English   /   Kannada   /   Nawayathi

ذوالنورین رہبرؔ

share with us

لکھنؤ میں میرے قیام کو تقریباً ۱۶؍ برس ہونے کو آئے ہیں، اس عرصہ دراز میں یہاں کے درجنوں اکابرین، شعراء و ادباء کومیں نے قریب سے دیکھا و سنا ہے۔مگر متاثر گنی چنی شخصیات سے ہوا ہوں۔(حالانکہ میں ذرا کم ہی کسی سے متاثر ہوتا ہوں اور مرعوب تو کبھی کسی سے نہیں ہوتا)۔ لکھنؤ کی ادبی نشستوں کی رونق ذوالنورین رہبرؔ کا نام نامی بھی ان چند شخصیات میں شامل ہے جنہوں نے مجھے متاثر کیا۔ہر شخصیت کا اپنا حسن ہوتا ہے، کسی کا کسی سے موازنہ نہیں ہوسکتا۔یوں تو رہبرؔ صاحب میں کئی خوبیاں تھیں، مگر میرے لئے ان کے مزاج کی سادگی میں زیادہ کشش تھی۔بقول حضرت جگر ؔ مرادآبادی ؂
سبھی انداز حسن پیارے ہیں
ہم مگر سادگی کے مارے ہیں
یہ سادگی ان کے لباس، ملنے جلنے اور بات چیت کے انداز سے لیکر ان کے رہن سہن، اُٹھنے بیٹھنے، طور طریقہ سب سے ظاہر ہوتی تھی۔
رہبر ؔ صاحب کا شعری ذوق نہایت بالیدہ تھالیکن وہ شاعر کم گو تھے۔مشاعروں میں شرکت سے احتراز کرتے تھے۔مگر کبھی کبھی اخبار و رسائل میں آپ کا کلام نظر آجاتا تھا۔رہبرؔ صاحب کا شعری مجموعہ ’’روح غزل‘‘ بھائی رضوان فاروقی کی کوششوں سے رہبرؔ صاحب کی حیات ہی میں منظر عام پر آچکا ہے۔ اور جس کی رسم اجراء بھی ہوٹل میزبان میں بڑی دھوم دھام سے کی گئی تھی۔ یہی کتاب رضوان فاروقی اور ناچیزکی پہلی ملاقات کا باعث بنی۔ شاید یہی وجہ سے کہ اس کتاب اور صاحب کتاب سے مجھے کچھ زیادہ ہی تعلق ہے۔ 
اس وقت غزلوں کا وہی خوبصورت مجموعہ ’’روحِ غزل‘‘ راقم السطور کے سامنے ہے ۔ شاید تنقید نگار سے اس کا منصب اس نام پر کچھ کہلوادے، لیکن سچ تویہی ہے کہ کسی دیوان کا نام رُوحِ غزل ہو اور پھر اس کے سرِورق پر یہ شعر درج ہو ؂ 
وہ عجوبہ جسے سب تاج محل کہتے ہیں
ہم محبت سے اُسے روحِ غزل کہتے ہیں
تو غزل کی چاشنی کا احساس اس کا سرِورق ہی سے ہوجاتا ہے اور پھر یہ مجموعہ تو چاشنی کے اس احساس کو آخر دم تک قائم و دائم رکھتا ہے۔
برسوں کی ریاضت، فراست، علم و اِدراک کے بعد شاعری اپنا رنگ دکھاتی ہے ٹھیک اسی طرح جیسے کہ حنا پتھر پر گھس جانے کے بعد اپنا اصل رنگ دکھاتی ہے اور پھر جب ظاہر ہوتی ہے تو کئی دستِ مرمریں کو رنگین کر جاتی ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب شاعری کی آتما اس کے بھیتر سے باہر نکل کر آئے۔ چنانچہ اچھا کلام بھی اسی وقت قابل قدر اور قابل توجہ ہوتا ہے جب اس میں خیال ، جمال، افکار، مضمون، اسرار اور ابہام کے ساتھ عصرِ حاضر کی زمین، موسم، حالات اور مسائل حاضر غائب کی صورت میں موجود ہوں۔ چنانچہ تب ہی شاعری کو پلکوں پر بٹھایا جاتا ہے یا وہ خود آکر پلکوں پر بیٹھ جاتی ہے اور پھر ذہین و متین قاری اس کے سینکڑوں رنگوں والے پیکر کی طرف دیکھنے، محسوس کرنے اور اس پر پروانوں کی طرح فدا ہونے لگتے ہیں اور پھر اس کا ایک ایک لفظ ذہنوں میں محفوظ ہوجاتا ہے۔ ورنہ اتوار ، پیر اور منگل کی لمحاتی شاعری دھوبی کی کاپی کی طرح ہوتی جاتی ہے جس میں مختلف قسم کے میلے کچیلے کپڑوں کے سوائے کچھ نہیں ہوتا۔شہرِ نگاراں لکھنؤ میں ہی آپ کو ایسے بہت سے شاعر نظر آجائیں گے، بس ضرورت ہے تو صرف نظریں دوڑانے کی!۔ لیکنذوالنورین رہبرؔ صاحب کی شاعری ان کے برسوں کی ریاضت کا ایک ایسا گلستان ہے جس میں ہمہ اقسام کے پھول اپنے رنگوں اور اپنی شکلوں کے ساتھ نہ صرف دکھائی دیتے ہیں بلکہ اپنی مہک سے زمینوں کو تازگی بھی عطا کرتے ہیں۔ ذوالنورین رہبر ویسے تو چومکھے شاعر ہیں یعنی ایک جانب نعت و منقبت کے گلہائے عقیدت سجانے جانتے ہیں تو دوسری جانب انہیں نظم و قطعات کے جام و مینا چھلکانے آتے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ انہیں غزل کے گیسو سنوارنا بھی بخوبی آتا ہے۔
دراصل رہبرؔ صاحب کی شاعری ابتدا سے ہی وسیع امکانات کی نشاندہی کرتی رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ اپنی شعری قدروقیمت کا تعین اور اعتراف کراتے رہے ہیں، کبھی نعتیہ شعری مجموعہ ’’فیضانِ مدینہ‘‘ کے ذریعہ، کبھی ’’نشانِ میرؔ ایوارڈ‘‘، کبھی ڈاکٹر کاظم علی مرزا قمر لکھنوی ایوارڈ‘‘، کبھی ’’شاعرِ نعت و مدح صحابہ ایوارڈ‘‘تو کبھی مولانا عبدالحلیم فاروقیؔ کے نام سے منسوب نعت و منقبت ایوارڈ کی شکل میں۔درحقیقت رہبرؔ صاحب کے وجود میں تخلیقی صلاحیتیں آغازِجوانی سے انگڑائیاں لے رہی ہیں اور ایک نہ تھکنے والا تخلیقی عمل مسلسل جاری ہے۔ان کے ہاں اگر ایک جانب مطالع کی وسعت اور عمیق مشاہدہ ہے تو دوسری جانب زندگی کی صداقت آمیز تجربات کی عکاسی بھی ہے۔مثلاً ؂
اصولوں سے اگر اسلاف کے ہٹتے نہ ہم رہبرؔ 
تو جتنی آج ہے اتنی پریشانی نہیں ہوتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی باعث تو اکثر آنکھیں اپنی بھیگی رہتی ہیں
جسے دل چاہتا ہے وہ کبھی ہنس کر نہیں ملتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حق گوئی کے جہاں میں طرفدار اب نہیں
جیسے زمیں پہ صاحبِ کردار اب نہیں
ذوالنورین رہبر کی غزلیں پڑھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ ان کی غزلوں میں ایک تازگی و ندرت کا احساس ملتا ہے ، ان کے موضوعات کے وسیع آنگن میں مختلف زمینوں کی بو باس نہ صرف محسوس کی جا سکتی ہے بلکہ انہیں دیکھا بھی جا سکتا ہے۔ ان کی شاعری پر مذہب، سماج اور ہمارے عہد کے الجھے ہوئے کج مج مسائل اور شہروں کے الٹتے پلٹتے اور بے نقاب ہوتے ہوئے مناظر بھی ان کے قارئین کو نظر آتے ہیں۔ملاحظہ فرمائیں۔
سارے رشتے ٹوٹ کر جب منتشر ہو جائیں گے
بس خدا کی معرفت کا راستہ رہ جائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ستم ہے روایتوں کے چراغ
عہد نو میں بجھائے جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنی یادیں ہیں ان سے وابستہ
گھر جو کچے گرائے جاتے ہیں
ذوالنورین رہبرؔ کی شاعری نہ رعونت میں لت پت لفظوں ڈھیر کی طرح ہے اور نہ پیرفرتور کی کہانیوں جیسی ہے جس میں پچپچے کھانستے کھنکارتے پامال الفاظ کے چیونگم موجود ہوتے ہیں بلکہ ذوالنورین رہبر ؔ کی شاعری تو جمشید کے پیالے کی طرح ہے جس میں کئی مناظر ڈوبتے ابھرتے رہتے ہیں اور ان ڈوبتے ابھرتے ہوئے مناظر میں زمین کی گردشیں ، اس کے ادلتے بدلتے موسم، رنگ اور تیز و تند ہواؤں کے چکراتے ہوئے بگولوں کے ساتھ طاغوتی ہواؤں کے وحشیانہ رقص بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ علامتوں، اشاروں ، کنایوں اور استعاروں کا ہجوم بھی ستاروں کی طرح موجود ہوتا ہے۔ ذوالنورین رہبر کے بطون میں شاعری کے مختلف رنگ پوشیدہ ہیں جو ان کے کلام میں اپنے مزاج اور اپنی آوازوں کے ساتھ قارئین کے سامنے حاضر ہوتے رہتے ہیں۔
امن کے شہر میں کچھ ایسے بھی منظر دیکھے
آستینوں سے نکلتے ہوئے خنجر دیکھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزیز واقرباء نے اس قدر پہونچائی ہیں چوٹیں
کہ جب چلتی ہے پُروائی تو دکھتا ہے بدن اپنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر ڈوبتے سورج کی پوجا کون کرتا ہے
ہر اک انسان کو خورشید نو درکار ہوتا ہے
القصّہ مختصر! ’’روح غزل ‘‘اسم بامسمیٰ شعری انتخاب ہے۔رہبرؔ صاحب نے جس خوبی، چابکدستی ، جراء ت اور صاف گوئی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے واقعی وہ قابلِ قدر ہے۔میری دانست میں شاعری کا جواب و لہجہ اپنی شناخت یا پہچان بناتا ہے۔ اس کی تمام تر کیفیات اس مجموعہ میں مل جاتی ہیں۔ اس کلاسیکی اقدار اور عصری افکار سے مملو شعری مجموعہ کی اشاعت پر میں اس کے تخلیق کار جناب ذوالنورین رہبرؔ صاحب اور مرتب جناب رضوان احمد فاروقی صاحب کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ اس متنوع رنگارنگ شاعری کی خوب پذیرائی ہوگی۔’’روحِ غزل‘‘ کے ۳؍خوبصورت اشعار پہ اپنی بات ختم کرتا ہوں ؂
میر جعفر، میر صادق آج زندہ ہیں یہاں
کیسے کیسے مفسدوں کو مہرباں سمجھا تھا میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راہ پُرخار ہے دامن کو بچائیں کیسے
آپ کے پاس جو ہم آئیں تو آئیں کیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوگئے اہلِ قلم فن کے خریداروں میں
آبرو اپنے بزرگوں کی بچائیں کیسے

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا