English   /   Kannada   /   Nawayathi

رزق حلال سے معاشی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے

share with us

شیطان کو انسان کا ازلی دشمن قرار دیا گیا۔ اس کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ انسان خیر کے راستوں کو ترک کر کے شر کی راہ چلے۔ آج دنیا میں جو کچھ مسائل درپیش ہیں وہ شر اور حرام راہوں کا نتیجہ ہیں۔ اسلام نے پاکیزہ راہ چلنے کا درس دے کر انسانیت کی برہم زلفوں کو سنوارا ہے۔پھر ان اشیا کو بھی اسلام نے حرام میں شمار کیا جن سے عادات و اطوار پر منفی اثر پڑے۔ یا جن کے استعمال سے انسانی خصلت میں شر اور برائی کی عادتیں جڑ پکڑیں، اس لیے کے شئے کے خواص استعمال کرنے والے پر وارد ہوتے ہیں۔ جیسی خصوصیت ہو گی ویسا ہی اثر ہو گا۔ پھولوں سے نسبت و تعلق رکھنے والے خوشبوؤں میں بسے ہوتے ہیں۔ پھر جن کے یہاں گندگی کارجحان ہو وہ کیسے نفیس ہو سکتے ہیں۔ اس کی مثال مغربی تہذیب(Western Civilization)ہے جہاں اخلاقی حدود پامال ہو کر رہ گئی ہیں۔ وہ شراب و سور کے رسیا ہیں اسی لیے ان کے عادات و اطوار محزبِ اخلاق منظر نامہ پیش کر رہے ہیں۔ جنسی بے راہ روی، بے حیائی،غیر متوازن خاندانی نظام اور برائیاں ان کے معاشرے کا حصہ بن چکی ہیں۔ اسلام سے مخالفت و حسد میں انھوں نے ان عادات کو اپنایا جن سے اسلام نے منع کیا۔ اور پھر مسلمانوں کو بے دین بنانے اور مذہبی اقدار سے دور کرنے کے لیے اپنے یہاں کی فراہم کردہ اس تہذیب کا متوالا بنانے کی کوشش کی جس کے زوال کے آثار مغربی معاشرہ کی ناہم واری سے خوب ظاہر ہیں۔قرآن مقدس نے پاکیزگی اختیار کرنے کی تعلیم اس طرح دی ہے:’’اس نے یہی تم پر حرام کیے ہیں مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو غیر خدا کا نام لے کر ذبح کیا گیا۔‘‘ (سورۃالبقرۃ:آیت۱۷۳)
اس آیت میں ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ غیر خدا کے نام کا ذبیحہ حرام ہے۔ زندگی اگر خالقِ حقیقی کی رضا و خوشنودی میں گزرے تو یہ مخلوق کی معراج ہے۔ زندگی کا کوئی سا گوشہ خالق کے احکام کے خلاف گزرنا ہی در اصل مسائل کی اہم وجہ ہے۔ اسلا م نے اپنے ماننے والوں کو مرضیِ مولیٰ کے مطابق زندگی گزارنے کا درس دے کر جبیں کو کسی غیر کے آگے جھکنے سے بچا لیا ہے ، اس طرح انسانیت استحصال سے بچ گئی ہے۔ یوں ہی کسی غیر کے نام پر ذبیحہ ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
افسوس ہے کہ مسلمان خود کو ان عظیم مذہبی احکام سے دن بہ دن دور کرتا جا رہا ہے جن کے حامل ہونے کی بنیاد پر ابتدائی دو تین صدیوں تک مسلمان دنیا کے فاتح اور انسانیت کے نجات دہندہ رہے۔ قرآنی تعلیمات سے وابستگی کی بنیاد پر مسلمانوں نے وحشی قوموں کو تمدن کے اصول سے آشنا کرایا۔ غلامی سے ابتر زندگی گزار رہے یورپ کو انسانی اقدار سکھائی اور انھیں صاف ستھرے معاشرے کے آداب بتائے۔ لیکن! ہماری اپنی بے اعتدالی و لاپروائی نے یہ دن بھی دکھایا کہ جن عوامل کے خلاف ہم شمشیر برہنہ تھے انھیں میں خود مبتلا کر دیئے گئے۔ قرآن نے ہمیں تو یہ تعلیم دی ہے کہ:’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے نا پاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ (سورۃالمآئدۃ:آیت۹۰)
جدید معاشرے میں شراب کو بیئر، وہسکی اور ڈرنک کے نام سے جس طرح پیااور عام کیا جا رہا ہے اور کالج کے طلباو ماڈریٹ معاشرے سے متاثرمسلمان جس طرح سے اس کی لت میں مبتلا ہیں انھیں قرآن مقدس سے درس لینا چاہیے اور ان شیطانی کاموں سے بچ کر اللہ تعالیٰ کی رضا والی زندگی گزارنی چاہیے۔اسی میں بھلائی اور بہتری ہے۔
رزقِ حلال کے تئیں قرآن مقدس نے یہ درس دیا کہ جدوجہد کی جائے اور حلال کے لیے کاوش کی جائے، قرآن کاارشاد ہے:’’اور یہ کہ آدمی نہ پائے گا مگر اپنی کوشش‘‘ (سورۃالنجم:آیت۳۹)اسی طرح رزقِ حلال کی عظمت یہ بتائی گئی کہ یہ تو اللہ کریم کا فضل ہے: وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ ’’اور اللہ کا فضل تلاش کرو‘‘ (سورۃ الجمعۃ:آیت ۱۰)حیرت ہے کہ اتنے واضح احکامات کے باوجود ہم اللہ کی عظیم نعمتوں سے دور ہو کر مغرب کے اندھیروں کی طرف آس لگائے بیٹھے ہیں۔ خدارا جاگ جاؤ! نجات صرف اسلام میں ہے، اللہ کریم و رسول کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے احکام میں ہے۔اس سے رُو گردانی سے صرف قوم و ملت کا خسارہ ہے اور آخرت کا نقصانِ شدید بھی۔دوسری اقوام کی جانب للچائی نظروں سے دیکھنا اپنے عظیم تاریخی و فطری ورثہ سے انحراف ہے ، جس قوم نے بھی اس روش کو اپنایا وہ تباہی سے خود کو نا بچا سکی۔ یہ منفی طرزِ عمل ہی ہماری بربادیوں اور بے اعتدالیوں کی اہم وجہ ہے، ان پر اگر قابو نہ پایا گیا تو مسائل میں اضافہ ہی ہوگا۔
حقوق العباد سے متعلق یہ تعلیم دی گئی کہ:’’آپس میں ایک دوسرے کے مالِ نا حق نہ کھاؤ‘‘ (سورۃالنسآء:آیت۲۹)حقوق کی ادائیگی سے معاشرے کے بہت سے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اسلام نے حقوق کا لحاظ رکھا اور اسی کی تعلیم دی۔ اس سے اسلام دشمن عناصر کو درس لینا چاہیے کہ جو مذہب دوسروں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے وہ بھلا انسانی عصبیت کو کیسے برداشت کر سکتا ہے اور تشدد و ظلم کو کیوں کر جائز ٹھہرا سکتا ہے۔ قرآن مقدس نے حقوق کی ادائیگی کو مقدم رکھا ہے۔یوں ہی سود کو بھی اسلام نے ممنوع قرار دیا اور تجارت یعنی رضا مندی کے سودے کو جائز۔قرآن کا ارشاد ہے:’’اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سود‘‘ (سورۃالبقرۃ:آیت۲۷۵)
رزقِ حلال کی جوتعلیم دی گئیاس سے استفادہ کر کے اپنی تمام جائز ضروریات کی تشفی کی جا سکتی ہے، رزقِ حلال کمانا بھی اللہ کی بارگاہ میں مقبول، اہل و عیال کی خدمت بھی مقبول، محتاجوں اور غریبوں کی امداد بھی مقبول اور جائز طریقے سے خود بھی کھانا پینا،نیز ہر جائز ضرورت حلال رزق کی مدد سے پورا کرنا کوئی قباحت نہیں رکھتا، ارشاد ہوا:’’کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں‘‘ (سورۃالاعراف:آیت۳۱)فضول خرچی کو بھی اسلام نے ناپسندیدہ قرار دیا ہے، فضول خرچنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے:’’ اور فضول نہ اڑا بے شک اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ‘‘ ( سورۃبنی اسرائیل:آیت ۲۶۔۲۷)
مسلمان کی کامیابی اسلامی احکام پر عمل آوری میں ہے، موجودہ دور کا اہم مسئلہ حصول معاش کا ہے ۔ اس کے لیے بہت سے افراد حرام کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ حرام میں مال زیادہ حاصل ہوتا ہے لیکن برکت اٹھ جاتی ہے۔ انسان ہمیشہ طلب اور زیادتی کا خواہاں ہوتا ہے، اس سے بہتر مختصر مال جو حلال ہو وہ ہے ۔اس میں برکت بھی ہے، اللہ کی رضا بھی ہے اور سکون و اطمینان بھی۔اسلام نے حلال کا درس دے کر معاشی حقوق کا تحفظ کیا جس سے معاشی بے اعتدالی کا خاتمہ بھی ہوتا ہے اور انسانی ضروریات کی جائز تشفی کا سامان بھی۔اس لیے بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ حلال کو فروغ دیں اور حرام رزق سے اجتناب کے لیے سرگرمِ عمل ہو جائیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا