English   /   Kannada   /   Nawayathi

پیلی بھیت، ہاشم پورہ، انصاف اور ظلم کی کہانی

share with us

پیلی بھیت فرضی انکاؤنٹر ظلم و زیادتی اور قتل و استبداد کی ایک دردناک کہانی ضرور ہے لیکن ہاشم پورہ اور ملیانہ قتل عام اس سے بڑا دردناک سانحہ تھا، فرق صرف اتنا ہے کہ پہلا سکھ قوم کے ساتھ وقوع پذیر ہوا جو اقل ترین قوم ہونے کے باوجود منظم، طاقتور مضبوط اور پڑھی لکھی قوم ہے، اور دوسرا واقعہ اس مسلم قوم کے ساتھ پیش آیا جو کثرت و تعداد میں سکھ قوم سے کئی گنا زیادہ تو ہے لیکن انکی طرح منظم، طاقتور اور تعلیم یافتہ نہیں بلکہ غیر منظم، منتشر اور بے سہارا قوم معلوم ہوتی ہے، ہم آپ کے سامنے دونوں واقعات کو مختصر ذکر کرتے ہیں۔

پیلی بھیت فرضی انکاؤنٹر کی دردناک کہانی: 29جون 1991کو اتر پردیش کے سیتار گنج سے 25سکھ زائرین کا جتھہ پٹنہ صاحب ،حضور صاحب اور نانکامتا صاحب کے درشن کے لیے نکلا تھا، 13جولائی کو اس جتھے کو پیلی بھیت آنا تھا۔ لیکن12جولائی کو ہی پیلی بھیت سے پہلے 60-70پولس والوں نے ان کی بس کو گھیر لیا اور انہیں اتار لیا۔ بس میں 13مرد، خواتین اور تین بچے تھے۔پولس نے خواتین ،بچوں اور دو بزرگوں کو چھوڑ دیا لیکن 11نوجوانوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ پولس نے تلوندر نام کے ایک نوجوان کو مار کر ندی میں بہادیا تھا جس کی لاش کبھی نہ مل سکی۔باقی دس سکھوں کو پولس والے دن بھر بس میں شہر گھماتے رہے اور رات میں ان کے ہاتھ باندھ کر تین ٹولیوں میں بانٹ دیا ۔ اور الگ الگ جنگلوں میں لے جا کر گولیوں سے بھون ڈالا۔
ہاشم پورہ، ملیانہ قتل عام: 22 مئی 1987ء دن کے وقت پی اے سی اور آرمی نے ہاشم پورہ کا احاطہ کرکے سرچ آپریشن کا ناٹک رچا اور پچاس مسلمانوں کو ٹرک میں بھر کر پوچھ تاچھ کے لئے تھانہ لے جانے کا بہانہ بنایا، تھانہ لے جانے کی بجائے اتر پردیش کے غازی آباد ضلع میں گنگ ندی کے کنارے لے گئی اور قطار میں کھڑے کرکے گولیاں برسا کر ان کو بے دردی سے قتل کردیا اور وہیں سپرد نہر کردیا گیا، جن میں سے 42 مسلمان ہلاک ہوئے۔ محض چند خوش قسمت افراد ہی زندہ بچ جانے میں کامیاب رہے، اگرچہ ان کو بھی مردہ سمجھ کر سپرد نہر کردیا گیا تھا لیکن ابھی موت ان کا مقدر نہیں تھی۔ 
اس کو مسلمانوں کی نا اہلی کہیں یا قاتلین کی خوش قسمتی کہ بدلہ میں ان ملزمین کو پرموشن اور ترقیات سے نوازا گیا اور 21 مئی 2015 کو دہلی کی تیس ہزاری کوٹ نے 19 میں سے زندہ بچے 16 ملزمین کو یہ کہکر باعزت بری کردیا کہ وکلا یہ الزام ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ مقتولین کو انہیں ملزمین نے قتل کیا ہے۔ 
سانحات دونوں ددردناکی میں یکساں، ایک میں 11 سکھوں کا فرضی انکاؤنٹر اور دوسرے میں 42 مسلمانوں کا قتل عام، 11 سکھوں کے قتل کے الزام میں 47 پولس اہلکاروں کو عمر قید اور جرمانہ کی سزا اور 41 مسلمانوں کے قتل میں ملوث 19 میں سے 16 زندہ بچے ملزمان کو رہائی کے ساتھ پرموشن کی سوغات بھی ۔ حالانکہ سکھوں کی تعداد مسلمانوں سے کئی گنا کم ہے، اور سکھوں کے پاس مسلمانوں کی طرح ملی قیادت اور مذہبی جماعتیں بھی نہیں ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ مسلمانوں سے زیادہ منظم، مضبوط اور مسلمانوں سے زیادہ طاقتور ہیں۔ اس لئے وہ انصاف لینے میں کامیاب رہے اور مسلمانوں میں ایک نہیں بلکہ ایسی بہت سی چیزوں کا فقدان ہے جس کی وجہ سے وہ ناانصافی اور ظلم و زیادتی کا شکار بنے اور بنتے رہتے ہیں 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا