English   /   Kannada   /   Nawayathi

دہلی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں پر مرکزکے تین چابک۔۔۔

share with us

ایل جی صاحب دہلی کے مسلمانوں اور عام باشندوں کیلئے کس قدر ہمدرد ہوں گے یہ ایک موضوع ہے۔مگر چونکہ مسٹر نجیب جنگ گجراتی کمپنی ریلائنس کے اہم ستون رہے ہیں ،لہذامرکزی اوروزیر اعظم نریندر مودی کیساتھ ان کے کیارشتے ہوسکتے ہیں یہ محتاج وضاحت نہیں لگتا۔علاوہ ازیں کئی موقعوں پر ایل جی دفتر کی کاکردگیاں اس جانب اشارہ کرتی رہی ہیں کہ یہاں سارے کام کسی مخصوص طاقت کے اشارے کی مرہون منت ہیں۔
بہرحا ل میں عرض یہ کررہا تھا کہ’ عام آدمی پارٹی ‘کی دہلی سرکار کی راہوں میں مشکلات پہاڑ ہمیشہ کھڑا کئے جاتے رہے ہیں۔چاہے وہ بجلی کی قیمت میں تخفیف اور بجلی کمپنیوں کی آڈیٹنگ کا معاملہ ہو یا نجی اسکولوں میں تعلیم کی تجا ر ت کا۔ اس حکومت نے جب بھی کچھ مثبت کرنے کی جرأت کی اسی وقت مرکز نے کوئی نہ کوئی سیاسی داؤ ضرور کھیل دیا۔حکومت دہلی کو چاروں طرف سے ایسے گھیرا گیاگویا تمام وسعتوں کے باوجود وزیر اعلی اروند کجریوال کیلئے زندگی تنگ ہوتی نظرآ نے لگی۔المیہ تو یہ ہے کہ حکومت دہلی کو اپنی مرضی کا ایک افسر رکھنا بھی ایل جی اور مرکزی حکومت کو کبھی گوارا نہیں ہوسکا۔علاوہ ازیں حکومت کو موقع بموقع ہراساں کرنے کیلئے چیف سیکریٹری دہلی کے دفتر میں سی بی آ ئی کے چھاپے تک مروادیے گئے۔ سیاست اور سرکاری نظام پر دوررس نگاہ رکھنے والے دانشور اس کا بخوبی احساس کرسکتے ہیں کہ ان تمام ریشہ دوانیوں کے درمیان عوامی مفادات پرخودکو کھرارکھنا کسی بھی حکومت کیلئے کتنا مشکل کام ہوسکتا ہے ۔ ابھی گزشتہ برس ہی یعنی مارچ 2015کو جب حکومت دہلی نے تمباکو مصنوعات پر پابندی کیلئے نوٹیفکیشن جاری کیا تو عوام کی ہمدردی اور انسانیت کے احترام کا دم بھرنے والوں کے پیر کے نیچے سے زمین کھسک گئی اور معاملہ کو دہلی ہائی کورٹ میں لے جایا گیا۔ظاہر سی بات ہے تمباکو جیسی مہلک مصنوعات پر پابندی عائد کرنے کی کسی بھی کوشش کی راست طورپر مخالفت نہیں کی جاسکتی تھی ،لہذا بی جے پی کے آ شیرواد سے تمباکو مصنوعات بنانے والی کمپنیوں نے کورٹ میں عرضی داخل کرکے کہاکہ دہلی میں تمباکو مصنوعات کی خرید وفروخت کیخلاف قانون بنانے کا اختیار حکومت دہلی کو حاصل ہی نہیں ہے۔یہ حق صرف مرکز کے لئے مخصوص ہے کہ وہ جب چاہے دہلی کیلئے کوئی بھی قانون وضع کردے اور جب چاہے کسی بھی قانون کو سرے سے مسخ کردے۔یہی وہ مسائل ہیں جو دہلی سرکار کے سامنے درجنوں ترقیاتی ایجنڈوں اورعوامی مفادات سے متعلق منصوبوں کے نفاذمیں ہمیشہ حائل رہے ہیں۔اگر ان نامساعد ماحول میں بھی حکومت دہلی مفاد عامہ کے کچھ کام کرنے میں کامیاب ہورہی ہے تو اسے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کی بڑی حصولیابی سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔اس وقت بجلی کے بلوں پر جو آپ کے پاس دہلی میں ’عام آدمی پارٹی‘کی سرکار کے قیام کے ابتداسے ہی آرہے ہیں ایک نگاہ ڈالئے اور سابقہ کانگریس حکومت میں عام لوگوں پر سرکار کے ذریعہ مسلط کی گئی مہنگائی کا موازنہ کیجئے ۔جو نتیجہ آپ کے سامنے آ ئے گا وہ یہی ہوگا کہ دہلی میں مدتوں سے اقتدار پر قابض کانگریس پارٹی کی ساری مہربانیاں صرف سرمایہ داروں کیلئے مخصوص ہوتی جارہی تھیں ، اس کے برعکس عام آدمی پارٹی کے اقدامات وعدوں اور ایجنڈ و ں میں حاشیے پر کھڑے عام باشندوں کے مفادات نمایاں تھے۔ دہلی کے عام لوگوں نے شدت سے اس کو محسوس کیا اور اسی جماعت کے ساتھ کھڑے ہوگئے جو ان کے مفادات کیلئے ساری طاقتوں سے لوہا لینے کا عزم کئے ہوئی تھی۔ایک سال بعد ایک بار پھرکجریوال سرکار نے دارالحکومت میں تمباکو، گٹکھا، پان مسالہ یا کوئی بھی چبانے والے تمباکو کی مصنوعات فروخت کرنے، رکھنے یا بنانے پر اگلے ایک سال تک پابندی لگا دی ہے،دہلی کے فوڈ سیفٹی کمشنر نے اس سلسلے میں نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔13اپریل کے اس نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ عوام کی صحت کے پیش نظر عوامی مفاد میں اگلے ایک سال کیلئے یہ پابندی عائد کی جارہی ہے۔
البتہ دہلی ہائی کورٹ میں معاملہ چل رہا ہے اور اگلی تاریخ جو لا ئی میں ہے،عبوری پابندی بھی برقرار ہے،ایسے میں یہ صرف گزشتہ سال جاری ہوئے نوٹیفکیشن کی ایک سال کی اور توسیع ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس میں حکومت دہلی اوردہلی کے عوام کس قدر کامیاب ہوپاتے ہیں۔ویسے پیسہ، پاور اور اقتد ا ر نے ہمیشہ ہی قانون کو کھلونا سمجھ کر اپنے پیروں کی ٹھوکروں میں رکھا ہے۔تمباکو مصنوعات جیسے زہر سے وابستہ کمپنیوں اورتاجروں کے پاس پیسہ ،پاوردونوں چیزیں موجود ہیں اورانہیں مرکز کا آشیرواد بھی حاصل ہے، اس سے یہ تصور غالب ہوجاتا ہے کہ شاید یہ طاقتیں عدالت میں دہلی حکومت کیخلاف مقدمہ جیت لیں۔مگر یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ عدالتوں سے اوپر ایک عدالت عوام کی بھی ہے جوصاف طورپر یہ دیکھ رہی کہ تمباکو پر پابندی کا ایجنڈاان کیلئے کس قدر سودمند اور فائدے کاسودا ثابت ہوگا۔تمباکو قاتل ہے،زہر ہے ،اس سے فرد ہی نہیں ،بلکہ پوراکنبہ اور سماج تبا ہ ہوجا تا ہے۔
قارئین!شاید آپ کو یاد ہو کہ گزشتہ سال اسی گٹکھا کی وجہ سے کجریوال حکومت نے دہلی ڈائیلاگ کمیشن (ڈی ڈی سی) کے سیکریٹری کو برطرف کردیاتھا۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی (آپ) کی حکومت نے انڈین پوسٹ اینڈ ٹیلی کام سروس سے تین سال کے لیے ڈیپوٹیشن پرآنے والے افسر آشیش جوشی کو 9 ماہ کے اندر ہی واپس بھیج دیا تھا۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ آشیش جوشی نے تسلیم کیا تھا کہ وہ گٹکا کھاتے ہیں۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہاں قول وعمل کے تضاد کی پالیسی دیکھنے کو نہیں ملتی،بلکہ اپنے ہر وعدے کو عملی طورپر پوراکرنے کی چاہت کا پتہ ملتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی یاکانگریس عوام کو گمراہ کرکے عام آدمی پارٹی سرکار کیخلاف مشتعل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ۔ ور نہ جس طرح سے آر ایس ایس نواز ’’عام آدمی سینا‘‘ کے شدت پسندوں نے کجریوال پر سیاہی یا جوتے پھینک کر عوام کو مشتعل کرنے کی سازش کی تھی وہ کامیاب ہوچکی ہوتی اوراسی طرح دہلی میں ٹریفک نظام اورآلودگی پر قابو پانے کیلئے عام آدمی پارٹی سرکار کی جا نب سے شروع کئے گئے جفت وطاق فارمولہ کو بھی ناکام بنایا چاکا ہو تا ۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا