English   /   Kannada   /   Nawayathi

کشمیر: حرف حرف لہو لہو

share with us

آزادی ملے اس ملک کو ساٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا؛ لیکن یہ بہشت نما کشمیر مسلسل اسارت کے ایام دیکھ رہا ہے، جہاں کی فضاوں میں ختن کی خوشبو بسا کرتی تھی، بارود اور کیمیائی اجزاء کی بدبو فضا کو مسموم بنا رکھی ہے۔ عوام آرمیوں کے نشانے پر ہیں، بندوق کی نالیاں نہتے عوام کی طرف ہے اور لبلبی آن واحد میں کھلتی اور بند ہوتی ہے۔ کاتب تقدیر نے کشمیر کے نصیب میں آگ، بارود، خون اور لاشیں ہی لکھ دی ہیں، 8 جولائی سے تادم تحریر مزاحمت اور اسے کچلنے کی بھارتی کوشش کے درمیان آگ و خون کا جو بدترین کھیل چل رہا ہے وہ بھارتی سیاسی انتظامات نیز برسر اقتدار طبقہ کی معروف اصطلاح ‘‘گجرات ماڈل ’’ کی بدترین مثال ہے۔ ہر طرف کرفیو ہے عوام کو سانس لینا مشکل ہوگیا ہے اور پھر چند معصوم جو مزاحمت کے جوش میں سڑکوں پر نکل آتے ہیں آرمی کے افراد انھیں دہشت گرد اور بلوائی سمجھ کر بے دریغ نشانے پر لے رہے ہیں؛ بلکہ مزید نفری کشمیر میں واقع بحران و تشدد کے خاتمہ کیلئے بھیجی جارہی ہے۔ گویا کشمیر اسی ملک میں ایسا حصہ ہے جسے فتح کرلینا ہر بھارتی کا قومی فریضہ ہو، اسی کشمیر میں یہ بھی افسوسناک واقعہ پیش آیا کہ جمہوریت اور امن کی بحالی میں جمہوریت کے معاون اجزاء کا ہی ناطقہ بند کردیا، اخبارات کی اشاعت پر پابندی لگادی پھر احتجاج کے بعد پابندی ہٹالی گئی، بھلا جسے جمہوریت پر ناز و زعم ہو وہی جمہوریت کے چوتھے ستون کا ناطقہ بند کردیا، واقعی ایسی جمہوریت پر ہمیں ناز ہے ۔ 
برہان وانی جسے کشمیری عوام اپنا ہیرو سمجھتے ہیں اور شومئی قسمت بھارتی میڈیا اور از سے عبادت کی حد تک ‘‘ آستھا ’’ رکھنے والے افراد برہان وانی کو دہشت گرد اور مفرور مجرم قرار دیتے ہیں آخر کیا وجہ ہے کہ ایک طبقہ اسے ہیرو کہتا ہے تو اسی ملک میں فریق مخالف اسے دہشت گرد کہتے ہوئے اشتعال و اضمحلال سے سرخ ہوجاتے ہیں۔ عوام کی اس نفسیاتی سوچ اور فکر کے پس پردہ عوامل کی تحقیق ضروری ہے، کیا کوئی ان ہزاروں ضعیف باپ سے پوچھ سکتا ہے کہ جس ضعیف نے اپنے ضعیف کندھوں سے اپنے نوجوان بچوں کا جنازہ اٹھایا ہے؟ کیا کسی کو اس کی جرات ہوسکتی ہے کہ وہ ان مظلوم باپ سے درد کی کیفیت پوچھ لے جن کی بیٹیاں وحشت و درندگی کی شکار ہوچکی ہیں؟ واقعات و مسائل کشمیر کیلئے قدرت کی طرف سے کچھ یوں مختص ہوگئے کہ اس سے نجات امر مشکل ہوگیا ہے۔ جو لوگ بیرون کشمیر ہوتے ہیں انہیں اندرون کشمیر رہنے والے افراد اور ان سے متعلق مسائل، پریشانیوں اور سیاسی تشدد کا ادراک ممکن نہیں ۔8 جولائی کے بعد سے مکمل پندرہ دنوں سے جو کشیدگی قائم ہے نہایت ہی ناگفتہ بہ ہیں اس ذیل میں جہاں تک سیاسی تشدد ذمہ دار ہے تو کشمیری عوام علیحدگی پسند و حریت رہنما بھی ہیں، محض عوام کو نعروں پر ورغلا کر بھیڑ اکٹھی کرنا دانشمندی نہیں ہے؛ بلکہ پرامن طریقے سے جس میں فیصلہ کن اقدامات کی یقین دہانی کی جائے، دانش مندی ہوگی ورنہ قربانیاں اور ارض بہشت کو غلماں کے خون سے سرخ کرانا فطری ضد ثابت ہوگی ۔ یہ کوششیں چانکیہ نیتی کے بموجب ناکام بھی ہوسکتی ہیں جیسا کہ ماضی گواہ ہے، تاہم کبیدہ خاطر ہونا درست نہیں ہے ۔قربانیاں اور بغاوت اس نازک ترین حساس مسئلہ کا حل ہرگز نہیں ہے مگر دانائے ہند کی چانکیہ فراست؛ بلکہ دورخی پالیسیاں بغاوت پر آمادہ کرتی ہے جو قابل مذمت ہے ۔اور جمہورکش عناصر بھی ہیں ۔برہان وانی جیسے نوجوان (سقی اللہ ثراہ) کا عمل گرچہ باغیانہ ہے؛ لیکن اس بغاوت پر جو چیز آمادہ کرتی ہے اس کے تصفیہ کی اشد ضرورت ہے۔ مرکزی قیادت کو مزاحمت اور کشمیریوں کے واجبی حقوق کو سمجھنا ہوگا اور بھارتی میڈیا جو تمام تر زاویہ سے کشمیریوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے اسے یہ سمجھنا ہوگا کہ کشمیری بھی اس جمہوری ملک کے باشندے ہیں اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ 
وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ حالیہ شورش زدہ کشمیر کے دورہ پر گئے اور وہاں جس طرح کا بیان دیا سیاسی نقطہ نظر سے عین چانکیہ نیتی کے موافق ہے، انھوں نے بالواسطہ اس شورش، قتل، اور آہ و کراہ کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا جو کہ غیر معقول اور نہایت ہی بچکانہ ہے۔ کیا انھیں بطور وزیر داخلہ کے داخلی امور، معاملہ کی سنگینی، واقعہ کی حساسیت اور نوعیت کا احساس نہیں کہ کیوں عرصہ دراز سے کشمیر لہو لہو ہے؟ بھگوا پالیسی جس کے اخفاء کی کوشش میں اظہار لازم ہوگیا، عالمی میڈیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ’’ امن ہو تو سبھی سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں؛ لیکن اس پہلو سے صرف نظر کر رہے ہیں کہ آخر امن ہو تو کیسے ہو، امن کی بحالی اولین ذمہ داری ہے۔ موجودہ مرکزی قیادت مسئلہ کشمیر پر اٹل بہاری واجپائی کے مقررہ رہنما اصول پر عمل کا اعلان کرتی ہے، تاہم گفتار کے سوا عمل اور اقدام سے یک قلم عاری ہے، اٹل بہاری نے مسئلہ کشمیر پر کھلے سوچ اور ٹھنڈے دماغ سے مو ثر پہل کی تھی جس سے پڑوسی ملک پاکستان سے مذاکرات اور کشمیر میں امن کے قیام کی امیدیں جواں ہوئی تھیں؛ لیکن تبدیلء اقتدار کے ساتھ ہی یہ حقیقت افسانہ بن کر رہ گئی۔ شورش زدہ کشمیر کے دورہ سے موصوف سے کچھ خوشگوار امیدیں وابستہ ہوئی تھیں کہ اس شوریدہ اور گھٹن زدہ فضا کو ہموار کریں گے؛ لیکن کیفیت برعکس ہے۔ البتہ اتنا ہوا کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ پیلٹ گن استعمال نہ کیا جائے کیوں کہ اس سے جانیں تلف ہونے کا قوی اندیشہ ہے؛ لیکن خاطی افسران جنھوں نے معصوم کشمیریوں پر ‘‘دھرم یدھ ’’ سمجھتے ہوئے بے دریغ گولیاں چلائی ہیں ان کیخلاف کاروائی سے مہر بہ لب ہیں؛ کیوں کہ از خود راج ناتھ سنگھ بھی یرقان کے مریض ہیں۔ کرفیو، بھوک، زخم، درد،بندشیں اور متعفن ماحول یہ سب کس جرم کی سزا ہے؟ برہان وانی جیسے نوجوان نے ہتھیار کیوں اٹھایا؟ فوجی افسران بربریت پر کیوں آمادہ ہیں، جنھوں نے اسکولوں، باغوں، پھولوں اور خوشبوو?ں کے درمیان رہنا تھا ان کے ہاتھوں میں اینٹ پتھر کیوں ہے؟ میڈیا جس نیدم توڑتی ہوئی برہمنی تہذیب اور ہندوتو کے احیاء کی قسم کھائی ہے وہ حقیقت سے سوا ہوکر ہر ایک کشمیری کو دہشت گرد کیوں سمجھتا ہے۔راجناتھ سنگھ شاید ان تشنہ امور کا غیرجانبدار ہوکر تصفیہ اور لائحہ عمل طے کریں، تاہم جب مادی فکر مغلوب ہوجائے اور شطحیات کو لازم سمجھ لیا جائے تو فکریں از خود منحرف ہوجاتی ہیں جیسا کہ عام مشاہدہ ہے۔
برہان وانی کی بغاوت اور کشمیری قوم کی وانی کی حمایت اور اس سے اٹھے طوفان جن دبی ہوئی چنگاری کا پتہ دیتے ہیں وہ یہ کہ کشمیری قوم اب مزید قربانیاں دینے کیلئے پرعزم ہے؛ کیونکہ انھیں اس تلخ حقیقت کی فہم ہوگئی ہے کہ یہ ارض بہشت قربانیوں کا مطالبہ کررہی ہے اور جب تک ان کے مقتضیات پورے نہ کیے جائیں ان کے عزائم کی تکمیل نہیں ہوسکتی ہے اور کشمیری قوم اس وقت تشنہ کامیوں کی ہی تکمیل کر رہی ہے۔ بھارتی فوج وہی کرتی ہے جس کا اشارہ انھیں دہلی سے ملتا ہے صوبائی سرکار اس درمیان ایک مہرہ ہوتی ہے اور جسے محض آگ و خون کے تماشہ پر مجبور ہونا پڑتا ہے، پی ڈی پی جو ابھی تک افضل گرو کو شہید سمجھتی ہے اور بھاجپا اسے دہشت گرد؛ لیکن سیاسی قلابازی اور نفاق یہ کہ وہی پی ڈی پی اور بھاجپا باہمی اشتراک سے کشمیر میں حکومت بنالیتی ہے۔ یہ سیاست کے حربے ہیں اور اس حربہ میں کشمیری پس رہے ہیں ۔حکومت جس کی بھی ہو امن کی بحالی ضروری ہے ورنہ جب کشمیر کا بچہ بچہ برہان وانی بن جائے گا اور جیسا کہ کرفیو کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھی مزاحمت اور پولس و فوجی دستہ پر سنگ باری سے مشاھدہ ہوتا ہے تو اس وقت کشمیر کیا کشمیر رہ پائے گا؟ جب تک دونوں فریق میں متوازی کیفیت نہ ہو تب تک امن کی کوششیں ناکام ثابت ہوں گی، جبر اور تشدد سے کسی قوم کا بھلا نہیں ہوسکا گرچہ لاکھوں برہان وانی پیدا ہوجائے ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا