English   /   Kannada   /   Nawayathi

پانی کی ایک بوند پہ لکھی ہوئی ہے سب

share with us

ہم جب بچے تھے اس وقت ہم لوگ بریلی میں رہتے تھے جس گھر میں رہتے تھے اس کے بالکل سامنے ایک کنواں تھا جس سے بھشتی مشک میں پانی بھرکر لاتے تھے اور گھروں میں رکھے برتن بھردیا کرتے تھے۔ جس کے گھر میں پانی ختم ہوا اس نے ایک بالٹی رسّی میں باندھ کر کنوئیں میں ڈالی اور ٹھنڈا پانی نکال لیا۔ قریب ہی مسجد تھی اس میں ہینڈپمپ لگا تھا اور وہاں غسل خانہ بھی بنا تھا جس میں گھڑا رکھا رہتا تھا۔ شاید وہ ان کے لئے ہوتا ہوگا جو مسجد کے ایک کمرہ میں ہی رہتے تھے اور اذان و نماز کی امامت کی ذمہ داری ان پر تھی؟
اس زمانہ میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک ماننے والے عالم مولانا سعید الزماں صاحب بھی بریلی میں رہتے تھے اور اکثر والد ماجد سے ملنے کے لئے آجاتے تھے۔ وہ آتے ہی ہم سے فرمائش کرتے تھے کہ گھڑے میں سے آدھا کٹورہ پانی لے آؤ۔ جب ہم والدہ سے آدھا کٹورہ کہتے تھے تو وہ کہتی تھیں کہ نہیں پورا کٹورہ لے کر جاؤ۔ اور مولانا زماں صاحب پیار سے واپس کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس میں سے آدھا گھڑے میں اُنڈیل کر آدھا ہی لاؤ۔ اور دیکھو پھینکنا نہیں۔ یہی حال ان کا مسجد میں تھا۔ وہ بہت کمزور تھے گھڑا بھرا ہوا نہیں اُٹھا پاتے تھے۔ مولانا دُبلے پتلے بھی بہت تھے صحتمند بچوں سے کبھی کہہ دیا کرتے تھے کہ غسل خانہ سے گھڑا نکال کر آدھا گھڑا پانی اندر رکھ دو ہم غسل کریں گے۔ اس زمانہ میں مسجدوں میں نہ بجلی تھی اور نہ پنکھے۔ اگر کوئی مولانا کے لئے گھڑا لاکر رکھ دیتا تھا تو اسے واپس منگواکر آدھا گھڑا وضو کے لوٹوں میں بھروا دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ جب میں آدھے گھڑے میں نہا سکتا ہوں تو پورے گھڑے کا پانی کیوں برباد کروں؟ ان کی ان باتوں سے انہیں سنکی سمجھا جاتا تھا۔
ایک دن مولانا سعیدالزماں صاحب نے اس مسجد میں ہم سب کو بتایا کہ پانی کی بربادی اور فضول خرچی سے وہ کیوں ناراض ہوتے ہیں؟ حضور اکرمؐ جب مدینہ منورہ تشریف لے گئے تھے تو وہاں کے اکثر کنوئیں یہودیوں کے تھے۔ ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں نے پانی کی ایک ایک بوند کے لئے کیسی کیسی تکلیف اٹھائی ہیں؟ اور یہ جو مسلمانوں کا جملہ کو نہانا ہے وہ پانی کی ہی کمی کی وجہ سے ہے۔ اور مدینہ منورہ میں آج بھی جو پانی آتا ہے وہ سمندر کے پانی کو صاف کرکے بھیجا جاتا ہے۔ شاید زمین سے بہت کم آتا ہے۔
ہندوستان کے بعض صوبوں میں پانی کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن بعض صوبوں کو خشک سالی کا عذاب جھیلنا پڑتا ہے۔ اُترپردیش میں ہی بندیل کھنڈ بھی ہے جہاں شاید کسی بھی پانی کی فراوانی نہیں رہی۔ اور ایک بات پورے ملک میں سب دیکھ رہے ہیں کہ پانی کی سطح نیچے ہوتی جارہی ہے۔ شاید 25 سال پہلے سنبھل کے ایک اپنے مکان میں مجھے ہینڈ پمپ لگوانا تھا۔ اس وقت جب لگانے والوں کو بلایا تو وہ چار گھنٹے میں لگاکر چلے گئے۔ یاد آتا ہے کہ 60 فٹ نیچے پانی تھا اور اب ہر گھر میں ٹیوب ویل بھی ہے اور ہینڈپمپ بھی لیکن اسے چلانے کے لئے موٹر لگائے گئے ہیں۔
پانی کی سطح نیچے سے نیچے ہوتی جارہی ہے اور اب ضرورت ہے کہ پورے ملک میں حضرت مولانا سعید الزماں صاحب کے فارمولہ کو اپنایا جائے کہ زمین سے کم سے کم پانی نکالا جائے۔ اور یہ جو ہم سب نے عادت بنالی ہے کہ گلاس سے ایک گھونٹ پی کر باقی پھینک دیا اسے بھی ختم کردیا جائے۔ میرے بچے، بہوئیں، پوتے، پوتیاں جانتی ہیں کہ میرے اندر مولانا زماں کی نصیحتوں کا اثر بچپن سے ہے میں جب کسی سے پانی مانگتا ہوں تو ہر کوئی دو گھونٹ پانی دیتا ہے۔ اگر کھانے کی میز پر کوئی ناواقف بھی ہے اور وہ گلاس بھرکر دے دیتا ہے تو جو کوئی میرے قریب بیٹھا ہو وہ اسے اٹھاکر دوسرا گلاس دیتا ہے جس میں چوتھائی گلاس پانی ہوتا ہے۔
دہلی میں جمنا موجود ہے لیکن اس کی ضرورت کا پانی اُترپردیش اور ہریانہ سے آتا ہے اگر تعلقات خراب ہوجائیں تو دہلی کا کیا ہوگا؟ اور اگر ہم جہاں بھی رہتے ہیں وہاں کی زمین کے اندر پانی اتنا نیچے چلا جائے کہ نکالنا ممکن نہ ہوتو کیا ہوگا؟ ذرا ان کروڑوں انسانوں کا تصور کرنا چاہئے جہاں کی عورتیں گھنٹوں پیدل چل کر پانی لے کر آتی ہیں وہاں اگر کوئی پیدا ہو تو اس کے لئے پانی کہاں سے آئے اور کوئی مرجائے تو مردہ کو نہلانے کے لئے پانی کہاں سے آئے؟
اب تو گھر گھر ٹی وی ہے۔ اس کی وجہ سے ہر کوئی دیکھ رہا ہوگا کہ ممبئی میں عورتیں بڑی بڑی کین لے کر ٹرین کے ذریعہ قریبی مواضعات میں پانی لینے جارہی ہیں۔ اب ذرا تصور کیجئے کہ وہ پانی کتنا قیمتی ہے اور گھر میں کون ہے جو روز نہانا ضروری سمجھے اور روز گھر کا فرش دھلوائے؟ اسلام نے جو جوٹھا کی لعنت کو برکت بتایا ہے اور پانی کی بربادی کو بھی فضول خرچی میں شامل کیا ہے۔ اب ہم اور آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ ایسے ہی حالات کا سامنا کرنے کے لئے ہے۔
ہر دن صبح نہانا اب فیشن بن گیا ہے۔ اگر سمجھاؤ تو جواب ملتا ہے کہ عادت ہوگئی ہے اور اگر نہ نہاؤ تو دن بھر کام نہیں ہوتا۔ ہم بھی گرمیوں میں ہر صبح نہاتے تھے 1965 ء کی یکم اگست کو جب ہم جیل گئے تو دن بھر قیصر باغ کوتوالی میں رہے۔ رات کو جیل میں داخل ہوئے دوسرا دن ضابطہ کی کارروائی کی نذر ہوگیا۔ تیسرے دن دو دوست آئے تو سب کچھ لائے، کپڑے نہیں لائے۔ اگست کی 02 تاریخ تھی سڑی گرمی میں پسینہ سے چپکے کپڑے تھے لیکن ہر کام ہوتا رہا اور تین دن کے بعد کپڑے بدلے اور نہانا نصیب ہوا۔ تو عادت کہاں گئی۔ عادت کوئی چیز نہیں ہے۔ ہم شوق کو عادت کہہ دیتے ہیں۔ لاتور میں شاید لوگ مہینے میں ایک بار نہاتے ہوں گے؟ ہوسکتا ہے وہ بھی نہ ہوتا ہو۔
جیل سے رہا ہونے کے بعد جون 1966 ء میں ہم نے بھوپال، برہان پور، کھنڈوہ، مالے گاؤں، ممبئی وغیرہ کا ملک گیر دورہ کیا۔ برہان پور دن میں دو بجے پہونچے شیروانی بھی پہنتے تھے۔ میزبانوں نے غسل کا انتظام کیا شام کو معلوم ہوا کہ ہم نے جس بالٹی سے غسل کیا ہے وہ پانی دس روپئے کا خریدا ہوا تھا۔ اور دوسرے دن دیکھ لیا کہ بیل گاڑی پر بڑے ڈرم رکھے لوگ لارہے ہیں اور 10 روپئے بالٹی پانی فروخت ہورہا ہے۔ پچاس برس پہلے دس روپئے 100 روپئے کے برابر تھے۔ دوسرے دن کھانے کے بعد پانی سے ہاتھ دھونے میں بھی ہم تکلف کررہے تھے۔ اور اس کا دُکھ تھا کہ اگر معلوم ہوجاتا کہ دس روپئے بالٹی پانی ہے تو ہرگز نہ نہاتے۔ ہم اپنے گھر میں بھی سب سے کہتے رہتے ہیں اور آج آپ سب سے بھی عرض کررہے ہیں کہ پانی کے معاملہ میں اپنے بچوں اور پوتوں کو دیکھنے کے بجائے پوتوں کے بچوں کے بارے میں سوچئے۔
دنیا میں یوں ہی نہیں کہا جارہا ہے کہ اب جو تیسری جنگ عظیم ہوگی وہ خدا نخواستہ پانی پر ہوگی۔ پانی کو اس طرح بچایئے جیسے بجلی بچائی جاتی ہے اور پانی کی فضول خرچی سے جس قدر ممکن ہو پرہیز کیجئے۔ حکمراں مرکز کے ہوں یا صوبوں کے۔ ان کے سامنے تو صرف یہ ہے کہ حکومت کیسے بچائیں اور دوبارہ کیسے حاصل کریں؟ اس سے آگے انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا