English   /   Kannada   /   Nawayathi

جموں وکشمیر میں واٹس ایپ گروپ پر پابندیاں!

share with us

کیونکہ پولیس کا یہ کہنا ہے کہ وٹس ایپ پر غیر پیشہ وارانہ افراد نے گروپ بنا لئے ہیں جن میں ہر علاقے کی اطلاع دی جاتی ہے اور بعض عناصر ان گروپوں کو غلط طریقے سے استعمال میں لائے ہیں۔پولیس کی کونٹر انٹلی جنس ونگ کی جانب سے جو سروے کی گئی اس میں ایسے گروپوں پر پابندی لگانے کے علاوہ انکے چلانے والوں کیخلاف کارروائی کرنے کی بھی بات کہی گئی ہے۔اگر چہ دنیا بھر میں انٹرنیٹ کے ذریعہ جرائم انجام دیئے جارہے ہیں لیکن ابھی تک انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے تحت چنددفعات کے علاوہ کوئی بھی باقاعدہ ضابطہ موجود نہیں ہے جس کے تحت ایسے افراد کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی جاسکے یا پھر ان کی طرف سے شیئرکی جانے والی معلومات کی خفیہ کاری کو کنٹرول میں کیاجاسکے۔ انٹرنیٹ کو کوڈ (Code)کے ذریعہ کنٹرول کرنے سے متعلق پروفیسر لارینس لیسنگ اور جون پیرے بار لاء کی ’دی ڈکلریشن آف انڈی پنڈنس آف سائبر سپیس‘کی فلاسفی ابھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ آہستہ آہستہ دنیا میں مختلف ممالک کی طرف سے انٹرنیٹ کو باقاعدہ بنانے کے لئے قواعد وضوابط بنانے پرسنجیدگی سے غوروفکر کیاجارہاہے کیونکہ لگاتار سائبر دہشت گردی اور انٹرنیٹ پر دستیاب مواد تک بلااجازت رسائی(Ransomware)وغیرہ کے بڑھتے خطرات سماج کے لئے تشویش کا باعث بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنے کے لئے مختلف تکنیکی اپروچز جن میں Net Neutrality, Encryption Policy اور Backdoor in an encryptionوغیرہ خصوصی طور قابل ذکر ہیں، پر تفصیلی بحث وتمحیص کی جارہی ہے اور یہ خاصا چرچاکا موضوع بھی ہیں لیکن انٹرنیٹ کے پیچیدہ ،ٹرانس نیشنل (بین الاقوامی)نوعیت کی ہونے اور سماج میں اظہار رائے کی پابندی کی وجہ سے یہ بھی بحث بھی تنازعہ کا شکار ہوکر رہ گئی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں انٹرنیٹ کو مکمل طور کنٹرول کرنے کے لئے کوئی واضح ضابطہ تیار نہیں ہوسکا۔جموں وکشمیر سرکار نے وٹس ایپ گروپوں کو منظم کرنے کی کوشش کی ہے جوکہ پروفیسر جیک گولڈ سمیتھ کے اس متاثر کن مضمون ’Against Cyberanarchy‘کا مواخذ دکھائی دے رہی ہے ہے۔ موصوف سائبر سپیس کو فیزیکل سپیس کے طور شناخت کرتے ہیں۔ اس نظریہ کی اہمیت بھی اب ڈاٹا کی زیادہ سے زیادہ توسیع اور پھیلاؤیعنی Virtualizationاورکمپیوٹر وانٹرنیٹ کی بڑھتی مانگ ’’کلوڈ کمپیوٹنگ ‘‘اور Encryption(خفیہ کاری)کی وجہ سے کم ہوگئی ہے۔ کیا جموں وکشمیر سرکار کی وٹس ایپ پر ہونے والی بات چیت کو منظم کرنے کی کوشش کارگرثابت ہوگی، کیا اس کا عملی طور نفاذ ہوسکے گا، کیا اس سے ایسا کچھ ہوپائے گا یاپھر یہ بھی ایک اور ناکام کوشش ثابت ہوگی، ان سوالات کے جواب تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ جموں وکشمیر جیسی حساس ریاست میں افواہیں ایک سنگین خطرہ ہے، اس سے امن وامان کی صورتحال پیدا ہوتی ہے، جانی ومالی نقصان ہوتا ہے ۔سوشل میڈیا وغیرہ کا استعمال کرتے وقت احتیاط برتنی اور ایسی افواہیں یا جھوٹی خبریں پھیلانے سے اجتناب برتنا ہرشہری کا فرض ہے لیکن وٹس ایپ گروپوں پر نظر رکھنے کے لئے جوسرکار کی طرف سے حالیہ فرمان جاری کئے گئے ہیں، ان کی کوئی قانونی جوازیت فی الحال تو کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ریاستی سرکار نے وٹس ایپ گروپوں خاص طور سے ’’سوشل میڈیا نیوز ایجنسی ‘‘اور ویٹس ایپ نیوز گروپ کے ایڈمنسٹریٹرز سے کہاہے کہ وہ گروپ میں غیر ذمہ دارانہ ریمارکس یا کوئی ایسی خبر جس کی وجہ سے کوئی حادثہ رونما ہویاامن وامان کی صورتحال پیدا ہوکیلئے ذمہ دار ہونگے۔ اس کے تحت سرکاری ملازمین کو بھی سرکار کی پالیسیوں اور فیصلہ جات سے متعلق کوئی رائے زنی /ریمارکس دینے سے منع کیاگیاہے۔ ایسے آرڈرز غیر موثر ہے کیونکہ وٹس ایپ پر کی جانے والی بات چیت(Communication)میں خفیہ کاری( encryption )ہے اور تحقیقاتی ایجنسیوں کے پاس کوئی چابی یا ایسا طریقہ کار موجود نہیں کہ وہ ڈاٹاکو(Decrypt)کرسکے۔ اس لئے بات چیت کے مواد کی تحقیقاتی ایجنسی کی تاک جھانک نہیں کرسکتی۔ مزید یہ کہ ایک بار وٹس ایپ گروپ Delete(حذف)کر دیاجائے تو یہ معلوم کرناممکن نہیں کہ User(صارف)صرف گروپ کا ممبر تھا یا پھر اس کا ایڈمنسٹریٹر۔ اس کے علاوہ اس وٹس ایپ گروپ جس کے ایک سے زائد ایڈمنسٹریٹرز ہیں کہ ساتھ ڈیل کرنے کا بھی کوئی طریقہ کار نہیں کیونکہ گروپ چھوڑنے پر اپنے آپ دوسرا کوئی بھی ممبر ایڈمنسٹریٹر ہوسکتا ہے۔ اگر یہ حکم نامہ لاگو کیاجاتا ہے تو یہ بے معنی ہوگا کیونکہ گروپ بنانے اورمعلومات کو شیئر کرنے کے بہت سارے طریقے ہیں، جن میں فیس بک میسنجر، وی چاٹ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ مزید یہ کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر بات چیت سے متعلق کیسوں کے حوالہ سے ثبوت جمع کرنا، شناخت کرنا اور ملزمین کے خلاف مقدمہ درج کرنا مشکل ترین عمل ہے اور اس کا کوئی سخت اثر بھی پڑنے والا نہیں۔ قواعدو ضوابط جن کے تحت قانون شکنوں/مرتکب افراد کے خلاف مقدمہ درج کیاجائے کی غیر موجودگی میں یہ اقدام بے دانت ،غیر موثر اور محض کاغذی خانہ پوری ہی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر یہ احکامات حقوق برائے ’آزادیِ اظہار رائے‘کی سریحاًخلاف ورزی ہے کیونکہ یہ پہل نہ صرف شہریوں کے درمیان وٹس ایپ پرہونے والی بات چیت پر کڑی نظر رکھا ہے بلکہ شہریوں کو ایک دوسرے کی مخبری کرنے کی حوصلہ فزائی کرنا ہے جوکہ وٹس ایپ کے اصولوں کے منافی ہے۔ بہت سارے وٹس ایپ گروپ ایسے ہیں جہاں ہم خیال لوگ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں، جس میں کوئی قابل اعتراض نہیں ہوتا ،نہ ہی کوئی ایسی بات ہوتی ہے جس سے امن وقانون کی صورتحال پیدا ہونے کا احتمال ہے اور نہ ہی یہ ملک مخالف ہوتی ہے لیکن اس کی رازداری لازمی ہوتی ہے۔یہ حکم آئینی فریم ورک کی خلاف ورزی ہے جوکہ شہریوں کو اظہار رائے اور بولنے کی آزادی دیتا ہے ۔ بولنے اور اظہار رائے اور کسی سے معلومات حاصل کرنے پر معقول پابندیاں حق ’آزادی اظہار رائے ‘کا تو ناقابل تنسیخ حصہ ہے۔ اگر افواہیں ، تیزی کے ساتھ پھیلنا شروع ہوجائیں اور نازک صورتحال پیدا ہونے کا حدشہ ہوتو امن وامان کو بنائے رکھنے کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی سیکشن69کے تحت سرکار انٹرنیٹ سروسز بلاک کرسکتی ہے ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سیکشن66Aکے تحت سرکار کو انٹرنیٹ وکمپیوٹر کو کنٹرول کرنے کے کافی اختیارات حاصل تھے لیکن اس کو عدالت عظمیٰ نے غیر آئینی قرار دے دیا ہوا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے ایک اہم ترین فیصلہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سیکشن66Aکو’سیاہ‘ضابطہ قرار دیتے ہوئے اس کو کالعدم قرار دیاتھا اور کہاتھاکہ اس کے تحت انٹرنیٹ پر مبینہ طور قابل اعتراض مواد چڑھانے کی آڑ میں سینکڑوں افراد کو گرفتار کیاجاچکا ہے۔ منمانے، ضرورت سے زیادہ اور غیر متناسب آزادی اظہار کے حق پر حملہ کرتا ہے اور اس طرح صحیح اور معقول پابندیاں ایسے حق پر عائد کی جاسکتی ہیں۔وٹس ایپ پر ابتدائی مراحل پر افواہوں اور خبروں کو روکنے ور ان کا پتہ لگانے کے حوالہ سے فی الحال تحقیقاتی ایجنسیاں معذور ہیں ۔موجودہ تناظر میں قانون کے تحت کوئی ضابطہ نہ ہونے کی وجہ سے وٹس ایپ گروپوں پرشکنجہ کسنے کے لئے جاری حکام نامہ کی کوئی جوازیت نہیں بنتی۔ اس میں قانون سازیہ کی منظوری بھی نہیں اور اس کو واپس لیاجانا متوقع ہے۔
نوٹ:مضمون نگار پیشہ سے صحافی اور وکیل ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا