English   /   Kannada   /   Nawayathi

نظر لگے نہ کہیں ان کے دست و بازو کو

share with us

ہم نتیش کمار کو مبارک باد دیں گے۔ اور صرف ایک خطرہ کی طرف ان کی توجہ مبذول کرائیں گے کہ بہار سے ملنے والی دوسرے صوبوں کی سرحدیں اور نیپال کی سرحد ان کے مخالفوں کی فیلڈ نہ بننے پائے۔ ان تمام مقامات پر ان پولیس والوں کی ڈیوٹی لگنی چاہئے جنہوں نے شراب نہ پینے کا خلوص سے حلف لیا ہے۔ اور وہ شراب سے نفرت کرتے ہیں۔
کل ایک عجیب منظر دیکھا کہ بہار کے مختلف اسپتالوں میں وہ مریض لائے گئے ہیں جن کو کئی دن سے پابندی کی وجہ سے شراب نہیں ملی۔ اور دکھایا گیا کہ ان کے ہاتھ کانپ رہے ہیں پاؤں کانپ رہے ہیں۔ پیٹ پھول گئے ہیں اور نظر آنا بند ہوگیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم لکھنؤ میں بیٹھے ہونے کے باوجود کہہ رہے ہیں کہ یہ سب جھوٹے اور مکار ہیں۔ اگر کوئی معلوم کرنا چاہے تو ہر ضلع کی جیل میں جاکر حوالات کا معائنہ کر آئے۔ وہاں ہزاروں وہ حوالاتی مل جائیں گے جو برسوں سے شراب پی رہے تھے اور ہر دن پی رہے تھے اور ایسے بھی تھے جو ہر وقت پیتے تھے۔ لیکن جیل میں آنے کے بعد نہ کسی کی انگلیاں کانپیں نہ ہاتھ پاؤں نہ آنکھیں نہ پیٹ۔
ہم 9 مہینے خود جیل میں رہے اور عام حوالات میں رہے جہاں ایک سے بڑھ کر ایک شرابی آتا تھا۔ لیکن ہم نے نہ کسی کو کانپتے دیکھا نہ یہ یاد کرتے کہ شراب نہیں تو ہمارا کیا ہوگا؟ ان میں وہ بھی آئے جو بناتے تھے۔ فروخت کرتے تھے اور لاکھوں کو پلاتے اور خود پیتے تھے۔ لیکن جیل میں زبان پر نہ شراب آئی نہ دارو۔ لکھنؤ میں ایک ٹرانسپورٹ کے مالک کا ایک سال 29 شعبان کو آٹھ بجے رات کو فون آیا۔ معلوم کررہے تھے کہ رمضان کا چاند ہوگیا یا نہیں؟ ہم نے کہہ دیا کہ ابھی کوئی خبر نہیں ہے۔ کہنے لگے ’’تو پھر آج اور پی جاسکتی ہے۔‘‘ میں نے کہا یہ غضب بھی نہ کرنا میں نے اخبار کی خبر دی ہے۔ آپ فرنگی محل سے معلوم کرنے کے بعد فیصلہ کریں۔ وہ دوست سال کے گیارہ مہینے بلاناغہ دل کھول کر پیتے تھے لیکن رمضان شریف کے چاند کی خبر کے بعد وہ مسجد میں نظر آتے تھے۔ ایک ہندو دوست الہ آباد بینک میں تھے وہ کہتے تھے کہ جس دن نہ ملے نہ کھانا اچھا لگتا ہے اور نہ نیند۔ لیکن ساون کا پورا مہینہ رمضان کے روزہ دار جیسے ہوجاتے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر سنبھل میں ایک کلّو بھائی تھے ’’کھٹیا‘‘ ٹرانسپورٹ کے مالک ایک پیٹرول پمپ کے سامنے ایک سایہ دار درخت کے نیچے وہ کھٹیا پر لیٹے رہتے تھے درخت میں ہی چھوٹاسا بورڈ کھٹیا ٹرانسپورٹ سنبھل لٹکا رہتا تھا۔ ان کے کارندے مونڈھوں پر۔ مراد آباد روڈ پر جانے والے ہر ٹرک سے اور ہر پرائیویٹ بس سے دس یا بیس روپئے لیتے تھے۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ سنبھل کے سب سے بڑے بدمعاش ہیں اسی وجہ سے پولیس بھی نظر انداز کرتی تھی۔ رات کو وہ کھٹیا سے اٹھ کر شراب خانے جاتے تھے اور دو بوتلیں کرُتے کی جیبوں میں لئے ہوئے گھر آجاتے تھے۔ لیکن رمضان شریف کی پہلی رات شروع ہوتے ہی گھر آکر نہاتے تھے اور کپڑے بدل کر مسجد چلے جاتے تھے۔ کسی نے نہیں بتایا کہ وہ تراویح میں چکراکر گرجاتے تھے یا ان کے منھ سے کوئی گالی نکلتی تھی۔
نتیش کمار صاحب ہوں یا دوسرے افسر وہ بہار کو پاکستان نہ بننے دیں جہاں 1952 ء میں ہم گئے تو اپنے دوستوں کے پاس ایک مہینہ رہے۔ اور کرید کریدکر ایک ایک بات معلوم کی۔ ان سے ہی معلوم ہوا کہ 1950 ء تک تو شراب پر واقعی پابندی رہی۔ اس کے بعد جب زیادہ ہنگامہ ہوا تو حکومت نے یہ اجازت دی کہ اگر ڈاکٹر وہ بھی ایم. بی. بی. ایس. لکھ دے کہ ان کی صحت کے لئے شراب ضروری ہے تو پرمٹ بن سکتا ہے۔ اور پھر ہر شرابی کی صحت خراب رہنے لگی اور وہ ڈاکٹر جن کی پریکٹس نہیں چل رہی تھی وہ پرمٹ فروخت کرنے لگے اور اب تو کوئی بھی لکھ دے شراب پینے اور پلانے کا بہانہ ہے۔ گذشتہ سال ٹی وی کے مشہور ایڈیٹر ونود دؤا نے ایک جگہ لکھا تھا کہ وہ سعید صاحب کے ساتھ کراچی گئے۔ ہوٹل کے کاؤنٹر پر کمرہ بک کرانے لگے تو سوال کیا گیا کہ نام کیا ہیں؟ انہیں دونوں نام بتائے تو سوال کیا کہ کیا کمرہ میں شراب منگوایئے گا؟ اور جب جواب میں ہاں کہا تو کہا گیا کہ پھر ونود صاحب کے نام سے بک کرایئے۔ مسلمان کے کمرہ میں شراب دینے کی اجازت نہیں ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو پیدا ہوا ہے اسے ایک دن مرنا ہے اور کون انسان ہے جو بیمار نہ ہوتا ہو لیکن اگر ہر بیماری صرف اس لئے ہوجائے کہ اسے شراب نہیں ملی تو یہ صرف مکاری ہے۔ شراب ہو، سگریٹ، بیڑی ہو، کھینی ہو یا پان مسالہ ہو غرض کہ چاول دال سبزی روٹی کے نہ ملنے سے تو بیمار ہوسکتا ہے۔ لیکن ان میں سے کسی چیز کے نہ ملنے سے کوئی کہے کہ وہ بیمار ہوگیا تو جھوٹا ہے۔ ہمارے حقیقی تایا صاحب پچاس برس سے گھر میں حقہ اور باہر سگریٹ پیتے تھے۔ جس دن ان کی حج کی درخواست منظور ہونے کی اطلاع آئی اسی دن اپنا حقہ اس کا تمباکو اور سگریٹ کے نہ جانے کتنے پیکٹ پڑوس کے ایک دوست کو بھیج دیئے اور حج کے بعد برسوں حیات رہے حقہ کا ذکر بھی نہیں کیا اور حج کا پورا سفر کرکے اور تمام ارکان ادا کرکے واپس آگئے۔
معلوم ہوا ہے کہ تاڑی کا مسئلہ الجھ گیا ہے۔ بہت پہلے سنا تھا کہ بہار میں لڑکی کے جہیز میں تاڑ کے درخت بھی مانگے جاتے ہیں؟ اور یہ حقیقت ہے کہ سورج نکلنے سے پہلے تاڑ کا جو نیرہ نکلتا ہے سنا ہے وہ صحت کے لئے مفید ہے۔ لیکن یہ ہم نے خود یکھا ہے کہ دن میں وہ تاڑی یعنی نشہ آور بن جاتی ہے اور وہ جتنی دیر دھوپ میں رہے گی اتنا ہی نشہ بڑھے گا۔ اس کا تجربہ خود ہوچکا ہے۔ بعض مزدور لٹیا میں صبح کو تاڑی لاتے تھے اور دوپہر تک اسے دھوپ میں رکھتے تھے پھر دوپہر کو کھانے کے ساتھ پیتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ جب لڑکیوں کے جہیز میں تاڑ کے درخت مانگے جاتے اور دیئے جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ گھر کے اندر ہوں گے۔ ان کو کاٹنا یا سرکاری تحویل میں لینے سے ایک نیا مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ جس طرح عورتوں کے مطالبے اور دباؤ کی وجہ سے شراب بندی ہوئی ہے۔ اسی طرح یہ مسئلہ بھی گھر کی عورتوں پر ہی چھوڑ دیا جائے اور اس کے لئے ایک سال کی مہلت دے دی جائے؟
گجرات میں کانگریس نے شراب پر پابندی لگائی تھی۔ پھر جب تک کانگریس کی حکومت رہی کسی نہ کسی حد تک اس پر عمل بھی ہوا اور قانون شکنی بھی ہوئی۔ کانگریس نے گجرات کو گاندھی جی کا صوبہ ہونے کی وجہ سے پابندی لگائی تھی۔ یہ اس کی غلطی تھی۔ اس لئے کہ انہیں تو دیش پتا باپو اور قومی لیڈر مانا گیا ہے۔ ان کے نام سے اگر پابندی تھی تو پورے ملک میں ہوتی؟ اس کا نتیجہ ہے کہ جب بی جے پی کی حکومت آئی تو پابندی کا بورڈ تو لگا رہا لیکن حالت یہ ہے کہ وہاں پانی کی بوتل دیر میں ملتی ہے شراب کی بوتل جلد مل جاتی ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ جس گجرات میں اصلی شراب پر بھی پابندی ہے وہاں نقلی شراب پی کر 35 آدمی مرجائیں؟ اور وزیر اعلیٰ نریندر مودی پر حیرت کا پہاڑ نہ ٹوٹے؟
بہار میں نتیش بابو اور لالوجی کی حکومت پانچ سال تو ضرور رہے گی۔ اگر ان کی شراب بندی سے مطالبہ کرنے والی بہنوں کو واقعی راحت ملی اور غریب بہاریوں نے بھی اس کا فائدہ محسوس کیا تو انہیں پھر موقع دیا جائے گا۔ لیکن اگر بی جے پی کے وہ وکیل جو آج بھی گلا پھاڑ رہے ہیں کہ اپنی پسند کی کھانے پینے کی چیزوں پر ’دستور کی دی گئی آزادی کو کوئی حکومت ختم نہیں کرسکتی‘ کی بات سپریم کورٹ نے بھی مان لی۔ یا پانچ دس سال کے بعد عوام نے مان لی تو کیا یہ خواب چکناچور نہ ہوجائے گا؟ ضرورت اس کی ہے کہ اب دونوں لیڈر عام آدمی کے دلوں میں بھی شراب کی نفرت ایسے ہی بٹھائیں جیسے دوسروں کی حکومت سے نفرت بٹھائی ہے تو بہار میں جے پرکاش نرائن کے نام کے ساتھ دو نام اور لئے جائیں گے۔ اور یہ بہت بڑی بات ہوگی۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا