English   /   Kannada   /   Nawayathi

اردو صحافت کی اہمیت

share with us

عالمی پیمانہ پر ایسے کئی مقام آئے، جب صحافت کی بے پناہ طاقت، اس کی عوامی مقبولیت اوراس کی تنقید سے خوف زدہ ہوکر اس پرپابندیاں عاید کی گئیں۔ صحافت نے جیسے جیسے ترقی کی ، ویسے ویسے اس کی مقبولیت، اہمیت اورافادیت بڑھتی گئی اورلوگوں کومتوجہ کرانے میں کامیاب ہوتی گئی اورایک وقت ایسا آیا، جب لوگ صبح آنکھ کھلتے ہی اخبارتلاش کرنے لگے۔ اس طرح صحافت انسانی زندگی کا ایک حصہ بن گئی۔ جس پرمشہورشاعراکبرؔ الٰہ آبادی نے اپنے مخصوص انداز میں طنز بھی کیا تھا:
نہیں اب شیخ صاحب کی وہ عادت
وضو کی اور مناجات سحر کی
مگر ہاں، چائے پی کرحسب دستور
تلاوت کرتے ہیں وہ پا ئنیر کی
اکبرؔ الٰہ آبادی نے طنز کرنے کوتوکردیا، لیکن صحافت کا جادوجب ان کے سرچڑھ کربولنے لگا اوراس کی انقلابی طاقت کا انہیں اندازہ ہوا، تو پھر وہ یہ بھی کہنے پرمجبور ہوئے:
کھینچو نہ کمانوں کو ، نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہوتو اخبار نکالو
اس کا مطلب یہ ہوا کہ صحافت اتنی مؤثر اور طاقتورہے کہ اس کے سامنے تیر، کمان، بندوق اورتوپ بھی بے کارہیں۔ مندرجہ بالا شعر کہتے وقت اکبرؔ الٰہ آبادی کے ذہن میںیقیناًتاریخ کے جانے مانے جرنیل اور اپنے عہد کے عظیم ڈکٹیٹر نیپولین بونا پاٹ کا وہ مشہورمقولہ ہوگا، جس میں اس نے صحافت کی طاقت کے سامنے سرنگوں ہوتے ہوئے کہا تھا کہ :
" I fear three newspapers more than a hundred thousand bayonets"
یعنی’’لاکھوں سنگینوں سے زیادہ میں تین اخبار سے خوف زدہ رہتا ہوں‘‘۔
نیپولین بوناپاٹ کا مندرجہ بالا خوف یقینی طورپر صحافت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس نے ضرور اس بات کومحسوس کیا ہوگا کہ دشمن کی صفوں میں انتشاربرپا کرنے میں توپ اورتفنگ، لاؤ لشکر، تیر، تلوار کے ساتھ ساتھ ہاتھیوں، گھوڑوں اورفوجیوں کی بے پناہ طاقت، صحافت (اخبار) کے سامنے کند ہے۔ جو کام صحافت سے لیا جاسکتا ہے،وہ توپ اوربندوقوں سے بھی نہیں لیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے عظیم مفکر، دانشور، سربراہ، مصلح، سیاستداں اوررہنما اس کی اہمیت کے معترف اورقائل رہے ہیں۔ اس کی سیکڑوں مثالیں عالمی طورپر ہمیں دیکھنے کوملتی ہیں۔ہم پہلے اپنے ہی ملک کی صحافت کی تاریخ کو دیکھیں تواندازہ ہوگا، کہ کیسی کیسی جیّد اورسرکردہ شخصیتوں نے صحافت سے اپنے افکار و اظہار کی ترسیل وابلاغ کے لیے کام لیے۔ مثلاً راجہ رام موہن رائے، مہاتما گاندھی، محمدعلی جوہرؔ ، مولانا ابو الکلام آزاد،ؔ پنڈت نہرو، گوپال کرشن گوکھلے، بال گنگا دھرتلک، سرسیّد احمد خاں، مولانا ظفر علی خاں، ایس.اے. بریلوی، شری رنبیر، محمد باقر، مولاناحسرت موہانی، سردار امرسنگھ ،پنڈت میلا رام وفاؔ ، سوامی پرکاش آنند، لالہ لاجپت رائے، پنڈت کرشن چند موہن، سوامی شردھا نند، لالہ دیش بندھو گپتا، ڈاکٹر ستیہ پال ، منشی گوپی ناتھ امن، صوفی امباپرشاد، پنڈت بانکے دیال شرما، مولانا عبدالماجد دریا آبادی، سرداردیوان سنگھ مفتون، مہاشے کرشن،محمدحسین آزاد، عبدالحلیم شرر، منشی دیا نارائن نگم، لالہ نانک چندناز، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، قاضی عبدالغفار، خواجہ حسن نظامی، شورش کا شمیری، حیات اللہ انصاری، جوشؔ ملیح آبادی، سعادت حسن منٹو، سہیل عظیم آبادی، قرۃ العین حیدر، خواجہ احمدعباس وغیرہ جیسے مشہور لوگوں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک میں ہم جھانکیں توپاتے ہیں کہ اپنے ملک سے کہیں زیادہ دوسرے ملکوں میں ایسی ہزاروں مثالیں موجودہیں۔ ان میں چند نام جوفی الحال میرے ذہن میں آرہے ہیں، وہ ہیں سررچرڈ اسٹیل(Sir Richard Steel)، جوزف ایڈیسن(Joseph Addison)، جوناتھن سوئفٹ(Jonathan Swift)، بابائے صحافت ڈینیل.ڈی فو(Daniel Defoe)وغیرہ ان لوگوں نے صحافت سے جڑکر نہ صرف اپنے گہرے مطالعہ ومشاہدہ اورفکروفلسفہ سے صحافت کا مقام بلند کیا، بلکہ صحافت کواپنے خیالات وافکار کاذریع�ۂ اظہاربناکر اپنی شخصیت اوراپنی فکرسے دنیا کے سامنے اپنی ایک منفرد پہچان بنانے میں کامیاب رہے اورجب انہیں یہ کامیابی مل گئی توپھروہ عملی میدان میں اترے اوربڑے بڑے معرکے سر کیے۔ ہمارے سامنے ایسی بھی مثالیں موجودہیں کہ دنیا کے بڑے بڑے سربراہوں نے حکومت کے بجائے صحافت کوترجیح دی۔یونائٹیڈ اسٹیٹس آف امریکہ(U.S.A.)کے تیسرے صدر ٹامس جیفرسن (Thomas Jafferson) کا ذکراس سلسلے میں کئی جگہ کیا گیاہے۔ اس نے کہا تھا:
’’اگر اس بات کا فیصلہ صرف مجھ پر ہی چھوڑا جائے کہ کیا ہمیں بغیر اخباروں کے حکومت منظور ہے یا کوئی ایسی صورت کہ جس میں اخبارموجود ہوں اورحکومت نہ ہو،تو میں دوسری صورت کے حق میں فیصلہ سنانے میں ایک لمحے کی بھی دیر نہیں کروں گا133‘‘
ٹامس جیفرسن کے اس خیال کے پیچھے یہ احساس ضرور پوشیدہ رہا ہوگاکہ صحافت نہ صرف ملک وقوم کی آئینہ دارہوتی ہے بلکہ سیاسی، سماجی، معاشرتی،ثقافتی، اقتصادی، تہذیبی اورتمدنی قدروں کی ترجمان بھی ہوتی ہے اور چونکہ ترقی یافتہ ملکوں میں رائے عامہّ منظم ہے، اس لیے ان تمام قدروں کی افادیت، رائے عامہّ کے خوف سے بھی ہوتی ہے اورحقیقت بھی یہی ہے کہ رائے عامہّ ہی کسی بھی ملک کی حکومت کی سچی اورکھری پہچان ہے151حکومتیں کتنی ہی مضبوط اور مستحکم کیوں نہ ہوں،ان کا وجود اوران کی بقا عوامی رائے عامہّ پرمنحصر ہوتی ہے اورعوامی رائے عامہّ کوتربیت دینے میں صحافت کا رول اہم ہوتا ہے۔
صحافت کی اہمیت، افادیت اورذمہّ داریوں کا ذکربڑی خوبصورتی سے مولانا محمد ابوالحسن علی ندوی نے مشہورصحافی رضوان احمد کے نام ایک خط مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۸۴ء میں کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’صحافیوں کی ذمہ داری بہت زیادہ اورنازک ہیں۔ ان کے قلم کی ذرا سی لغزش سے بعض اوقات قوموں اورملکوں کے متعلق بڑے بڑے فیصلے ہوجاتے ہیں اور ان کی تحریریں ہزاروں لاکھوں افراد کو صحیح یا غلط خطوط پرسوچنے پر مجبور کردیتی ہیں۔
میرا خیال ہے کہ قلم کی طاقت تلوار سے کہیں زیادہ مؤثر اورکارگر ہوتی ہے اور اس کے پیدا کردہ اثرات کہیں زیادہ دور رس اور دیرپا ہوجاتے ہیں۔‘‘
( مجلہ : بہار اردو ایڈیٹرس کونسل ۱۹۸۴ء صفحہ ۔۲۷ )
صحافت کے سلسلے میں یہ تمام مندرجہ بالا باتیں اس وقت ممکن ہیں جب صحافت اپنی ذمہ داریوں کوپوراکرنے کے لیے بہتر ضابط�ۂ اخلاق، آداب اور احساس بہتری سے سرشار ہو، اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو ملک وقوم کے لیے جہاں صحافت زلزلہ اور انقلاب پیدا کرنے کی مثبت طاقت رکھتی ہے، وہیں اس کے منفی اثرات ملک وقوم کوتباہی کے دہانے تک پہنچادیں گے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا