English   /   Kannada   /   Nawayathi

آپ اپنی عوام سے ذرا آنکھ ملائیں

share with us

نفرتوں کے سامنے سر جھکتے نہیں، محبت کے پرستار افراد اس ملک کی زینت ہیں اور اس ملک کا باشندہ ہونا اپنے آپ میں ایک فخر کی بات ہے اور سینہ چوڑا ہوجاتاہے اپنے بزرگوں کی روایات اور ان کے طرق کو دیکھ کر دشمن کے سامنے آہنی دیوار بن جانا، محبین کے سامنے مٹی ہوجانا، وہ خوبیاں ہیں جو قابل اتباع اور باعث تقلید ہیں۔ آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد ہندوستانیوں نے کبھی بھی اپنی انا اور اپنے وقار کا سودا نہیں کیا، جانیں گنوائیں، جوانیاں ملک کی خاطر قربان کردیں اور یہ کہتے ہوئے زمین کی گود میں سوگئے کہ (زندہ رہنے کے موسم بہت ہیں مگرجان دینے کی رت روز آتی نہیں۔دھرتی بنی ہے آج دلہن ساتھیو) پنی آرزوؤں، تمناؤں کو پس پشت ڈال کر ملک کی آبرو اور اس کے وقار کی خاطر سب کچھ داو پر لگا لیتے سینہ سپر رہے مگر انا کا سودا نہیں کرتے، تاریخ گواہ ہے کہ آزادی کی مسلسل جد جہد اور آزادی کے بعد جب بھی ہم کسی سے نبرد آزما ہوئے لازوال نقوش ثبت کئے اور آنے والی نسلوں کے لئے قابل تقلید کارنامے انجام دئیے اور ہند کی آبرو پر حرف نہیں آنے دیا۔ 1965 ہو 71ہو یا کارگل کی خوں آشام جنگ، ہمارے نوجوانوں نے پیٹھ نہیں دکھائی اور ہمیشہ فتح کے پرچم لہرائے، آزادی کے بعد اگرچہ ایک مرتبہ چین سے ہزیمت اور شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ گذرے زمانے کی بات ہے۔ اب ملک اسلحہ کے اعتبار سے آلات حرب وضرب کے اعتبار سے دنیا میں اپنا نمایاں مقام رکھتا ہے۔
لیکن ہمارا ملک کچھ ایام سے سیاسی، سماجی، معاشرتی بحران کا شکارہے مگر ان سب چیزوں کے باوجود انا کا سودا کبھی نہیں کیا گیا۔ عظیم جمہوریت میں مسائل کا پیدا ہونا بھی یقینی ہے، ان کے سدباب کے لئے کیا طریقۂ کار اختیار کیا گیا، وہ بھی سب کے سامنے نصف النہار پرچمکنے والے سورج کی طرح روشن ہے مگر ذہن تو اس وقت ہراساں ہوا، قلب کے ٹکڑے تو تب ہوئے، جذبات کو ٹھیس اس وقت لگی، انا کی تسبیح تب ٹوٹی، شرم سے گردن خم ہوگئی جب ہمارے ملک کے ویر اعظم نے پاکستانی جانچ ٹیم کو ہندوستان آمد کی اجازت دی اور 2جنوری کو ہوئے پٹھان کوٹ ائیر بیس حملہ میں عجیب حماقت کا ثبوت پیش کیا گیا، ملزم ہی کو کہا گیا کہ خود کو مجرم ثابت کر، عجیب فلسفہ، ہندوستان کے پاس سب کچھ موجود ہے، اعلی تحقیقاتی ٹیم، نامور ایجنسی، اپنی حیثیت ثابت کرچکے افسران، لیکن پھر پاکستان ایجنسی سے تحقیق کرانا دیوانگی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے اور یہ امید رکھنا کہ وہ ہماری ٹیم کو پاکستان بلائیں گے، تحقیقات کرنے کا موقع فراہم کریں گے، اسے خام خیالی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے پاکستانی جانچ ٹیم نے وہی کیا جو اسے کرنا تھا۔ تحقیق ہو گئی اور ہمارے وزیر اعظم کا خواب، خواب ہی رہا، تعبیر سے خالی۔ انہوں صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ ہندوستان نے یہ ڈرامہ رچا پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے عالمی برادری کو اس کے خلاف بھڑکانے کے لئے پاکستان کی عزت سے کھلواڑ کیا گیا ہمیں تحقیق کرنے کا موقع نہیں ملا، ہمارے ساتھ تعاون نہیں کیا گیا، مجرم پاکستان نہیں، یہ حملہ ہندوستان کا ایک ڈرامہ ہے، اب کہاں ہیں ہمارے وزیر اعظم؟ کیا جواب ہے ان 7نوجوانوں کی ماؤں اور بوڑھے باپوں کے لئے جن کی لاٹھی اس حملہ میں ٹوٹ گئی، جن کا سہاگ اجڑ گیا، کیا آپ ملا پائیں گے ان سے آنکھیں ؟دے پائیں گے ان کو جواب؟ یہ کھیل آخر کیوں؟ یہ ڈرامہ کس لئے؟ کون سی واہ واہی درکار تھی؟ ہندوستانیوں کی انا کے ساتھ سودا کیوں؟ جس ملک کے کرکٹ کھلاڑیوں تک کو اس سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت نہیں، کھیلنے کی اجازت نہیں، وہاں سے جانچ ٹیم کا آنا چہ معنی دارد؟کہاں ہے وہ شخص جو سر کے بدلے سر لانے کی بات کرتا تھا کیا یہی ہے اس کے دعووں کی حقیقت ہے؟کیا دے پائیں گے 17 زخمیوں کو جواب جو 80گھنٹے تک ملک کی حفاظت کے لئے لڑتے رہے اور اپنی جان عزیز کی پرواہ نہیں کی؟ ملک کی آبرو کی خاطر لمحہ بھر بھی کوتاہی کا شکار نہیں ہوئے، کیا یہی صلہ ہے ان کی قربانیوں کا؟ کیا یہی انعام اور ایوارڈ ہے ان کے جذبہ کا، ان کی عظیم خدمت کا؟ ماں کہنا بہت آسان ہے مگر اس کے حقوق کی آدائیگی کھیل نہیں۔ ہمارے وزیر اعظم کی لچر خارجہ پالیسی سب کے سامنے ہے، اب تو مزید پاکستانی سفیر آنکھ دکھا کر کہتے ہیں امن مذاکرات معطل۔ اس کیفیت میں یہ سوال دل پر دستک دے رہا ہے وہ لوگ کہاں جو صرف ’’جے ‘‘ نہ کہنے پر گردنیں اڑانے کے لئے تیارتھے؟ اب توہین پر ان کا رد عمل خاموشی کیوں؟ کیا اس میں عزت خاک میں نہیں ملی؟ اگر جواب ہاں ہے اور یقیناً ہاں ہی ہے تو پھر دورخی پالیسی کیوں؟ اور ملک کا 56انچ کا سینہ رکھنے والا وزیر اعظم کیا ملا پائے گا عوام سے آنکھیں؟ جو اپنے اپ کو ٹھگا ہوا، بیوقوف محسوس کررہی ہے، جو ملک میں غموں سے چور تو ہوتی ہے، بھوک سے تڑپتی اور بلکتی تو ہے، خودکشی تو کرلیتی ہے، مگر ان ہی کی جیبوں سے ترنگے نکلتے ہیں۔ ترنگے کی اس توہین پر ہمارے ملک کے وزیر اعظم کے پاس ہے کوئی جواب جس سے وہ مطمئن کرسکیں؟ غریب بھوکی مگر اپنے ملک سے اس کی آبرو سے محبت رکھنے والی عوام کو کرپائیں گے آپ ان کاسامنا؟ ہمت ہے کارگل کے شہیدوں کے والدین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی؟ دیکھئے ان کے رد عمل کو آپ کو احساس ہو جائے گا اس خطا کے معنی کیا ہیں؟ اور سمجھ میں آجائے گا وطن سے محبت کیا ہوتی ہے؟ اور اس کا تعلق زبان سے نہیں قلب سے ہوتا ہے۔ ملک کا بھرم ساری دنیا کے سامنے توڑنے والے کیا وطن پرست ہو سکتے ہیں؟ باباجی کالا دھن تحریک تو دفن ہوچکی، اب وطن پرستی کی تحریک کا بھی جنازہ اسی نے نکال دیا جو آپ کی نظر میں مسیحا ہے، آئیڈئیل ہے، ملک کا ہیرو ہے، اس کی خارجہ پولیسی کا یہ عالم ہے اورگھر کا حال دیکھو تو 9ریاستیں خشکی کا شکار ہیں جن پر کوئی توجہ نہیں۔ مرتے اور بھوک سے تڑپتے انسانوں کی کوئی فکر نہیں، فکر ہے تو صوبہ جاتی انتخابات کی۔ اگر اس کا احساس کرنا ہو تو سن لیجئے آسام میں انتخابی ریلیاں اور اندازہ کر لیجئے گھر اور باہر وزیر عظم اپنے دوسالہ دور اقتدار میں پوری طرح ناکام رہے ہیں۔ اب بھی وہ عوام سے نگاہ ملا تے ہیں اور بڑے بڑے دعوے اور وعدے کرتے ہیں تو یہ بے حسی نہیں تو اور کیا ہے؟ اب تو صرف یہ دیکھنا ہے کہ آنے والے انتخاب میں عوام انہیں حقائق سے آشنا کرتی ہے یا نہیں؟

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا