English   /   Kannada   /   Nawayathi

دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان

share with us

ایک طرف آپ ایک مرشد روحانی اور عالم ربانی ہیں، اصلاح نفس، تزکیہ باطن، سلوک واحسان اور مردہ دلوں کی مسیحائی آپ کو ورثہ میں ملی، اور آپ درد وسوز اور فکر امروز کے ساتھ خانقاہ رحمانی کی سجادہ نشینی کی نازک ذمہ داری کو نبھا رہے ہیں، تو دوسری طرف آپ آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کے پلیٹ فارم سے اپنے عنفوان شباب سے ہی مختلف حیثیتوں سے وابستہ رہے ، اپنے بزرگوں اور ساتھ والوں کے ساتھ راہ نوردی، اور دست پیمائی میں سب سے آگے آگے قدم رکھتے ہیں، بورڈ کے رکن تاسیسی رہے ہوں، یا سکریٹری یا کار گزار جنرل سکریٹری اور اب جنرل سیکریٹری ہر حیثیت میں ایک بالغ نظر، دور اندیش ،بیدار مغز، معاملہ فہم اور مدبر کے روپ میں نظر آتے ہیں، چاھے آئین ہند کی دفعہ 44کے حوالے سے یونیفارم سول کوڈ کی بات ہو، یا بنگلہ دیشی شہریت کا ہنگامہ کھڑے کرنے کا ہو، یا نرمل کنونٹ ہائیر سکینڈری اسکول (مدھیہ پردیش) کے گیارہویں جماعت کے طالب علم کا مسئلہ ہو ،یا دینی مدارس کے تحفظ کا، آپ ہر جگہ ڈٹ کر اور حکومت کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے ، لیکن جب بات غیرت وحمیت اور کلمہ حق کی ہو تو وہ چیلنج بھی کرتے ہیں اور گرجتے اور برستے بھی ہیں، ان لوگوں کی طرح نہیں جن کی تحریر و تقریر منطق سے سلجھی ہوئی، لغت کے بکھیروں میں الجھا ہوا ہوتا ہے ، اور بتان مصلحت کے پجاری کی طرح جبہ ودستار سجائے ہوئے ، سیاسی میدان میں اپنے سیکو لر شبیہ کو قائم و دائم رکھتے ہوئے اور خادم قوم اور ناموس رسالت کے القاب لگا کر اپنے مفاد کے تحفظ اور سماج میں اپنا قد اپنے بڑوں کے قد سے اونچا کرنے کے لیے ایسا طرز عمل اختیار کرتے ہیں، جنہیں کم از کم کسی بھی دور میں قوم کے مفاد میں درست یا مناسب قرار دینا کسی بڑی بھول سے کم نہیں، چونکہ ایسے لوگ اپنے انا کی تسکین کے لیے ہر ایسے اقدام کو اپنا حق سمجھ کر ان کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں، اور ان کے ہر غلط کام کو بھی مصلحت کی چادر میں لپیٹ کر قوم کو باور کراتے ہیں کہ یہ وقت کا تقاضہ ہے ۔
ظاہر ہے کہ سماج میں ایسے لوگ نہ تو خود اپنے لیے کار آمد ہوتے ہیں، اور نہ ہی سماج کے مفاد کے لیے معاون ہوتے ہیں، بلکہ اس کے بر خلاف ان کی غیر اخلاقی اور بھونڈی حرکت، بے جا مصلحت پسندی قوم کے مفاد کو مصلحت کے حسین تخیل کے وادی میں قربان کردینے کے مترادف ہے بلکہ قوم کے مفاد کو اس طرح مٹادیتے ہیں جیسے حرف غلط، اس لیے ایسے افراد اور ان کی تحریر و تقریر سے خود کو بچائے رکھنا، وقت کا ایک اہم تقاضہ ہے ۔ورنہ تاریخ تو میر صادق اور میر جعفر سے خالی نہیں رہی ہے ، اس لیے آج بھی ہماری علماء برادری میں کچھ ایسے چہرے نظر آرہے ہیں، پھر اس میں تعجب کی کیا بات ہے ، ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ ان کی منافقت اور انا پرستی اور بے جا مصلحت پرستی خود ا نہیں ذلت ورسوائی کی دلدل میں پھنسا دے گی، اور قوم کے جرأت مندانہ قائد کی جرأت اظہار کو تاریخ کے سنہرے اوراق میں آب زر سے لکھے گا ، اور ان کے کارناموں کو ہمیشہ اپنے لیے مشعل راہ سمجھے گا، حضرت مولانا رحمانی کا شمار ان قائدوں میں ہوتا ہے ، جنہوں نے ہمیشہ پوری بے باکی کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی رہبری اور رہنمائی کرتے رہے ، مصلحت پسندی اور بے جا مصلحت کوشی سے دور رہے ، انہوں نے حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ہمیشہ بے باکانہ کوشش کی، ان کے یہاں تضاد، تذبذب، خوف کی نفسیات اور بے جامصلحت پرستی نہیں پائی جاتی، آپ ایک بے باک اور بصیرت مند قائد ہیں، اس لیے ارریہ بہار کے کچہری میدان میں مورخہ 29 نومبر 1992کو ایک بڑے مجمع کے سامنے بنگلہ دیشی شہریت کا جب ہنگامہ برپا کیا گیا اور حکومت وقت نے بہار اور جھارکھنڈ کے 48000 لوگوں کی فہرست تیار کی تھی، جو سب کے سب اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی مسلمان تھے تو آپ نے حکومت سے واضح اور جرأت مندانہ الفاظ میں کہا تھا کہ 146146یہاں کوئی بنگلہ دیشی مسلمان نہیں ہے ، ہاں! ایک پاکستانی ہے ، جس کا نام لال کرشن اڈوانی ہے ، جو پاکستان سے آیا ہے ۔145145
مولانا کے اس جرآت مندانہ گرج سے ہی بنگلہ دیشی دراندازی کا ہنگامہ پس پشت چلا گیا اور وہ فہرست بھی گم ہوگئی۔ اور جسٹس کاٹجو کے اس ریمارک پر جو داڑھی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں طالبان کو فروغ دینا نہیں چاھتے ، "We do not want to have tailibans in country مولانا نے اس وقت کئی مضامین لکھے تھے ، اور حکومت کے تمام اہم عہدیداروں کے نام خطوط جاری کیے تھے ، اور وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ سے آنکھوں سے آنکھیں ملاکر کہا تھا :146146میری اور آپ کی داڑھی مذہبی ہے ، اس لیے وقت بتا دیجئے کہ پہلے آپ کی داڑھی صاف ہوگی پھر میری،اور اس کے بعد تمام مذہبی داڑھی ۔145145
مولانا کے اس صاف اور دوٹوک لہجہ کی وجہ سے جسٹس مارکنڈے کاٹجو کومعافی مانگنی پڑی۔ 
اسی طرح 2001 ء میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے کارگل جنگ کے بعد ملک کے حفاظتی انتظام کے لیے چار مرکزی وزراء پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی ۔ 10ماہ کی طویل چھان بین کے بعد جو رپورٹ دی اس میں ہندوستانی مدارس کے بارے میں شکوک وشبھات پیش کیا تھا تو مولانا فورا متحرک ہوئے اور حکومت ہند کے ذمہ داروں کو بتایا کہ جو رپورٹ مدارس اسلامیہ کے تعلق سے پیش کی گئی ہے وہ درست نہیں، اسی طرح 2009 میں وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے زمانہ حکومت میں ٰایک قانون رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ یعنی 146146مفت لازمی تعلیم کا قانونی حق145145 پاس ہورہا تھا، اس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ 6سال سے 14 سال تک کے بچوں کو ایسے تعلیمی ادارہ میں تعلیم حاصل کرنا لازم تھا، جو حکومت کے زیر انتظام چل رہے ہوں، مولانا نے اس تعلیمی ایکٹ سے اتفاق نہیں کیا، اور کہا کہ اس قانون کی زد دینی مدارس پر پڑتی ہے ، جو درست نہیں، اور اس کے خلاف آپ نے ملک گیر سطح پر ایک مہم چلائی اور پوری مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہے اور بال�آخر حکومت کو مجبور ہونا پڑا اور پارلیمنٹ سے ایکٹ میں ترمیم کرنی پڑی، اس وقت کے مرکزی وزیر قانون کپل سبل نے ایک بیان میں مولانا کے اقدام کا اعتراف کیا، اور کہا :146146اگرچہ میں قانون داں ہوں، مگر قانون نافذ ہونے کے بعد اس کے سر زمین پر کیا اثر ات مرتب ہوں گے اسے مولانا رحمانی زیادہ سمجھتے ہیں۔145145 اور اب مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سیکریٹری کاعہدہ سنبھالنے کے بعد امید کی جانی چاھیے کہ ان کی قیادت مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تاریخ میں ایک تابناک باب کا اضافہ کرے گی۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا