English   /   Kannada   /   Nawayathi

کامن سول کوڈکے جال میں مسلمانوں کو پھنسانے کی سنگھی سازش

share with us

کیا یہ درست ہوگا کہ جنوب کے لوگوں کو شمال یا شمال کے عوام کو جنوب کے لوگوں کو طریقے پر رکھا جائے اور انھیں اپنے ان تمام سماجی اور روایتی اصول و ضوابط کو چھوڑنے پر مجبور کیا جائے جن پر وہ صدیوں سے عمل کرتے آرہے ہیں؟ کیا ہندوستان کے آدیباسیوں کو سرکاری ڈنڈے کے زور پر مجبور کرے گی کہ وہ اپنے طریقے کو چھوڑ کر اس کے بنائے ہوئے ضابطے پر عمل کریں؟ کیا اسے نہیں لگتا کہ یہ پورے ملک پر ظلم ہوگا اور اس سے ہمارے ملک کا شیرازہ بکھرجائے گا؟ آج اس قسم کے سوال اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ مرکزی حکومت نے یونیفارم سول کوڈ کو لے کر ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔ حکومت نے لاء کمیشن سے یکساں سول کوڈ لاگو کرنے کے بارے میں پڑتال کرنے کو کہا ہے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے جب مرکزی حکومت نے لاء کمیشن سے اس طرح کی پہل کی ہے۔ ظاہر ہے اس کے بعد ایک بڑا تنازعہ اور بحث شروع ہو سکتی ہے۔ یکساں سول کوڈ کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں رہنے والے ہر مذہب اور ہر فرقے کے پرسنل لاء کو ختم کردیا جائے گا اور سب کو ایک ہی قانون کے تحت شادی، طلاق، پراپرٹی اور وصیت جیسے معاملے میں عمل کرنا پڑے گا۔ فی الحال ملک میں ہندو ، عیسائی اور مسلمان کے لئے الگ الگ پرسنل لاء ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ہمیشہ سے اس قانون کے حق میں رہی ہے ۔ اب جب کہ مرکز میں اس کی سرکار ہے تو اس نے لا کمیشن سے اس قانون کے نفاذ کے امکانات پوچھے ہیں۔ حکومت کا خط کے سامنے آتے ہی سیاسی بیان بازی تیز ہو گئی ہے۔ بی جے پی لیڈر سدیش ورما نے کہا کہ حکومت سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق ہی اس معاملے پر رائے مانگ رہی ہے وہیں سی پی آئی کے ڈی راجہ نے کہا کہ اس معاملے پر تنازعہ ہونا طے ہے لیکن آج کے دور میں اسے خواتین کے حالات کے پیش نظر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 
کامن سول کوڈ کیا ہے؟
بھارت مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کا ملک ہے۔ یہاں بہت سے مذاہب کے ماننے والے رہتے سہتے ہیں۔ سبھی کے اپنے روایتی اصول اور ضابطے ہیں۔ یہاں اگر ایک طرف مسلم پرسنل لاء ہے تو دوسری طرف ہندو کوڈ بل بھی ہے۔ یہاں اگر عیسائیوں کے اپنے مذہبی دستور ہیں تو سکھوں اور بدھسٹوں کے بھی اپنے کچھ طریقے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ہندو کوڈ بل میں سکھ اور بدھسٹ بھی شامل ہیں۔ یہاں کے آدیباسی پرانے زمانے سے کچھ ضابطوں کی پیروی کرتے آئے ہیں تو پارسیوں کے بھی کچھ الگ طریقے آج کے ماڈرن دور میں جاری ہیں۔ یہیں تک محدود نہیں بلکہ خود ہندووں میں بہت سےضابطے الگ الگ ہیں۔ ملک کے بعض علاقے کے ہندووں میں یہ دستور ہے کہ نہ صرف مرد ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتا ہے بلکہ عورتیں بھی ایک سے زیادہ شادیاں کرسکتی ہیں۔یہ تمام حقائق اپنی جگہ پر مگر ملک کے دستور میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ سرکار پورے ملک کے لئے ایسا قانون لائے گی جو تمام پرسنل قوانین کو ختم کر کے ایک ہی قانون نافذ کرے گی اور اسی کو کامن سول کوڈ کا نام دیا گیاہے۔ 
کامن سول کوڈ، کانگریس کا شوشہ
ملک کا جو دستور بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی قیادت میں بنایا گیا تھا اسی میں کامن سول کوڈ کی بات رکھی گئی تھی۔ تب کانگریس کی مرکز میں سرکار تھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو ملک کے وزیر اعظم ہوا کرتے تھے۔ سرکار کی طرف سے بار بار کہا گیا کہ مناسب وقت پر تمام پرسنل قوانین کو ختم کر کے سب کے لئے ایک ہی دستور نافذ کیا جائے گا مگر آج تک یہ ممکن نہیں ہوا۔ چند سال قبل سپریم کورٹ نے مرکزی سرکار سے پوچھا بھی تھا کہ جب ہمارے دستور میں کامن سول کوڈ کا وعدہ کیا گیا ہے تو اب تک اس کا نفاذ کیوں نہیں کیا گیا؟ کورٹ کا سوال اپنی جگہ پر مگر اس سے بڑی بات یہ ہے کہ جب ہمارے ملک میں مختلف مذاہب اور طریقے کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں اور قانون کے تحت سب کو اپنے مذہبی قانون پر عمل کرنے کی اجازت ہے تو اس قسم کی دفعہ ہی کیوں آئین کے اندر رکھی گئی؟ آج اگر بی جے پی اسے بہانہ بناکر عوام کے ایک بڑے طبقے کو ذہنی طور پر دہشت زدہ کر رہی ہے تو کیا اس کے لئے خود کانگریس ذمہ دار نہیں ہے؟ کانگریس کے اعلیٰ لیڈروں اور منتریوں کی طرف سے یہ بات بار بار کہی گئی ہے کہ ہندو کوڈ بل کو ہی وسیع کر کے اسے پورے ملک کے عوام پر لاگو کیا جائے گا۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ملک کے اقلیتی طبقات سرکار کی نظر میں کس طرح کھٹکتے رہے ہیں کہ انھیں اپنی مذہبی حقوق سے محروم کر کے ہندو کوڈ بل نافذ کرنے کی بات کہی جاتی رہی ہے۔ 
ہندو کوڈ بل کی بات کیوں نہیں؟
بھارت میں جس طرح سے مسلم پرسنل لاء ہے، اسی طرح یہاں ہندوکوڈ بل بھی ہے مگر کچھ لوگوں کی آنکھ میں صرف مسلم پرسنل لاء ہی کھٹکتا ہے ہندو کوڈ بل نہیں کھٹکتا۔ کبھی یہ نہیں کہا جاتا کہ ہندو کوڈ بل کو ختم کیا جائے گا، ہربار حملہ مسلم پرسنل لاء پر ہی کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بات صرف مسلمانوں کو ان کے مذہبی حقوق سے محروم کرنے کی کیوں کی جاتی ہے؟ ہندووں کو ان کے حق سے محروم کرنے کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ کیا اس کا مقصد مسلمانوں کو ذہنی طور پر پریشان کرنا ہے یا ہندووں کو یہ بتاناہے کہ مسلمانوں کو اس ملک میں اسپیشل حیثیت حاصل ہے؟ حالانکہ بھارت میں صرف مسلم پرسنل لاء ہی نہیں ہے جو مسلمانوں کو ان کے مذہبی حقوق دینے کی بات کرتا ہے، اس ملک میں دوسرے طبقوں کے بھی پرسنل قوانین ہیں بلکہ ہمارےآئین کی روح ہی ہے ’’کثرت میں وحدت‘‘ اور اسی لئے ملک کا آئین سب کو اپنے مذہب اور دستور کے مطابق جینے کی آزادی دیتا ہے۔ یہ بات دستور میں بار بار دہرائی گئی ہے۔ 
مسلم پرسنل لاء کیا ہے؟
ملک میں جب بھی کامن سول کوڈ کی بات آتی ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ مسلمان اسے قبول نہیں کریں گے۔ نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی اس بہانے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ سادہ لوح مسلمان اسے ہمدردی سمجھتے ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ مسلم پرسنل لاء کی حفاظت کر کے انھوں نے اسلام کی حفاظت کرلی ہے، حالانکہ سچ پوچھا جائے تو آئین ہند میں مسلم پرسنل لاء کی بات انگریزوں کے بنائے قانون میں رکھی گئی تھی جس میں اسلامی قوانین کے جانکارسید امیر علی کا مشورہ شامل کیا گیا تھا۔ اصل میں اسلام تو ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس نے پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی رہنمائی کے لئے دستور بنا دیئے ہیں مگر ان تمام دستوروں سے محروم کر کے صرف نکاح، طلاق، وراثت ، ہبہ اور وقف جیسے چند قوانین پر ہی مسلمانوں کو عمل کرنے کی چھوٹ مسلم پرسنل لاء میں دی گئی ہے اور ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ تمہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی دے دی گئی ہے۔ ضرورت تو ا س بات کی تھی کہ جب آئین کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہے تو مسلمانوں کو ہر معاملے میں اسلام پر عمل کرنے کی چھوٹ ملتی مگر ایسا ہوا نہیں۔یہی سبب ہے کہ بار بار کورٹ کی جانب سے اس میں مداخلت کی بات سامنے آتی ہے ۔ 
مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ
بھارت کے مسلمانوں کے لئے بھی کچھ باتیں ایسی ہیں جن پر انھیں غور کرنا چاہئے۔ اس میں پہلی بات تو یہ ہے جب کامن سول کوڈ کی بات ہو تو انھیں شدید رد عمل کا اظہار نہیں کرناچایئے کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کے مخالفین کو انھیں پریشان کرنے کا بہانہ مل جائے گا اور انھیں ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کی کوشش ہوگی۔ سول کوڈ سے سکھوں، بدھسٹوں، پارسیوں، جینیوں اور خود ہندووں کے بڑے طبقے کو پریشانی ہوگی لہٰذا اسے لاگو کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر اس سے صرف مسلمانوں کو پریشانی ہوتی تو اب تک یہ نافذ ہوچکا ہوتا۔ آدیباسی جو ہمیشہ سے اپنے طریقے سے جیتے رہے ہیں اور انھیں اس کی دستوری آزادی حاصل ہے وہ بھی ا سکے خلاف جائیں گے اور آج اگر آدھے ملک میں نکسل ازم ہے تو اس کے بعد پورے ملک میں یہ پھیل جائے گا اور اس بات کا احساس سرکار میں بیٹھے لوگوں کو بھی ہے۔ اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو خود بھی کچھ مسائل پر غور کرنا چاہئے اور دوسرے مسلم ملکوں اور دوسرے ملکوں کو علماء سے سبق لینا چاہئے۔ ہمارے کئی مسائل صرف اس لئے ہمیں مشکلوں میں مبتلا کرتے ہیں کیوں کہ ہم نہ تو پوری طرح سے اسلامی احکام پر عمل کرتے ہیں
اور نہ ہی ملکی قانون کو لاگو کرتے ہیں۔ ایک ہمارے ہاں ایک مجلس میں تین طلاق کا مسئلہ اکثر مشکلات پیدا کرتا ہے، ایسا اسلام پر عمل نہ کرنے کے سبب ہوتا ہے یعنی غیر شرعی طریقے طلاق دینے کی سبب ہوتا ہے۔ پہلے تو غلط طریقے سے طلاق دیا اور اسے حنفی علماء نے تین مان لیا، اس کے بعد پورے خاندان اور بچوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ مطلقہ کی پوری زندگی کا نفقہ کون اٹھائے؟ یہ سوال بھی اہم ہوجاتا ہے۔ اس کا باپ رہا نہیں، بھائی اس کے لئے تیار نہیں ، سابق شوہر سے لینا اس کا حق نہیں، ایسے میں ا سکے سامنے سوائے اس کے راستہ نہیں رہ جاتا کہ خود کشی کرلے یا بھیک مانگتی پھرے۔ کیا ہمارے علماء یہ نہیں کرسکتے کہ جس طرح بہت سے مسائل میں مسلک امام ابوحنیفہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے عالم کے فتوے پر عمل کرتے ہیں اسی طرح اس معاملے میں بھی کیا جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس قسم کے مسائل جب کورٹ کے سامنے جاتے ہیں تب ہی وہ شاہ بانو کیس جیسے فیصلے صادر کرتا ہے۔ مسلم مطلقہ کے سامنے جو بے سمتی بھارت میں ہے کسی دوسرے ملک میں نہیں ہے۔ یونہی ایک سے زیادہ شادی کا مسئلہ بھی ہے۔ بھارت میں مسلمان ایک سے زیادہ شادی ،جب چاہے ،جیسے چاہے کرسکتا ہے، مگر ایسا وہ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں کرسکتا۔ اس کے لئے اسے کورٹ سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ اسلام نے بھی ایک سے زیادہ شادی کی اجازت شرطوں کے ساتھ دی ہے مگر جو مسلمان ایساکرتے ہیں انھیں شرطیں یاد نہیں رہتیں صرف اسلام کی اجازت یاد رہتی ہے۔ اب ایسے میں کورٹ یا سرکار کی طرف سے کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو مسلمان کو کیا حق ہے کہ وہ کہے کہ یہ ہمارے مذہب میں مداخلت ہے؟ یہاں یہ بھی دھیان رہے کہ اب کچھ مسلم تنظیمیں اس ایشو کو لے کر سیاست کرینگی اور مسلمانوں کو سڑک پر اتارنے کی کوشش کریں گی تاکہ انھیں حکومت سے ٹکرانے پر مجبور کیا جائے مگر اس سے مسلمانوں کو احتراز کرنا چاہئے۔ ہمیں امید ہے کہ مسلمانوں سے قبل دوسرے طبقات ہی اس کی مخالفت کرکے اسے نافذ ہونے سے روک دیں گے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا