English   /   Kannada   /   Nawayathi

اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا

share with us

افسوس! :۔ آج عالمی سطح پر ملت اسلامیہ کچھ اسی طرح کے ایک ناگفتہ بہ حادثہ سے ماضی قریب میں دوچار ہوئی جس سے اس کے لاکھوں فرزندان کے ایمانی وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا اورطرفہ تماشہ یہ ہواکہ مسلم عوام ہی کو نہیں بلکہ اکثر خواص کو بھی اس کا احساس تک نہیں رہا کہ ابھی کچھ مدت پہلے ہی ان کو کس طرح کے ایمان سوز حادثہ کا سامنا کرناپڑا تھا ۔
جی ہاں :۔ عالم اسلام اس صدی کے سب سے بڑے المیہ سے ابھی پانچ چھ ماہ قبل دوچار ہوا، لیکن اس کی نزاکت کا احساس بالعموم نہ مسلم ممالک کو ہوا اور نہ اسلامی تنظیموں کو ،نہ عربوں کو نہ عجمیوں کو ،نہ علماء کو نہ خواص کو ،نہ دانشوروں کو ،نہ عمائدین ملت کو، اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس پر نہ عالمی سطح پر غور وخوض کے لیے کوئی کانفرنس ہوئی، نہ ملکی سطح پر ، نہ اس پر اجتماعی طور پر کہیں سرجوڑ کر بیٹھنے کی کوشش ہوئی اور نہ سوشل میڈیامیں اس کو بحث کا موضوع سمجھاگیا۔
واقعہ ابھی نصف سال پہلے کا ہے جس کی آہٹ اب بھی محسوس کی جارہی ہے:۔ قصہ شام میں بشار الاسد کے ناقابل یقین ظلم واستبداد سے تنگ آکر یورپ بالخصوص جرمن ہجرت کرنے والے ہمارے مظلو م شامی بھائیوں کا ہے ، جان بچاتے ہوئے یورپ پہنچنے سے پہلے راستہ میں بحیرہ روم میں کشتی سے اترتے ہوئے جان سے ہاتھ دھوبیٹھنے والے دوہزار آٹھ سو شامی مہاجرین کے دل دہلانے والے مناظرپر تو پوری دنیا میں مسلمانوں نے آنسو بہائے اور اسی قافلہ میں شامل تین سالہ عبداللہ ایلان کی ساحل پر پڑی بے یارومددگار لاش پر تو پوری دنیا چیخ اٹھی ،لیکن دعوتی فریضہ کی حامل مسلم امت اور بصیرت وفراست والی ہماری ایمانی ملت نے ان مضمرات پر ٹھنڈے دل سے غورکرنے کی کوشش نہیں کی جس کے تحت یورپی ممالک انسانی ہمدردی کے نام پران مظلوم مسلمانوں کو اپنے یہاں پناہ دے کر ان کا ایمانی سودا کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے۔
ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ:۔ جب شامی مہاجرین کے لیے یورپ کے متعدد ممالک نے اپنے یہاں پناہ دینے کی پیشکش کی تو پوری مسلم دنیا ان یورپی ممالک کی انسانی ہمدردی اور مظلوموں سے ان کی محبت کی قائل ہوگئی اور خودشام میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو کچھ دیر کے لیے بھول بھی گئی، دوسری طرف خود شام کے پڑوسی مسلم ممالک اور عالم عرب کوامت مسلمہ کوسنے لگی کہ عقیدہ میں اتحاداور ایمان میں اشتراک کے باوجود ان کی عیاشیانہ زندگی نے اپنے ایمانی بھائیوں کو پناہ دینا تو درکنار نظراٹھاکر دیکھنے سے بھی دور رکھا، حالانکہ یہ بات حقیقت کے خلاف تھی ، شام کے پڑوسی عرب اور مسلم ممالک بالخصوص ترکی ،سعودی عرب اور اردن وغیرہ نے ان کو حتی المقدور پناہ دی تھی اور بے کسی وبے بسی کی اس حالت میں بھی ان کا بھرپور خیال رکھاتھا۔
اس پورے تناظر میں اصل قابل غور نکتہ یہ تھاکہ سمندری راستہ سے یورپ ہجرت کرنے والے وہ شامی مسلمان نہیں تھے جن کو ترکی یااردنی سرحدوں میں داخل ہونے سے روکا گیاتھا بلکہ یہ وہ بھولے بھالے مظلوم مسلمان تھے جنھیں ذہنی طور پر اس بات کے لیے پہلے سے بڑے منصوبہ کے تحت آمادہ کیاگیا تھاکہ شام کی تاریک فضاسے نکلنے کے بعد مسلم اور عرب ممالک میں تمہارا کوئی مستقبل نہیں، روشن اورتابناک مستقبل کا خواب تم ان ہی یورپی ممالک میں جاکر اور ہجرت کرکے دیکھ سکتے ہو، اس کے لیے ان سرحدوں میں داخل ہونے کے لیے تمھیں چھوٹ دی گئی ہے اور تم کو واپس کرنے سے یورپی حکام کی طرف سے سرحدی محافظین کو منع بھی کیاگیاہے ۔
اب سوال یہ تھا کہ’’ ان یورپی ممالک کوجن کی اکثریت مسیحیت پر مشتمل تھی ان مظلوم مسلمانوں سے ہمدردی کیوں تھی؟اور وہ ان کے لیے اپنے کو فرش راہ کیوں کئے ہوئے تھے ؟‘‘
اس کا جواب یہ ہے کہ عالمی عیسائی مشنریاں ایک طویل المیعاد ماسٹر پلان کے تحت ان مظلوم مسلمانوں کو یورپی ممالک میں بساکر اپنے خبیث اور ناپاک ارتدادی والحادی منصوبوں کو کامیاب کرنے کا خواب دیکھ رہی تھی اور ان کی اس بے بسی وبے کسی کا استحصال کرتے ہوئے ان کو اپنے یہاں پناہ دینے کے بہانے اسلام سے ہٹاکر مسیحیت میں داخل کرنے کی اپنی دیرینہ خواہش وتمنا کو پورا ہوتے دیکھ رہی تھی، ورنہ کیا بات تھی کہ لیبیا،عراق ،افغانستان،الجزائر اورتیونس وغیرہ سے اس طرح کے مظالم سے بھاگ کر اپنے پڑوسی ممالک میں ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو یورپ بلاکر پناہ دینے کا خیال ان کو نہیں آیا، ہمدردی کا یہ ڈھونگ صرف شامی مسلمانوں کے کے لیے رچایاگیا،اس کی وجہ یہ تھی کہ ان مذکورہ بالا ممالک میں جنگ سے تباہ حال مسلمانوں میں امدادی کاموں کے دوران عیسائی مشنریوں کو سالوں میں اپنے مذموم مقاصدکے حصول یعنی اسلام سے منحرف کرنے اور عیسائیت میں داخل کرنے میں وہ کامیابی نہیں ملی تھی جو ان کو شام کے اندرابھی چند مہینوں میں ملی تھی،اسی کا فوری فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیشہ کے لیے ان شامی مسلمانوں کو ان کے مذہب سے دور کرنے کے خاطر ہی ہزار وں میل دور یورپ میں لے جاکرپناہ دینے اور اس کی آڑ میں اسلام سے منحرف کرنے کا خواب دیکھاگیا۔
یہ خدشات صحیح ثابت ہوئے :۔ ہمارے ان خدشات کے صحیح ہونے کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ صرف ابتدائی تین ماہ میں جرمن ہجرت کرنے والے ایک سو اسیّ(۱۸۰) مسلمانوں نے جرمن کے تین چرچوں میں علی الاعلان اسلام سے دستبرداری یعنی اپنے ارتداد اور عیسائیت کو قبول کرنے کا باضابطہ اعلان کیا، جوشامی مہاجر مسلمان اندرونی طورپر اسلام سے نکل گئے اور غیر شعوری طورپر الحاد کا شکارہوگئے ا ن کی تعداد تو ہزاروں سے متجاوز تھی، اسی کے ساتھ جو سینکڑوں مسلم دوشیزاؤں نے فقر وفاقہ سے تنگ آکر زناکاری کو جرمن میں باقاعدہ اپنے پیشہ بتاکر اپنی عصمت وعزت گنوائی اور بہت سارے یورپی نوجوانوں نے ان سے شادی کرکے ان کے مذہب ودین کا سود اکیا ان کی تعداد بھی ناقابل یقین تھی ،ہمیں ان کی اس کامیاب حکمت عملی کو سمجھنے کے لیے دورجانے کی ضرورت نہیں، ماضی قریب میں الجزائر اور بہت سے دیگر افریقی مسلم ممالک پراٹلی،برطانیہ ،روس اور فرانس کے تسلط کے بعد بڑی منصوبہ بندی سے عربوں کو یورپ ہجرت کرنے پر وہاں کی شہریت دے کر ہمدردی کاجو ڈھونگ رچایاگیاتھا اس کا نتیجہ اس طرح سامنے آیا کہ شمالی، مشرقی اور مغربی ووسطی افریقہ کے اکثر ممالک میں مسیحیت نے جڑپکڑناشروع کیا ،اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ اس وقت فرانس میں موجودمسلمانوں کی اس مہاجر نسل کی بڑی تعداد کااب دور دور تک اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور متعدد تبلیغی وفودنے فرانس میں اپنا وقت لگا کر واپسی میں جو کارگزاری سنائی وہ رونگٹے کھڑے کردینے والی تھی کہ پیرس وآس پاس میں موجود10% سے زائد موجود ہ عیسائی آبادی کا سلسلۂ نسب صرف دوتین پشتوں پہلے تک بھی مسلمانوں سے تھا،ہجرت کے نام پر یہاں ان کی اس منتقلی نے ہی ان کو عیسائیت میں خاموشی سے مدغم کردیا۔
کوئی اندازہ کرسکتاہے ان کی منصوبہ بندی کا:۔ ایک سال قبل کی بات ہے ، ہمارے دوست مولانا ایوب انصاری ندوی کی دعوت پر میسورجانے کا اتفاق ہوا، وہاں قیام کے دوران انھوں نے ہمیں نئی آباد ہونے والی ایک مسلم کالونی کی سیرکرائی اس جگہ سینکڑوں کی تعداد میں پلاٹ بنے ہوئے تھے اور اس کے درمیان صرف ایک مکان تعمیر ہواتھا، ہم نے مولانا سے پوچھا توانہوں نے بتایاکہ اس خالص مسلم کالونی میں چرچ والوں نے ایک پلاٹ خرید کر یہاں آباد ہونے والے مسلمانوں کے لیے پیشگی ایک مشنری اسکول تعمیر کرلیاہے اور یہ تعمیرشدہ عمارت اسی اسکول کی ہے ، ظاہر بات ہے کہ جب گھر بننے شروع ہوں گے تو اپنے بچوں کو اعلیٰ عصری تعلیم سے آراستہ کرانے کے لیے کم خرچ میں ایک معیاری اسکول پہلے سے موجود دیکھ کر مسلمان اپنے جگر کے ٹکڑوں کو یہاں داخل کریں گے بالفا ظ دیگر سادہ لوح ہمارے بھائی ان کی عیاری کو نہ سمجھ کر عصری تعلیم کے میدان میں شرکیہ اعمال کے ساتھ اپنے نونہالوں کو آگے بڑھتے دیکھیں گے۔
ہمارے شمالی ساحلی ضلع کے ایک گاؤں میں معذور بچوں کے لیے عیسائی مشنری کی طرف سے ایک معیاری اسکول ابھی چند سال پہلے قائم ہوا ہے ، جہاں یورپ سے ایک معلمہ کو بطور خاص انھیں تربیت دینے اورانگریزی پڑھانے کے لیے بلایاگیاہے، اپنے گھروں میں اپنے معذور بچوں سے پریشان حال والدین ان کو ان کے حوالے کرکے مطمئن ہیں کہ کچھ نہ ہونے سے تو غنیمت ہے، اور ہمارا بچہ ایک آدھ جملہ بھی بولنے اور سیکھنے لگے تو ہماری قسمت ہے،لیکن شاید انھیں پتہ نہیں ہے کہ ان معصوم بچوں کی مجبوریوں اورمعذوریوں کا استحصال کرتے ہوئے ان کو تعلیم دلانے کے بہانے ان کے دل میں موجود قیمتی ایمانی سرمایہ کو وہ کھوکھلابھی کرتے جارہے ہیں۔
کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ:۔ عیسائیت اور استعمار کی پوری تاریخ اس سے بھری پڑی ہے کہ مسلم ممالک پر ان کے سیاسی قبضہ کے پس پشت ہمیشہ ان کا بنیادی مقصدیہ رہاہے کہ اپنی حکمرانی کے دوران مسلمانوں کو ان کے دین سے منحرف کرکے عیسائیت میں داخل کیاجائے، اس کے لیے انھوں نے انسانی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے رفاہی خدمات کے بہانے ان کا استحصال کرنے کی کوششیں کیں ، ہسپتالوں کا قیام ،مریضوں کی مدد ،تعلیمی اداروں کی تأسیس اور اس میں کم فیس پر اعلیٰ تعلیم کا نظم کرکے وہ مسلمانوں سے قریب ہوتے گئے اور خاموشی سے اپناالحادی وتشکیکی زہربھی نئی معصوم مسلم نسل کے ذہنوں میں گھولتے گئے، ان کامقصد صرف یہ تھا کہ مسلمانوں کا توحید اور عقیدہ خالص سے اس طرح غیر محسوس طریقہ پر رشتہ کاٹ دیاجائے کہ اندرون سے اسلام پر ان کی خود اعتمادی ختم ہو اور حمیتِ اسلامی اور غیرتِ دینی سے ان کا دور دور تک واسطہ بھی نہ رہے ، اس سلسلہ میں ان کو سب سے زیادہ کامیابی افریقی مسلم ممالک کی معاشی بدحالی سے ملی اور یہی ممالک ان کے کامیاب تجربہ کی اولین منزل قرار پائی ، چونکہ مسلمانوں میں نصف صدی سے قبل تعلیمی بیداری کا آغاز ہورہاتھا اوران کو اپنی ناخواندگی کا شدت سے احساس بھی ہورہاتھا اس لیے مسلمانوں میں پائے جانے والے اس تعلیمی رجحان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جگہ جگہ مشنری تعلیمی ادارے قائم کئے گئے اور سادگی میں مسلمانوں نے اعلیٰ عصری تعلیم کے چکر میں تیزی سے ان اسکولوں کا اس طرح رخ کرنا شروع کیا کہ ایمان کا سودا کرتے ہوئے چند انگریزی جملے تو بولنے آگئے لیکن تعلیمی ترقی کے نام سے اسلام کے متعلق شکوک وشبہات نے بھی خاموشی سے ایک بڑی تعداد کو اپنا شکار کرنا شروع کیا، آج عالمی سطح پرمسلمانوں کی سیاسی قیادت کی اکثریت جن سے ہمیں ملت کی سوداگری کا شکوہ ہے ان ہی مشنری اسکولوں ا ورکالجس کی تعلیم یافتہ ہے جو حمیتِ اسلامی اور غیرتِ دینی کا سوداکرکے مغربی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے اپنی روشن خیالی اور دانشوری کا دعویٰ بھی کررہے ہیں۔
موجودہ صورت حال میں ہماری ذمہ داری :۔ مذکورہ تمام باتوں کے تجزیہ سے جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ عصری تعلیم کی فراہمی، قرضوں کی سہولت ،تکالیف اور مصیبتوں کے موقع پر کی جانے والے امداد باہمی وغیرہ کے نام سے اسلام دشمن طاقتیں بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ نہ صرف بھولے بھالے مسلمانوں کااخلاقی استحصال کررہے ہیں بلکہ اس کے عوض ان کے ایمان کا سودا بھی کیاجارہاہے ، اس نازک صورت حال میں اب ہمارا یہ فرض بن جاتاہے کہ جن ذرائع اور وسائل کو اختیار کرکے مسلم امت کی ایمانی بنیادوں کو کھوکھلاکرنے کی کوششیں ہورہی ہیں اور اس کی مضبوط ومستحکم عمارتوں میں سوراخ کیا جارہاہے ہمدردی کے ان ہی انسانی وسائل کو ہم بھی اختیار کریں اور اسی کے ذریعہ ایمان کو بچانے کی فکر کریں ، خود ایسی تعلیمی درسگاہوں کو قائم کریں جس میں اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اسلام وایمان کا نقش نئی نسل کے دلوں پرقائم ہوجائے، ایسے ہسپتال قائم کریں جہاں سے انسانی خیر خواہی اور کم خرچ پر بہترین علاج کے ذریعہ نہ صرف مسلمانوں کو ایمان پر باقی رکھاجائے بلکہ غیر مسلم بھائیوں کو بھی اسلام وشریعت سے قریب کیاجائے ، ایسے رفاہی ادارے قائم ہوں جہاں مجبوروں اوربے کسوں کی ضروریات کی تکمیل ہو ، بغیر سود کے ان کو قرضے فراہم کئے جائیں ، غریبوں کی شادیوں کا نظم ہو،حصولِ تعلیم کے لیے ان کو مالی مدد دی جائے اوربے کس وبے بس مسلمانوں کے لیے چھوٹے چھوٹے روزگار کی فراہمی کا سامان کیاجائے ، ورنہ خطرہہے کہ دشمن ان ہی وسائل کے ذریعہ ایک دن ایسے موڑ پرہمارے بے کس وبے بس مسلم بھائیوں کو پہنچادے گا کہ وہ اپنے اخلاق سے ہی نہیں بلکہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے ، غیر شعوری طور پر اندرون سے توحید کی دولت ان کے ہاتھ سے چلی جائے گی اور ہدایت پر استقامت کی عظیم نعمت سے وہ محروم ہوجائیں گے،اگر اس نازک صورتحال کی نزاکت کا امت نے احساس نہیں کیا اور اس کی طرف سے اس کے تدارک کی کوششیں نہیں ہوئیں ،ملت کا خوشحال طبقہ اپنے برادرانِ ملت کو ایمان پر باقی رکھنے کے لیے اس طرح کے رفاہی میدانوں میں نہیں آیااور اس میدان میں کام کرسکنے والوں کو خواص امت وعلماء نے متوجہ نہیں کیاتو آنے والی مسلم نسل ہماری اس کوتاہی اور اپنے فرضِ منصبی سے غفلت کو کبھی معاف نہیں کرے گی اور ہمارے اس پچھتاوے پرشاید ایک دن ہمیں خون کے آنسوبھی رونے پڑیں گے ، اس لیے کہ ان مشنری رفاہی اداروں سے کل تک صرف اخلاق سوزی وحیا سوزی کا کام ہورہاتھا اب ایمان سوزی کابھی کام ہورہاہے اور ایمان وتوحید کی نعمت ہی ہم مسلمانوں کا وہ قیمتی وگراں قدر سرمایہ ہے جس کے وجود کے بغیرلمحہ بھر کے لیے ہم زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتیورنہ بقول شاعر ؂
’’ لمحوں نے خطاکی تھی ، ن صدیوں نے سزاپائی ‘‘ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا