باشندوں کو موت کے گھاٹ صرف اس لئے اتار دیا کہ وہ فرانسیسی ظلم وجبر اور احتلال کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے تھے۔شہداء جزائر کی یہ تعداد خود فرانسیسی مؤرخین اور حکومت فرانس کی آرکائیوز میں موجود دستاویزات کی بنیاد پر طے کی گئی ہے۔ فرانس کے مؤرخین میں جاک گورکی کا نام بطور خاص قابل ذکر ہے جنھوں نے شہداء جزائر کی تعداد ایک کروڑ بتائی ہے۔ جب کہ جزائر کے مؤرخ محمد حسن زغیدی نے نوے لاکھ سے زائد طے کی ہے۔ واضح رہے کہ فرانسیسی سرکاری تعداد 15 لاکھ ہے۔ جزائر نے 1954 سے 1962 کے دوران پورے سات برسوں تک استعمار فرانس کے خلاف اپنی تمام تر قربانیاں پیش کیں اور بالآخر 1962 میں یہ منحوس سایہ ختم ہوا۔ مغربی تہذیب کی ساخت میں خوں ریزی اور حقوق انسانی کی پامالی کو جو مقام حاصل ہے اس کی یہ دوسری مثال ہے۔
مغربی تہذیب کی اس خوں پسند طبیعت کا تعلق صرف فرانس کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ مغرب کا یہ عنصر جہاں جہاں پہونچا قتل وغارت گری کے ہوش ربا شوق کے ساتھ ہی پہونچا۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی سامراج کا چہرہ بھی اتنا ہی خونخوار نظر آتا ہے جتنا کہ فرانس کا۔
فریب ‘ چالبازی کے علاوہ بے جا قوت کے استعمال سے دنیا کی مہذب قوموں کو اکثر اپنے زیر نگیں کرنے کا نسخہ بھی سب سے پہلے مغربی تہذیب کے عیاروں نے ہی تیار کیا تھا۔ مغلیہ عہد میں بطور تاجر ہندوستان میں داخل ہو کر وہاں کے طول وعرض میں جو تباہی برطانوی سامراج نے مچائی ہے اور وہاں کے باشندوں کو نہ صرف یہ کہ تہہ تیغ کیا ہے بلکہ بنیادی انسانی حقوق سے بھی ان کو محروم کیا ہے۔ اس کی تاریخ اتنی طویل ہے کہ دنیا بھر کی لائبریریاں اس سے بھری پڑی ہیں۔ 1857 کی جنگ آزادی کے واقعات سے تاریخ کا ہر طالب علم واقف ہے۔ علماء اور مجاہدین آزادی کی گردن کشی برطانوی سامراج کا ہندوستان میں سب سے پسندیدہ عمل تھا۔ درد و کرب اور ظلم وبربریت کی ہولناک تصویر آج بھی جب آنکھوں کے سامنے پھرتی ہے تو کلیجہ منھ کو آجاتا ہے۔ برصغیر ہند میں آج کل قتل وغارت گری کی جو تہذیب نظر آتی ہے اس کا اگر تاریخی تجزیہ کیا جائے تو اس کا تاروپود اسی مغربی تہذیب کے علم بردار برطانوی سامراج سے جا ملتا ہے۔ ہند وپاک ہو یا افغانستان ‘ برما ہو یا سری لنکا ہر جگہ برطانوی سامراج کی خونی پنجوں کی چھاپ صاف نظر آتی ہے۔ ہندوستان کے بٹوارے سے لے کر فرقہ واریت کے زہرتک تمام نسخے ان مغربی مفکرین کے ذریعہ ہی تیار کئے گئے جن پر برطانوی سامراج کی بنیاد قائم تھی اور جنوبی ایشیا کی قومیں آج بھی شب وروز اس کی قیمت چکا رہی ہیں۔
برطانوی اور فرانسیسی سامراج کا یہ رنگ سب سے زیادہ گہرا مشرق وسطی میں ہو جاتا ہے۔ پہلی عالمی جنگ میں دولت عثمانیہ کی تباہی کا نقشہ فرانس‘ برطانیہ اور روس نے مل کر تیار کیا تھا۔اس معاہدہ میں اسلامی دنیا کو پارہ پارہ کرکے آپس میں تقسیم کرنے کا ناپاک منصوبہ سب سے زیادہ خطرناک تھا۔ یہ اور بات ہے کہ 1917 کے انقلاب روس کے بعد بالشویک تحریک کے انقلابیوں نے خود کو اس سے الگ تھلگ کر لیا تھا اور اسمعیل انور پاشا کو جو کہ دولت عثمانیہ کا جنگی امور کا وزیرتھا کو اس سازش سے باخبربھی کردیا تھا۔ شریف حسین مکہ کو اس سازش کے بارے میں جب پاشا نے بتایا تو اس کا کوئی خاص اثر ان پر نہیں پڑا۔ فرانس اور برطانیہ کاباہم اتفاق جاری رہا۔ البتہ جب شریف حسین مکہ نے اس سلسلے میں برطانیہ سے انکشاف حقیقت کے طور پر یہ جاننے کی کوشش کی کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد کہیں جزیرۃ العرب کی آزادی کا خواب صرف خواب ہی تو نہیں رہ جائے گاتو بڑی ملمع سازی سے ان کو قانع کر لیا گیاکہ معاملہ ایسا نہیں ہے۔ اس طرح دھوکے کا یہ سلسلہ بدستور جاری رہا جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلاکہ عالم عربی آج تک اس فریب کی بھٹی میں جل رہا ہے۔ سائیکس پیکاٹ سے لے کر بلفور اعلانیہ تک کی پوری تاریخ مغربی تہذیب کا وہ گھناؤنا پہلو ہے جس کی وجہ سے کوئی قوم مہذب کہلانے کا دعوی نہیں کر سکتی۔ عراق وفلسطین‘ شام اور لبنان اور اردن وحجاز میں برطانیہ اور فرانس نے جو نقشہ تیار کیاوہ کسی بھی طرح اس خطہ میں بسنے والی قوموں کے مزاج کے موافق نہیں تھا۔ عراق اور شام کی زمین کو باٹنے کے لئے دونوں استعماری طاقتوں نے جس خست کا اظہار بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری صدی کے دہائی میں کئے ہیں وہ خوں ریزی اور ظلم کی تاریخ میں منفرد باب ہے۔ 1946 تک شام اور لبنان میں فرانسیسی استعمار کی تاریخ قتل وغارت گری اور حقوق انسانی کی پامالی جیسے واقعات سے پر ہے۔ 1948 میں ان ہی استعماری قوتوں کی مدد سے اس خطے میں صہیونی اسرائیل کا قیام اور فلسطینی معصوموں کی زندگی اور مستقبل سے کھلواڑ ‘ عورتوں اور بچوں کے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم ‘ انھیں ان کی زمین اور زندگی سے محروم کرنے کی پوری داستان میں کلیدی کردار مغربی تہذیب کے قائدوں نے ہی ادا کیا ہے۔ فلسطین میں اسرائیل کے ذریعہ کیا جانے والا تشدد دراصل مغرب وامریکہ کی حمایت سے ہی آج تک جاری ہے جو ہر حساس عرب قلب وجگر کو زخمی کرتا ہے اور کئی موقعوں پر نوجوانوں کا ایک طبقہ جذبہء انتقام سے مغلوب ہوکر تشدد کی راہ اختیار کر لیتے ہیں اور پھر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے مغربی میڈیا صرف ایک طرفہ واقعہ کو اپنی مرضی کے مطابق بیان کرکے اسلام اور مسلمان کے خلاف نفرت کا ایک نیا بازار گرم کردیتا ہے۔ لیکن کوئی اسرائیل کی دہشت گردی کے خلاف اس لئے اقدام نہیں کرتا کیوں کہ دہشت گردی کا یہ پودا خو د مغرب نے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا جو آج تناور درخت بن چکا ہے جس کے کانٹوں کی چبھن سے سارا عرب اور مسلم جسم وجاں لہولہان ہے۔دوسری طرف اسرائیل کا حال یہ ہے کہ اقوامی متحدہ کے ذریعہ جاری کردہ بے شمار ریزولیوشن کو اپنے پاؤں تلے روند چکا ہے لیکن پھر بھی یورپ اور امریکہ کی حمایت میں دہشت کا خوفناک ماحول قائم کئے رہتا ہے ۔ مغرب کی یہی سامراجی طاقتیں ہیں جنہوں نے سمندروں (بحرعرب اور بحرہند)اور خشکیوں ( برصغیر ہند‘ افغانستان اور جزیرۃ العرب وغیرہ) کو جنگ کے میدان میں اس لئے تبدیل کر دیا تھاتاکہ دنیا کے تمام مادی وسائل اور انسانی بستیوں پر قابض ہو جائیں اور انھیں اپنی تہذیبی رعونت کا شکار بنا لیں۔ مغربی تہذیب کی اسی تعلی مزاجی اور غرور کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں خود کو مہذب قوموں کی قیادت کا دم بھرنے والی ان طاقتوں نے کبھی بھی انسانی قدروں کا پاس ولحاظ نہیں کیا۔ انیسویں صدی کا مشہور برطانوی دانشور تھومس میکالے کا یہ جملہ کہ مغرب کی ایک الماری کتاب کا مقابلہ مشرقی قوموں کی تمام لائبریریاں بھی مل کر نہیں کر سکتیں‘ محض بے جا غرور اور مغربی تہذیب کی طبعی رعونت کا ہی غماز تھا۔ مشہور عرب امریکی مفکر ایڈورڈ سعید نے اپنی شاہکار تصنیف Orientalism (استشراق) میں مغربی تہذیب کی اسی مبغوض فطرت کی مکمل تشریح پیش کی ہے۔ خاص طور پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی زہر افشانی کی ایک علمی اور تحقیقی بحث سامنے لائی گئی ہے۔ ہل مصر کے خلاف کرومر کا نفرف انگیز فلسفہ بطور خاص قابل ذکر ہے۔ اس حقیقت کو بھلا کون بھلا سکتا ہے کہ اسی تہذیب کی کوکھ سے ہٹلر جیسا درندہ صفت انسان پیدا ہواجس نے نسلی برتری کے زعم کو ایسی ہوا دی کہ لاکھوں معصوم جانوں کو صفحہء ہستی سے مٹانے کا سبب بنا۔ جرمنی کو اسی شخص کی وجہ سے دنیا میں بدنامی اٹھانی پڑی اور دوسری عالمی جنگ کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ ہٹلر کے علاوہ مسولینی بھی بیسویں صدی میں مغربی تہذیب کے بطن سے ہی فاشزم کے نظریہ کو پیدا کرنے میں کامیاب ہوااور لیبیا کے مسلمانوں پر سب سے پہلے اس بیمار ذہنیت کا تجربہ کیا گیا۔ لیبیا کی تاریخ آزادی کا قاری جب ان ہولناکیوں کا مطالعہ کرتا ہے جن سے لیبیا کے باشندوں کو گزرنا پڑاتو مغربی تہذیب کی خوں آشام طبیعت کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔ تاریخ کے اس دور نے البتہ یہ بھی ثابت کردیا کہ ظلم کی گھن گرج کے سامنے اہل حق سینہ سپر رہنے کو ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ عمر مختار کی زندگی نے اسلامی تاریخ میں ایک زریں باب کا اضافہ اسی دور میں کیا تھا۔ بیسویں صدی کا نصف اول لیبیا میں مسولینی کے نظریہ فاشزم پر مبنی ظلم کی تاریخ ہے اور ایسا ہونا لازمی تھا کیوں کہ اٹلی بھی اسی مغربی تہذیب کا ایک اہم مرکز ہے جس کی داستان یہاں جاری ہے۔ فاشزم کا یہی وہ نظریہ ہے جس نے آر ایس ایس کے بانیوں کو خاصا متأثر کیا اور اس کے منحوس اثرات سے ہزاروں معصوم جانیں تباہ ہو چکی ہیں اور ہندتو کا یہ نظریہ آج ہندوستان جیسے کثیر تہذیبی ملک کی فضا میں ہرروز زہر گھول رہا ہے۔
انیسویں اور بیسویں صدی کا دور خاص طور سے عہد حاضر میں جاری وساری نظریات کی تخلیق کا زمانہ رہاہے۔ کارل مارکس نے ہیگل کے Utopian Socialism کو ایک نئے انداز میں پیش کیا تھاجس کو Scientific Socialism کے نام سے جانا گیا۔ پوری انسانی تاریخ کا اقتصادی تجزیہ کرکے مارکس نے یہ ثابت کیا تھا کہ پیداوار کے وسائل جن کے ہاتھ میں ہوں گے وہ ہمیشہ اس طبقے کا استحصال کرے گا جومزدور کہلاتا ہے۔ پہلے طبقہ کو بورجوازی جب کہ دوسرے طبقہ کو پرولتاری کہا جاتا ہے۔ مارکس کے مطابق سماجی نابرابری کے خاتمے کے لئے یہ ضروری ہے کہ تمام وسائل پیداوار پر پرولتاری طبقہ کا تسلط ہوتاکہ مساوات پر مبنی سماج کی تشکیل ممکن ہو سکے اور پھر ہر شخص کی محنت اور ضرورت کے مطابق مادی وسائل کی تقسیم کی جا سکے۔ گویا مارکس کے نزدیک انسانی تہذیب میں مادہ کے علاوہ کسی اور شے کی حیثیت کچھ زیادہ نہیں ہے۔ مارکس کا یہی نظریہ نظریہ اشتراکیت کہلاتا ہے۔ چارلس ڈارون نے انسانی زندگی کی حیاتیاتی تشریح کرکے انسان کا رشتہ خدا سے پہلے ہی کاٹ دیا تھا ‘ کارل مارکس نے اقتصادی تشریح کے ذریعہ خدا بے زاری کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ اس نظریہ کا بھی لازمی نتیجہ خوں ریزی ہی ہونا تھا جو ہوکر رہا۔
8 مارچ 1917 کو روس میں انقلاب اسی مارکسی نظریہ کی عملی شکل مانی گئی تھی۔ حالاں کہ مارکس کے نظریہ تاریخی مادیت کے اعتبار سے یہ انقلاب فرانس یا انگلینڈ میں آنا چاہئے تھاجو سرمایہ دارانہ نظام اقتصاد کا مرکز تھا جب کہ روس اس وقت صرف ایک زرعی اقتصاد پر مبنی ملک تھا۔ بہرکیف انقلاب کو رونما ہونا تھا اور وہ برپا ہوا۔ لیکن یہ تاریخ کا المیہ ہی ہے کہ انسانی آبادی کو ظلم ونابرابری سے آزادی دلانے کے نام پر رونما ہونے والا انقلاب بھی کوئی مثبت حل پیش نہ کرسکا۔ پرولتاری طبقہ کو تمام خوبیوں کا حامل سمجھنے والے مارکس کے پیروکاروں کے نزدیک یہ طبقہ خود لینن کی نظر میں قیادت کے لئے نا اہل قرار پایا اور نتیجتاً وین گارڈ پارٹی کی تشکیل عمل میں آئی اور خود تمام قوتوں اور ثروتوں کا مالک بن بیٹھا۔ اسٹالن کا دور آیا تو ہر طرف خاک وخون میں تڑپتی انسانی زندگیاں نظر آئیں۔ مساوات کا خواب کبھی شرمندہء تعبیر نہ ہو سکا۔ اشتراکیت کے نظریہ نے اتنے مسائل نہیں حل کئے جتنے کہ مشکلات پیدا کر دئیے۔ مشرقی یورپ سے لے کر وسطی ایشیا تک کی زمین کو ریڈ آرمی کی ظلم کی آگ نے اتنا گرم کردیا کہ وہاں کی انسانی آبادی درد انگیز آبلوں سے بھر گئی۔اتنا ہی نہیٍں بلکہ مارکسزم کی ترویج کی راہ میں حائل ہونے والی دیگر نظریات کا خاتمہ اس انقلاب کا مقصد قرار پا یا کیونکہ روسی انقلابیوں کا دعوی تھا کہ وہ انسانیت کی مسیحائی کا کردار نبھانے کے لئے برپاہوئے ہیں اس لئے کسی اور نظریہ کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔لہذا پوری دنیا اشتراکی سویت یونین اور سرمایہ دارانہ نظام کا علم بردار مغرب کے خیموں میں تقسیم ہو گئی۔ مغرب کی قیادت امریکہ کے ہاتھ میں تھی۔ دونوں گروہوں نے پوری مہذب دنیا کو سرد جنگ میں ڈھکیل دیا۔ یہ جنگ تقریباً چالیس سال تک جاری رہی۔ دونوں ممالک نے گرچہ ایک دوسرے پر حملے نہیں کئے لیکن سب سے زیادہ مہلک ہتھیار بشمول نیوکلیائی بم اسی چالیس سالہ سرد جنگ کے دوران تیار کئے گئے۔ 1959 میں چے گویرا اور فڈال کاستروکی قیادت میں اشتراکی انقلاب کا حامل ملک کیوباخاص طور پر دنیا کی توجہ کا مرکز تب بن گیا جب اسی سرد جنگ کے دوران 1962 میں نیوکلیائی بحران کا واقعہ یہاں پیش آیا۔ قریب تھا کہ دو عالمی جنگوں کے بعد شاید دنیا ہمیشہ کے لئے اپنا وجود کھو دے کیوں کہ نیوکلیائی میزائل امریکہ اور روس دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف تعینات کر دیئے تھے۔ لیکن وقت رہتے دونوں خیموں نے صحیح فیصلہ لیا اور اس بحران کو ختم کیا گیا۔ البتہ سرد جنگ کا سلسلہ بدستور جاری رہا اور بالآخر 25 دسمبر 1991 کو سویت یونین کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا اورمیخائیل گوربا چیف آخری صدر سویت یونین کی حیثیت سے تاریخ کے پنوں میں سمٹ کے رہ گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کا علم بردار امریکہ فاتح بن کر ابھرا اور دنیا کا اکلوتا سپر پاور کہلایا۔ آج کی دنیا امریکہ کی با لادستی سے ابھی تک آزاد نہیں ہو سکی ہے۔ 
ویسے تو موجودہ دنیا کی تاریخ میں امریکی بالادستی کا عہد دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی شروع ہو جاتا ہے لیکن سرد جنگ میں حاصل ہو نے والی فتح نے خاص طور پر امریکہ کو بے حد مغرور بنا دیا۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد کا ہی وہ عہد جس میں امریکی مفکر فرانسس فوکویامانے یہ اعلان کردیا کہ انسانی تہذیب اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے اور تاریخ کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ فوکویاما نے اپنی کتاب The End of History and Last Man the میں مغربی لبرل ڈیموکریسی کو انسانی فکر کی معراج قرار دیا ہے۔ گویا اب کسی نئی فکر کی ضرورت دنیا کو نہیں رہی۔ فوکویاما کے مطابق مغرب کو استادیت کا درجہ حاصل ہو چکا ہے اور امریکہ اس تہذیب کا امام ہے۔ اس امریکی مفکر کا غرور زیادہ دنوں تک برقرار نہ رہ سکااور محض ایک دہائی کے اندر مشرقی ایشیا کے ممالک نے اس فلسفے کو غلط ثابت کر دیاکیوں کہ ان ممالک نے اپنی ترقی کے لئے مغربی اصولون کو معیار نہیں بنایا بلکہ انھوں نے اپنی قدیم تہذیبی روایات کی بنیاد پر ہی ترقی کی اس بلندی کو حاصل کرلیا جس پر مغربی ممالک فائز تھے۔ فوکویاما کے علاوہ دوسرا امریکی مفکر سیمویل ہیٹنگٹنگ ہے جس نے 1993 میں Foreign Affairs نامی امریکی میگزین میں شائع اپنے ایک مضمون کے ذریعہ اپنا ایک نہایت حیرت انگیز نظریہ دنیا کے سامنے پیش کیا جسے ہم نظریہ تہذیبی تصادم (The Theory of Clash of Civilizations) کے نام سے جانتے ہیں اور اسی نظریہ کے مطابق اس نے عالمی نظام کی تشکیل نو کا معیار قائم کرنے کا مشورہ دیا۔ اس مضمون نے بعد میں ایک کتاب کی شکل اختیار کر لی جوThe Clash of Civilizations and the Remaking of World Order کے نام سے مشہور ہے۔ اس کتاب نے علمی حلقے میں بڑی ہلچل مچا دی۔ جہاں ایک طرف قارئین نے اسے اپنی توجہ کا مرکز بنایا وہیں دوسری طرف بے شمار مفکرین او رناقدین نے مصنف کتاب کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس کے تہذیبی تصادم کے نظریہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ دراصل فوکویاما اور سیمویل ہیٹنگٹنگ دونوں یہ اعلان کررہے تھے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد صرف اسلامی تہذیب ہی ایک ایسی تہذیب باقی ہے جو مغربی تہذیب کے خلاف میدان میں ڈٹ کر کھڑا ہے۔ گویا اسلام اور مسلمان کو ایک نئے دشمن کے طور پر پیش کیا گیا تاکہ مغربی بالادستی کا ڈراما مستقل جاری رہے۔ البتہ اسلام کے خلاف جنگ کی نوعیت بدلنے کی ضرورت تھی۔ یہ جنگ صرف بم اور بارود کے ذریعہ نہیں جیتی جا سکتی تھی‘ اس لئے افکار ونظریات کے ذریعہ یہ جنگ دماغوں میں لڑی جانے لگی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ امریکہ پر نائن الیون کے حملے کے بعد سیمویل ہیٹنگٹنگ کی یہ کتاب سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں شامل رہی۔ مغربی میڈیا اپنے قارئین کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئی کہ اس امریکی مفکر کے تخریبی نظریہ کو نظر انداز کرنا اہل مغرب کے حق میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلاموفوبیا کا بخار بہت شدید ہو چکا ہے اور اسلام اور مسلمان مغربی میڈیا کے نشانے پر ہر وقت رہتا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ جیسے سیاست دانوں کو سب سے زیادہ مدد اسی قسم کے نظریات سے حاصل ہو رہی ہے۔
اگر آج کی دہشت گردی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اس کی تاروپودبھی مغربی تہذیب سے ہی جا ملتی ہے۔ منظم طریقے سے اسلام کے نام پر جذباتی مسلم نوجوانوں کا استعمال پہلی بار امریکہ نے افغانستان میں سوویت یونین کے اثرورسوخ کو توڑنے کے لئے کیا تھا۔ چیجن ‘ پاکستانی اور افغان نوجوانوں کو مجاہد کی ڈگری وہائٹ ہاؤس نے پہلی باراسی وقت دی تھی اور اسلامی جہاد کا جھنڈا ن کے ہاتھوں میں تھما دیا تھا۔ امریکہ اپنے حریف سوویت یونین کو ختم کرنے میں اس طرح کامیاب تو ضرور ہو گیا تھا لیکن افغان جنگ میں جیت حاصل ہو نے کے بعد یہی مجاہدین امریکہ کے ہی خلاف ہو گئے۔اس غصہ کی اصل وجہ امریکہ اور مسلم حکمرانوں کے درمیان برسوں سے جاری آپسی سانٹھ گانٹھ اور مشرق وسطی میں مغرب کی حمایت میں جاری اسرائیلی جارحیت کا لامتناہی سلسلہ ہے۔ امریکہ کو درد کا احساس پہلی بار تب ہواجب یہ عناصر ان ہاتھوں کو ہی کاٹنے لگے تھے جنھوں نے انھیں پروان چڑھایا تھا۔ القاعدہ کا اسامہ بن لادن ہو یا داعش کا ابوبکر البغدادی سبھوں نے مغربی تہذیب کے ٹھیکے داروں کے ہاتھوں ہی زندگی کی رمق پائی ہے۔ عراق پر حملے سے متعلق چلکاٹ رپورٹ نے اس حقیقت سے پردہ اٹھا دیا ہے کہ اگر امریکہ اور برطانیہ نے ناپاک جنگ کا شکار عراق کو نہ بنایا ہوتا تو شاید داعش جیسی تنظیم کبھی نقشہء عالم پر نمودار نہیں ہوتی۔ صرف جھوٹ کی بنیاد پر برطانوی حکمراں ٹونی بلیئر اور امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے لاکھوں زندگیوں کو جہنم زار بنا دیا۔ آج اگر مشرق وسطی دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے تو یہ صرف مغرب کے حکمرانوں کی شرارت اور مسلم قائدین کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔ جو مسلم نوجوان غم وغصہ میں تپ کر اور ناگفتہ بہ حالت سے بے زار ہوکر تشدد کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کی بازیابی کا دعوی کرتے ہیں وہ محض اپنی جہالت اور اسلام سے ناواقفیت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ معصوم جانیں خواہ شام وعراق ویمن اور فلسطین میں تباہ ہو رہی ہوں یا ترکی ‘ بنگلہ دیش ‘ پاکستان جرمنی اور افغانستان میں‘ چاہے فرانس و میڈریڈ اور لندن وچین و ہندوستان میں۔ یہ تمام جانیں ناحق ختم ہو رہی ہیں۔ تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے جب یہ حساب لیتی ہے تو ہر ظلم کا حساب لیتی ہے۔ اپنے مسلم نوجوانوں سے خصوصی اپیل ہے کہ اگر وہ تاریخ کا دھارا ظلم سے ہٹا کر حق کی طرف موڑنا چاہتے ہیں تو الہی تعلیمات اور علم ومنطق کی مدد سے دعوت دین کا فریضہ انجام دیں۔ کیوں کہ بم اور بندوق کی تہذیب اسلامی مزاج کے خلاف ہے اور اسلام نے تاریخ کے کسی بھی مرحلے میں حق کی ترویج کے لئے باطل وسائل کے استعمال کی اجازت نہیں دی ہے۔
2003 میں عراق پر ناجائز حملہ اور صدام حسین کو راستے سے ہٹا کر مشرق وسطی میں ایران کوشہ دینایا لیبیا میں برطانیہ ‘ فرانس ناٹو افواج اور امریکہ کی مدد سے معمر قذافی کو ہٹانا اور اب شام میں جاری خوں ریزی کے لئے ماحول تیار کرنا اور روس کی مداخلت سے بشار الاسد کو سہارنا یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ مغربی قومیں اسلام دشمنی کا اپنا ایجنڈا کامیاب بنانے میں تمام ناجائز حربے استعمال کرنے کا ہنر رکھتی ہیں۔ مسلم ممالک میں جمہوریت کے نفاذ کی دعوت محض ایک کھوکھلا دعوی ہے ۔مشرق وسطی میں موجو د زمینی حقائق مغرب کے اس دوغلے پن کو اجاگر کرتی ہیں۔ مصر کے اندر جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا‘ عوام کے ذریعہ جمہوری اصولوں کی بنیاد پر منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی جیل میں قیدو بند کی صعوبیتں جھیل رہے ہیں جب کہ فوجی بغاوت کے ذریعہ حکومت پر قابض ہونے والا سیسی عرب وغرب کی حمایت کے زیر سایہ ہرروز جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی پامالی بڑی بے حیائی سے کر رہا ہے۔ دنیا کی جمہوری قوموں کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ ایک منتخب صدر پس زنداں ہے لیکن اس کی حمایت کی کوئی سنجیدہ کوشش صرف اس لئے نہیں ہوتی کیوں کہ وہ ایک اسلام پسند مرد میداں ہے۔ 2006 کے فلسطینی انتخابات میں حماس نے اکثریت حاصل کی تھی اور اس کی شفافیت کی گواہی خود یورپی یونین اور دیگر مغربی اداروں نے دی تھی لیکن چوں کہ حماس کی قوت اسرائیل کے لئے ناقابل برداشت تھی اس لئے انھیں بھی اپنا جمہوری کردار ادا کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ یہ بات بھی حیرت انگیر نہیں ہے کہ ابھی حال ہی میں ترکی کے اندر ناکام فوجی بغاوت کا واقعہ سن کر مغرب میں موجود اسلام اور مسلم دشمن عناصر اپنی خوشی کو چھپا نہ سکے۔ یہ اور بات ہے مشرق وسطی کو استحکام مہیا کرنے والے ایک مضبوط مسلم حکمراں کی معزولی کی ان کی تمنا پوری نہ ہو سکی۔ مغرب کی اسلاموفوبیا پر مبنی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ خود مغربی قوموں کی معصوم جانیں مختلف موقعوں پر تباہ ہوتی ہیں۔ ان واقعات کے پیچھے سیاسی ‘ اقتصادی اور سماجی مسائل سے جوجھ رہے وہ نوجوان ہوتے ہیں جنھیں آج تک وہ باوقار زندگی حاصل نہ ہو سکی جس کی امید میں ان کے والدین نے مغربی ممالک کا رخ کیا تھا۔ جس کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہوکر خودکشی کی راہ اختیار کر چکے
ہیں اور مغربی ممالک نے بڑی چابک دستی سے اپنی فیکٹریوں میں تیار ہونے والے گھاتک ہتھیار جذباتی مسلم نوجوانوں کے ہاتھوں میں تھما دئیے ہیں جن سے عام طور پر مسلم جانیں ہی تباہ ہو رہی ہیں۔ دہشت گردی کا یہ ڈراما کہیں شیعہ و سنی کے نام پر جاری ہے تو کہیں جمہوریت کو تھوپنے کے نام پر۔ یہ امت مسلمہ کا نہایت سنگین مسئلہ ہے اور ہمیں خود اپنے نوجوانوں کو مایوسی کے دلدل سے نکالنا ہے اور مغرب کی سازشوں سے انھیں علمی دلائل کے ذریعہ واقف کرانا ہے جس کے لئے ہمیں گہری سیاسی اورعلمی وفکری بصیرت حاصل کرنی ہوگی۔ معیاری ادارے قائم کرنے ہوں گے ورنہ بش او ربلیئر کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ جیسے مغربی رہنما ہر زمانے میں رونما ہوتے رہیں گے جو سیاسی الفاظ کے پس پردہ اسلام اور مسلمان کے خلاف زہر افشانی کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ ہمیں اپنے مسائل پر جذباتیت سے نہیں بلکہ سنجیدہ علمی کوششوں کے ذریعہ غور کرنا ہوگا۔ مغرب کو اگر مات دینا ہے تو یہ جنگ میدان میں نہیں بلکہ دماغ میں لڑنے کی ضرورت ہے۔
اسلام مثبت دعوت حق کے ذریعہ ہی دلوں کو جیتنے کا ہمیشہ داعی رہا ہے۔ آج مغربی تہذیب دھیرے دھیرے خود کشی کے کنارے پہونچ ہی رہی ہے۔ ہمیں اپنی نادانی سے ان کے زوال کی مدت کو مزید مؤخر نہیں کرنا ہے۔ امریکہ میں آئے دن بندوق کی گولیا ں خود امریکیوں کا شکار کررہی ہیں ‘ سیاہ فام لوگوں کے خلاف ان کی نسل پر مبنی عداوت کبھی ختم نہیں ہوگی ‘ اس کا مظاہرہ بھی وقتا فوقتا ہوتا رہتا ہے۔ فرانس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر اتر کر مزدوری سے متعلق قوانین کے خلاف اپنے غم وغصہ کا اظہار کر رہے ہیں ‘ بریگزٹ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اقتصادی اعتبار سے کمزور پڑتا یورپ خود اپنے مسائل کے حل کرنے میں بھی اب بری طرح ناکام ہو رہا ہے اور اس کی قوت کا بھرم لگاتار ٹوٹ رہا ہے۔ اشتراکیت ‘ سرمایہ دارانہ ‘ فسطائیت اورکمیونزم جیسے نظریات پر مبنی اصول زندگی نے انسانی آبادی کے اتنے مسائل حل نہیں کئے جتنے کے ناقابل حل مشکلات ان کے لئے پیدا کر دئیے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ زخم خوردہ انسانیت کو ہلاکت سے بچا کر اسلام کےامن وآشتی کے گہوارے میں حکمت سے لایا جائے بم سے نہیں۔ یہ ذمہ داری انفرادی او راجتماعی طور پر مسلمانوں کی ہے کیوں کہ یہی ایسی آخری امت ہے جو صحیح الہی نظام کی حامل ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا