English   /   Kannada   /   Nawayathi

روزہ کا اصل مقصودکیا ہے؟

share with us

اگرچہ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ روزہ کے اندر گہرے طبّی فوائد بھی ہیں۔ خاص طور پر قلب کی بیماریوں کے لیے یہ ایک نہایت کارگر حفاظتی تدبیر ہے مگر اس قسم کے فوائد کا انکار نہ کرتے ہوئے ہم کہیں گے کہ یہ روزہ کا اصل مقصودنہیں ہے۔ یہ اس کے مختلف ضمنی فوائد میں ایک فائدہ ہے۔ روزہ اصلاً ایک بہت بڑی حکمت ہے جو آدمی کو حاصل نہ ہو تو اس کی ساری زندگی اکارت ہوکر رہ جائے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ روزہ فرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے اندر تقویٰ پیدا ہو (بقرہ ۸۳) عربی زبان میں تقویٰ کا مطلب ہے بچنا، پرہیز کرنا فرسً واقٍ اس گھوڑے کو کہتے ہیں جو پاؤں میں تکلیف کی وجہ سے چلنے سے ڈرے۔ متقی کا لفظ زیادہ جامع طور پر تقریباً اسی مفہوم کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کے لئے محتاط (Cautious) کا لفظ بولاجاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ روزہ کا مقصد آدمی کے اندر اس نفسیاتی حالت کو بیدار کرنا ہے جس کو ہم اپنی زبان میں پروا، کھٹک اور احتیاط سے تعبیر کرتے ہیں، یہی صفت قرآن کی بھی بتائی گئی ہے۔ (ذٰلک الکتاب لاریب فیہ ہدی للمتقین) یعنی اس کتاب میں ان لوگوں کے لئے رہنمائی ہے جن کے دلوں میں کھٹک ہو جو اس بات کے لئے اندیشہ میں رہتے ہوں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیاہے۔ تاکہ جو غلط ہے اس کو چھوڑ دیں اور جو صحیح ہو اس کو اپنے لئے اختیار کرلیں، یہی تقویٰ یا کھٹک کی حالت ساری نیکیوں کی بنیاد ہے کیونکہ جس کو کھٹک ہو وہی اس کے بارے میں سنجیدہ ہوگا کہ وہ غلط چھوڑ دے اور صحیح پر چلنے کا اہتمام کرے جس کے دل میں کھٹک ہی نہ ہو وہ اس قسم کی تمیز کرنے کی ضرورت کیوں سمجھے گا، وہ توصرف اپنی خواہشوں پر چلے گا۔ ظاہری طور پر دیکھنے میں جو چیز اس کو پسند آئے گی اس کو لے لے گا خواہ وہ چیز صحیح ہو یا غلط۔
روزہ یہی کھٹک کی حالت بیدار کرنے کی ایک تدبیر ہے۔ روزہ کے ذریعہ آدمی کی روزانہ زندگی میں یہ بات شامل کردی جاتی ہے کہ وہ اپنے روزو شب کے معاملات کو ’’کھٹک‘‘ کی نظر سے دیکھے، یہ ایک مشق ہے جو شعبان کی ۲۹ تاریخ سے شروع کی جاتی ہے۔ ۲۹؍شعبان کی شام کو آدمی کی نظریں آسمان میں چاند دیکھنے کے لئے گڑ جاتی ہیں کہ کہیں وہ گردش زمین کے اس لمحہ میں تو داخل نہیں ہوگیا ہے جب کہ اس کو اپنی زندگی کے نقشہ کو بالکل بدل دینا ہے، سحر کب ہوتی ہے اور سورج کب غروب ہوتا ہے، اس کو ٹھیک ٹھیک جاننے کے لئے وہ فکر مند رہتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اپنی زندگی کے نظام میں اس کو ان کی رعایت کرتے ہوئے چلنا ہے، دیگر ایّام میں بھوک اور خواہش اس کی رہنما تھی مگر اب اس کو نہایت صحت کے ساتھ یہ جاننا پڑتا ہے، کہ کتنے بج کر کتنے منٹ پر کھانا پینا ہے اور کتنے بج کر کتنے منٹ کے بعد کھانا پینا بالکل بند کردینا ہے، جو دن پہلے کسی احتیاط اور اندیشہ کے بغیر گذرتے تھے، انھیں دنوں کے بارے میں اب وہ یہ مسئلہ جاننا ضروری سمجھنے لگتا ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے، کیا کھانا ہے اور کیا نہیں کھانا ہے، ایسا نہ کرو ورنہ روزہ ٹوٹ جائے گا۔ ویسا نہ کرو ورنہ روزہ رکھ کر بھی تم بے روزہ ہوجاؤ گے۔ غرض ایک مہینے تک تمام رات اور تمام دن اسی مشق میں گذرجاتے ہیں کہ آدمی کہاں تک جا سکتا ہے اور کہاں تک نہیں جاسکتا، اس کو کس طرح رہنا چاہئے اور کس طرح نہیں رہنا چاہئے، روزہ کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کے روز مرہ کے معمولات میں ’’کیا کر سکتے ہو، کیا نہیں کرسکتے‘‘ کا مسئلہ کھڑا کر کے اس کو تیار کیا جائے کہ وہ اسی کو اپنا مستقل مزاج بنالے۔ یہ کھٹک کی زندگی ہی ایمانی زندگی ہے اور یہی ساری عمر کے لئے مومن سے مطلوب ہے۔ 
رسول اللہ ﷺ سے روزہ کی جو دعائیں منقول ہیں وہ اس کیفیت کو بتاتی ہیں جو روزہ کے ذریعہ انسانی نفسیات میں پیدا کرنا مقصود ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ پورا کرنے کے بعد شام کو جب آپ افطار فرماتے تو آپ کی زبان سے کچھ دعائیہ کلمات نکلتے، اس سلسلہ میں حدیث کی کتابوں میں مختلف دعائیں آتی ہیں، یہاں مسئلہ کو سمجھنے کے لئے چند دعائیں نقل کی جاتی ہیں:
الحمد للہ الذی اعانتی فصمت ورزقتنی فافطرت ۔
شکراللہ کے لئے جس نے مدد کی تو میں نے روزہ رکھا اور جس نے رزق دیا تو میں نے افطار کیا۔
اللہم لک صمنا وعلیٰ رزقک افطرنا فتقبل منّا انک انت السمیع العلیم۔
اے اللہ ہم نے تیرے ہی لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا۔ تو ہمارے روزے کو قبول فرما۔ یقیناًتو سننے والا اور جاننے والا ہے۔
اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت۔
اے اللہ میں نے تیرے ہی لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی دئے ہوئے رزق سے افطار کیا۔
الحمد للّٰہ ذہب الظماء وابتلت العروق وثبت الاجران شاء اللّٰہ۔
شکر اللہ کا پیاس بجھ گئی، اور رگیں تر ہو گئیں اور اللہ نے چاہا تو اجر ضرور ملے گا۔
ان دعاؤں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بس ان کو رٹ لیا جائے اور لفظی منتر کی طرح ان کو افطار کے وقت زبان سے دہرا دیا جائے۔ یہ دعائیں در اصل ان کیفیات کا اظہار ہیں جو بندۂ مومن کے اندر روزہ رکھنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ ایک خدا کا بندہ خدا کے لئے دن بھر بھوکا پیاسا رہنے کے بعد شام کو جب کھانے اور پانی سے اپنے جسم کو شاد کرتا ہے اس وقت اس کے قلب میں اپنے رب کے بارے میں جو کیفیات امنڈتی ہیں، وہ کیفیات ان لفظوں کی صورت میں ڈھل گئی ہیں۔
یہ اور اس طرح کی دوسری دعائیں جو حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں وہ سب سے زیادہ قیمتی ذریعہ یہ جاننے کی ہیں کہ روزہ کی حقیقت کیا ہے اور ہمیں اپنے روزہ کو کس معیار پر جانچنا چاہئے۔ وہ معیار یہ ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ وہ کیفیات جن کا ذکر ان دعائیہ کلمات میں ہے وہ ہمارے اندر امنڈتی ہیں یا نہیں۔ اگر ہمارا روزہ ان کیفیات میں ڈھل رہا ہو تو ہمارا روزہ روزہ ہے۔ اور اگر ایسا نہ تو ہم کو ڈرنا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے روزہ کو یہ کہہ کر ہماری طرف لوٹا دیا جائے کہ تمہارا روزہ تو محض کھانا پینا چھوڑنا تھا۔ اور جب آدمی غیر متقیانہ روش کو نہ چھوڑے تو خدا کو اس کی حاجت نہیں کہ کوئی شخص خواہ مخواہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا