English   /   Kannada   /   Nawayathi

جب کشمیری سے ضروری گائے ہو جائے گی تو غصہ ہندوستان پر ہی نکلے گا

share with us

اس سب کے درمیان مجھے ایک انجان شخص نے Zee News دیکھنے کو کہا۔ اس نے بتایا کہ Zee News پر گزشتہ دو دنوں سے کشمیر کے مسئلے پر بحث ہو رہی ہے۔ وہ لوگ برہان وانی کے ساتھ میری تصویر لگا کر بحث کر رہے تھے۔ یہ سب دیکھ کر میں پریشان ہو گیا۔ جس بے حسی کے ساتھ یہ کیا گیا میں بس اسے دیکھ کر ہی حیران نہیں تھا بلکہ، میں اپنی حفاظت کو لے کر بھی متفکر تھا۔ میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ 50 ہزار روپے مہینہ کمانے والا جس پر 50 لاکھ کا ہاؤسنگ لون ہو اسے کس طرح کشمیری نوجوان کا آدرش بنایا جا سکتا ہے۔
وہ بھی ایسی جگہ پر جہاں جنازے میں شامل بھیڑ کو مردہ شخص کی 'عظمت' سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ ایسا کون ہوگا جو 50 ہزار روپے کے لئے جان دینا چاہے گا جس کے جنازے میں کوئی بھی شامل نہ ہو۔ میرا ڈر تب درست ثابت ہوا جب میری ہی گلی کے باہر میرے خلاف نعرے لگنے لگے۔ ایک بڑی سی بھیڑ Zee News کے اینکر کے خلاف چللا رہی تھی۔ اس اینکر نے کہا تھا کہ مرے ہوئے ملٹینٹ کو ہندوستان کی سرزمین کی جگہ گندگی کے ڈھیر پرجلایا جانا چاہئے تھا۔
اگلے دن جب میں آفس جانے لگا تو ڈرتا-ڈرتا گھر سے نکلا۔ سوچ رہا تھا کہ اگر کسی بھی نوجوان نے مجھے پہچان لیا تو میں پریشانی میں آ جاؤں گا۔ فیس بک پر مجھ نازیبا زبان کا سامنا تو پہلے سے ہی کرنا پڑ رہا تھا۔ کئی سالوں سے ہندوستانی میڈیا کشمیر کے بارے میں دوسری ہی تصویر دکھا رہا ہے۔ ذاتی اور تجارتی فوائد کے لیے 2008، 2010 اور 2014 میں بھی ایسا ہوا۔ آج کشمیر کی خبریں لوگوں کو بھڑکانے کے لئے ہوتی ہیں۔ محدود کوریج کی جاتی ہے۔ پرنٹ میڈیا ہی ایسا بچا ہے جو متوازن ہے۔
آج کے وقت میں یہ کچھ زیادہ بڑھ گیا ہے۔ کچھ چینل جھوٹ کو فروغ دینے لگے ہیں، لوگوں کو تقسیم کرنے والی خبر دکھاتے ہیں، نفرت پیدا کرتے ہیں، جمہوریت اور سیکولرازم کے عناصر کی طرح سوچتے ہی نہیں۔ یہ سب اشتہارات لینے کی دوڑ کی وجہ سے ہے۔ کئی بار شکایت کرنے کے باوجود یہ نہیں رک سکا ۔ TRP کے لئے 'قومی مفاد' کے نام پر لاشوں کی سیاست ہوتی ہے۔
کشمیر کے مسئلے کو چھوڑ کر پہلے یہ سوچنا ہوگا کہ 'قومی مفاد' کا 'ٹھیکہ' قومی میڈیا سے کس طرح واپس لیا جائے اور اپنے پڑوسیوں اور ملک کے لوگوں سے باہمی بات چیت کا آغاز کیسے کیا جائے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی شرم نہیں ہے کہ Zee News، Times Now، NewsX and Aaj Tak ہندوستان کو مذاکرات کی تہذیب سے گونگی اور بیمار تہذیب کی طرف لے جانے والے موہرے ہیں۔
بھارتی تہذیب میں بات چیت کے ذریعے حل نکالنے کی روایت ہے۔ اشوک نے بھی اپنے لوگوں کے ساتھ بات چیت کی جانب متوجہ کیا۔ مغل دور میں بھی دیوان عام کا نظام تھا۔ اسلامی ریاست میں بھی سچ، صبر اور حوصلے سے بات چیت کرنے کو اہمیت دی جاتی ہے۔
آج جاری کشیدگی کے بارے میں بات کریں تو ان ٹی وی چینلز کو بھی دیکھنا چاہئے جو ہمارے نقطہ نظر کو دکھاتے ہی نہیں۔ کشمیر کے مسئلے کو سیاسی لیڈر، موقع پرست ، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ ان ٹی وی چینلز پر بھی نہیں چھوڑا جا سکتا جو خود کو 'قومی مفاد' کا چہرہ بتاتے ہیں۔ کشمیر کے لوگ ان ٹی وی چینلز کے کام کرنے کے طریقے کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ کشمیر کی طرف سے بولنے والوں کو تنگ کیا جاتا ہے، ان کے جذ بات کا مذاق بنایا جاتا ہے، جب کشمیر کے لوگوں سے زیادہ گائے ضروری دکھائی جاتی ہے تو پھر طے ہے کہ یہاں کے لوگوں کا غصہ ہندوستان پر ہی نکلے گا۔ پرائم ٹائم کا ہر ایک گھنٹہ کشمیر کو ہندوستان سے ایک میل دور لے جاتا ہے۔
نفرت پھیلانے والے ان میڈیا ہاؤسوں کو بند کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ انہوں نے بولنے کی آزادی کا لباس پہن رکھا ہے۔ لیکن ہندوستان کے لوگ چاہیں تو اپنی تہذیب کو یاد کرکے ان چینلز کی نہ سن کر دہلی اور سری نگر کے درمیان فاصلے کو کم کر سکتے ہیں۔ ہندوستان کو کشمیر سے بات چیت برابری کی سطح پر کر ہونی چاہیے، کوئی احسان جتانے کے لئے نہیں۔
ورنہ سری نگر کے بچوں سے آکر ہندوستان کے بارے میں پوچھو، وہ بتائیں گے کہ ان کے لئے ہندوستان ملٹری بنکروں، پولیس کی گاڑی یا پھر پرائم ٹائم پر بیٹھ کر چلاتے- شیخی مارتے پینلسٹوں کی ایک خاص شکل بن گیا ہے۔
نوٹ : یہ خیال شاہ فیصل کے ہیں، وہ کشمیر سے آئی ایس آفیسر ہیں۔
بہ شکریہ جن ستا ڈاٹ کام 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا