English   /   Kannada   /   Nawayathi

تن بہ تقدیر ہے آج انکے عمل کا انداز "

share with us

جہاں انسان کو اپنا نائب مقرر کر رزق اور علم دونوں کے حصول اور انکی ملکیت کو جائز قرار دیا، ونہیں انہیں ایک طرح سے امانت کا درجہ بھی دے دیا.مختلف خواہشات نفسانی کو آزمائیشوں کا پیمانہ بنایا اور ان میں پیٹ کی بھوک کو سب سے زیادہ طاقتور بنایا، جس پر اس کارخانہ حیات کا سارا دارو مدار قائم ہے. جہاں بنیادی رزق کی تقسیم تمام جاندار مخلوقات کے لئے اپنے فضل و کرم سے عام رکھی ونہیں اجل و زیست کی طرح رزق میں فراوانی کو انسانی اختیار سے مبرا رکھا. رزق کو اپنا فضل قرار دیا اور اپنے الحکیم و البصیر و الخبیر و القدیر ہونے کے ناطے انسانوں میں مختلف پیمانہء حصول پر اسے تقسیم کردیا. اور اس طرح اپنی مشیت و قضا و قدر کا قانون کرہ ارض پر نافذ کر اس کارخانہ حیات کو جاری و ساری کیا .
تمہید کے پس منظر میں یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ خالق حقیقی اپنے بندوں کی بندگی کے کیسے کیسے جلووں کو دیکھنا اور فرشتوں کو دکھانا چاہتا ہے. ذرہ ذرہ کی ملکیت خالق حقیقی کی ہے اور فی الحقیقت وہی ذرہ ذرہ کا وارث بھی ہے، لیکن انسان کو حصول ملکیت کا اختیار دیا گیا ہے تاکہ وہ خالق کے فضل یعنی رزق کی تلاش میں کوشاں رہے، اور جب اسے حاصل کر اپنی ملکیت بنا لے اور جو زائد از ضرورت ہو اسے خالق کی خوشنودی کی خاطر تقسیم کردے کہ یہ حسن عمل اور آزمائیش کا حصہ ہے. جدید دور میں ایسی آزمائیشوں پر پورا اترنا جہاں مشکل ہے ونہیں خالق کی خوشنودی کا بہترین ذریعہ بھی ہے. ورنہ اس پر فتن تہذیب یافتہ دور میں صرف غلاف کعبہ تھام کر انسانیت کے حق میں دعاگو ہونا یا نفلی عبادات کا اہتمام کرنا خالق کی خوشنودی کا باعث تو ہوسکتا ہے، لیکن یہ وہ جلوہ نہیں جسے فرشتوں کی آنکھیں تلاش کرتی ہونگی. کیونکہ ایسے جلووں کے تو وہ خود پرتو ہیں. انہیں تو اس جواب کا راز جاننا ہے جس نے انکے سوال کو شرمندہ کردیا تھا، جب انہوں نے خالق حقیقی سے کہا تھا کہ ہم جو تیرے عشق میں سجدہ ریز رہتے ہیں تو انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنانے کی کیا ضرورت ہے، جو فتنہ و شر کا باعث ہو اور حکم عدولی کرے. انکے اس معصوم اظہار عشق پر انہیں کچھ یہی جواب ملا تھا کہ تم وہ نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں. فرشتے کتنے بے چین ہوئے ہونگے جاننے کے لئے کہ وہ کیا نظارہء عشق ہوگا جو انکی جمعیت نے آج تک نہیں دیکھا، اور وہ کیا نماز عشق ہوگی جو وہ ادا نہ کرسکے، جبکہ عبادات اور عشق حقیقی کی ہر رسم سے وہ واقف ہیں. دراصل عشق کے جلووں کی اعلی و افضل ترین جھلک تو فرشتے چودہ سو برس قبل دیکھ چکے ہیں، لیکن اب ادنی ترین جلووں میں عشق کی کون سی منزل باقی رہ گئی ہے جن میں انکے سوال کا جواب پوشیدہ ہے؟

پچھلے چودہ سو برس سے مسلسل رمضان المبارک میں فرشتے خالق کی کمال تخلیق کے مختلف جلووں کو دیکھکر عشق کی رعنائیوں کی شہادت دیتے آئے ہیں، اور جس کا ذکر ساری کائنات کرتی ہے. اہل ایمان اللہ کی خوشنودی کی خاطر حلال رزق حاصل کر اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر اسکے جائز استعمال سے پرہیز کرتے ہیں، اور روزہ کی عظیم عبادت کو انجام دے کر عشق حقیقی کی جلوہ نمائی کرتے ہیں . اپنے ساتھ اپنے اہل خانہ کو بھی عشق حقیقی کی اس جلوہ نمائی میں شامل کر لیتے ہیں. لیکن کیا اسی جلوہ نمائی کی دید کے فرشتہ مشتاق ہیں یا "ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں"؟ یا اہل حق کو چاہیے کہ وہ رزق کے حصول و دستبرداری کے مسلسل عمل کو انفرادی اور خاندانی سطح سے اوپر لے جا کر ملکی اور عالمی سطح پر انجام دیں، ایک دنیا کی ملکیت حاصل کریں اور لاکھوں انسانوں کے حلال رزق کی فراہمی کا ذریعہ بنیں، پھر اپنی ملکیت کو دنیا میں تقسیم کردیں، اور پھر اتنا سب کچھ حاصل کرلینے اور تج دینے کے بعد پیٹ کی بھوک سے بھی دستبردار ہو جائیں اور رمضان میں روزہ رکھ کر عشق کا نذرانہ دیں. کچھ یہی نظارہء عشق چودہ سو سال پہلے فرشتوں نے دیکھا تھا، اب تک انکی آنکھیں ترس رہی ہونگی کہ..... عشق کی وہ معراج اور وہ جلوے اب کہاں، شاید کو ئی ادنی مثال ہی دیکھنے مل جائے. 

اب کیا وجہ ہے کہ رزق کے حصول اور اسکے فروغ اور اسکی فراہمی کے لئے اہل حق کوشاں نہیں ہیں. باطل اپنی تمام تر قوت اور حربوں کے ساتھ ذریعہ معاش پر قابض نظر آتا ہے. جہاں چند ذرائع معاش ناجائز ہیں تو اکثر ذرائع جائز بھی ہیں. ایسے تمام ذرائع اب اہل مغرب کی اجاراداری میں ہیں، اور اپنی اس کامیابی پر اگر وہ نازاں ہیں تو حق بجانب بھی ہیں. یہ اور بات کہ انکے اس ناز کو خالق حقیقی کی خوشنودی حاصل نہیں ہو سکتی جب تک وہ حق کی شہادت نہیں دیتے. آج اہل حق میں سے اکثر لوگ محتاج اور مجبور پائے جاتےہیں یا پھر اغیار پر منحصر . اس کی ایک اہم وجہ ذریعہ معاش کی فراہمی میں تگ و دود سے مسلمانوں اور مسلم مملکتوں کی کاہلی اور کم علمی ہے، امت کے اجتماعی و عالمی مفاد سے پہلو تہی کرنا ہے. اور ان سب کوتاہیوں کی وجہ سے امت کمزور ہوتی جارہی ہے اور باطل کا مقابلہ کرنے سے قاصر بھی. علامہ نے کیا خوب فرمایا کہ :
تن بہ تقدیر ہے آج انکے عمل کا انداز....... تھی نہاں جنکے ارادوں میں خدا کی تقدیر 
دور جدید میں اہل باطل نے رزق کی حصولیابی اور فراہمی کو حق کے خلاف حربہ بنا لیا ہے اور جو ایک تیر بہ ہدف نسخہ ثابت ہوا ہے، اس لیے اہل حق کو چاہیے کے اسکا توڑ جو دین میں موجود ہے اسے اختیار کرے. دین اسلام میں رزق حلال کے حصول اوراسکی فراہمی میں تگ و دود کرنے والوں کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں جس میں اصحابہ کرام سے لے کر تبع تابعین اور علمائے کرام تک سب شامل رہے ہیں. کہیں خدا کی خوشنودی میں سینکڑوں ریگستانی جہازوں سے لدے ہوئے اموال کو تقسیم کردینے کی مثال موجود ہے تو کہیں اپنے باغات اور کنووں سے حق کی راہ میں دست بردار ہونے کی. ان ریگستانی جہازوں کی قدر و قیمت آج کے دیو ہیکل سمندری جہازوں کے برابر ہے اور ان باغات اور کنوؤں کی قدر و قیمت کا اندازہ موجودہ دور کے عظیم الشان زراعتی میدانوں اور تیل کے کنوو ں سے لگایا جاسکتا ہے. اسی طرح کہیں پر "مسلم ہے اپنے خویش و اقارب کا حق گزار" کی مثال تو کہیں " اے تیری ذات باعث تکوین روزگار " کا جلوہ، کہیں "پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس" کی مثال تو کہیں قیصر و کسری کے تاج کو گلیوں میں روند کر دنیا سے بے اعتنائی کی، اور کہیں بطور آمدنی حاصل شدہ چند کھجوروں کو راہ حق میں لٹانے پر راس المال قرار دئے جانے کی لا زوال مثال. عشق کی ایسی ہزاروں مثالیں ہیں جنکے مد مقابل دور جدید کے "Philanthropists" کی اجمالی سخاوتیں، ان میں سے کسی ایک کا عشر عشیر بھی نہیں. دین اسلام نے جہاں دنیا سے بے رغبتی کو تقوی کا معیار قرار دیا ہے ونہیں اپنی محنت سے حاصل کردہ دنیا کو تج دینے کو، اس نظام حیات کے قیام میں جد و جہد کرنے اور معاشرہ میں ذریعہ معاش کے اسباب پیدا کرنے میں تگ و دود کرنے کو تقوی کی اعلی ترین مثال قرار دیا ہے. نظام حیات کو باطل کے ہاتھوں میں سونپنے کی ممانعت بھی کی ہے.
باطل کی معاشی قوت کا تجزیہ کرنے پر یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ، دنیا کے دو ہزار سے زائد مختلف شرکات اور صنعتیں ایسی ہیں جن میں ہر ایک شرکہ میں پچیس ہزار سے ایک لاکھ لوگ روزگار پاتے ہیں. اسکے علاوہ لاکھوں ایسے شرکا ت ہیں جن کا اوسط فی شرکہ پانچ ہزار لوگوں پر مشتمل نظر آتا ہے. ان شرکات کے علاوہ مختلف حکومتوں کے اپنے شرکات اور صنعتیں ہیں جن میں روزگار کی فراہمی کا اوسط ١٠لاکھوں میں آتا ہے. ان تمام میں مسلمانوں کے شرکات مشکل سے چند ہیں جو انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں.اس تجزیہ سے یہاں یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ مسلمانوں میں انفرادی و اجتماعی طور پر ذریعہ معاش کی فراہمی کے تئیں وہ جذبہ و شعور پیدا نہیں ہوا ہے جسکا تقاضا دین کرتا ہے اور جسکی موجودہ دور میں اشد ضرورت ہے.
دنیا کی چند ہزار بڑی کمپنیوں کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کمپنیاں کروڑوں انسانو ں کو روزگار مہیا کررہی ہیں اور انسانوں کے رزق کی فراہمی کا ذریعہ بن رہی ہیں. جبکہ اکیاون سے زیادہ مسلم ممالک ہیں اور جن میں نصف سے زائد ایسے ہیں جو بے شمار قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں. لیکن ان کے روزگار مہیا کرنے کا اوسط اگر نکالا جائے تو بے حد کم نظر آتا ہے. جبکہ یہ ممالک جذبہ خیر اور انسانی فلاح و بہبودی کے لئے بہت کچھ کرتے بھی ہیں، لیکن طویل مدتی حکمت عملی اور عظیم الشان صنعتوں اور تجارتی مراکز کا قیام انکی ترجیحات میں شامل نہیں رہاہے. ا ن ممالک میں انقلابی سطح پر صنعتوں کا فروغ نہیں ہوا ہے. صعنتی انقلاب کے اپنے منفی اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا جہاں سماجی برایوں سے لیکر بے سکون ازدواجی زندگی اور دینی، علمی اور ادبی اقدار میں انحطاط سب کچھ ممکن ہے، لیکن اسلامی اصولوں اور شرعی قانون سے ان سبکا سد باب کیا جاسکتا ہے. رزق حلال کا حصول اور اسکی فراہمی کا سبب بننا خالق حقیقی کے اس عظیم الشان نظام حیات کا حصہ اور اسکے فضل کا ذریعہ بننے کے مترادف ہے، اور حق و باطل کی موجودہ جنگ میں اسکی اہمیت و ضرورت جنگی آلات کے حصول سے زیادہ ہے. مسلم حکمرانوں کو روزگار کی فراہمی کے ضمن میں جنگی اور انقلابی پیمانہ پر پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے.
محل دو محلے اور پر شکوہ عمارتوں کی تعمیر سے وقتیہ روزگار تو مہیا کیا جاسکتا ہے اور تاریخ کے ابواب کو سنہرا بھی کیا جاسکتاہے، لیکن مستقل روزگار کی فراہمی کا فریضہ ادا نہیں کیا جاسکتا. امت چاہے لاکھ با ایمان ہو لیکن مستقل روزگار کے بنا ایمان کی وہ مضبوطی کی حامل نہیں ہوگی جسکا متقاضی دین کا استحکام ہے، اور نہ ہی عشق کی وہ جلوہ آرائیاں ممکن ہونگی جسکے دیدار کے فرشتے مشتاق ہیں اور خالق حقیقی جسکا دعویدار.

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا