English   /   Kannada   /   Nawayathi

دعوت و تبلیغ کی اہمیت

share with us

شراب اور جواء4 ،زنا کاری اور فحاشی ،رشوت اور سود خوری ،چوری وڈکیتی ،قتل وغارت گری اور غنڈگ گردی ،جھوٹ اور غیبت ،غرض ہر قسم کی برائیاں عام تھیں۔عورت کو پاؤں کی جوتی تصور کیا جاتا تھا۔لونڈیوں اور غلاموں سے بھیڑ بکریوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ان حالات میں نبی ﷺ تشریف لائے اور دیگر معاشرتی برائیوں کے انسداد کے ساتھ آپﷺنے سب سے کاری ضرب شرک و بت پرستی پر لگائی اور اللہ وحدہ لاشریک کی توحید کی طرف دعوت دی۔
آپ ﷺ کی دعوت و تبلیغ قوی دلائل اور براہین کے ساتھ تھی۔اللہ کی وحدنیت کی طرف دعوت دی تو پر زور دلائل کے ساتھ دی۔شرک و بت پرستی کی نفی فرمائی تو پرزور دلائل کے ذریعے فرمائی۔حضور اکرم ﷺ کی یہی دعوت توحید تھی کہ جو کفار مشرکین کو واقعی بری لگ رہی تھی اور وہ آپ ﷺ کی مخالفت اور آپ کو اذیت دینے کے درپے ہو رہے تھے۔حضور اکرم نے دعوت دین میں سب سے پہلا اہتمام یہ کیا کہ آپﷺکی دعوت صرف اور اللہ ہی کی طرف تھی۔حضور اکرم ﷺ نے اپنی دعوتی زندگی میں حکمت کے اصولوں ک وہر لمحہ مدنظر رکھا۔آپ ﷺ نے پتھروں کے جواب میں پتھر نہیں برسائے اور گالیوں کا جواب گالم گلوچ سے نہیں دیا بلکہ حکمت سے کام لیتے ہوئے بڑے احسن انداز سے فریضہ تبلیغ سر انجام دیا۔آپﷺنے بھی خیال رکھا کہ جہاں جس انداز میں سمجھانے کی ضرورت ہوتی وہی انداز اختیار فرماتے۔یہ بھی احساس رکھتے کہ دعوت کا ایسا انداز نہ ہو کہ جس سے مدعوئین اکتاہٹ محسوس کرنے لگیں۔

شیرین زبان میں محمد عربی ﷺ سے بڑھ کر اور کون ہو سکتا ہے۔ وہ محمد عربیﷺ کہ جو دشمنوں کو بھی دعائیں دیتے ہیں آپﷺ نے دعوت تبلیغ میں بھی کبھی شدت پسندانہ رویہ نہیں رکھا بلکہ ہمیشہ انتہائی نرم انداز میں گفتگو فرماتے۔اتنے نرم و شیرین انداز میں گفتگو فرماتے اور ایسے میٹھے انداز سے بات کرتے کہ دل خود بخود اسکی طرف مائل ہو جاتے۔کسی کو اگر کسی بات سے منع کرنا بھی مقصود ہوتا تو ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی بجائے نرمی کے ساتھ ہی اسے سمجھاتے۔دعوت وتبلیغ کے دوران اگر کبھی کہیں جدال اور مناظرہ کی ضرورت پیش آتی تو بھی آپﷺ نے انتہائی احسن اور نرم انداز میں گفتگو فرمائی۔کئی مواقع پر کافروں نے آپﷺ کو زچ کرنے کے لئے آپ ﷺ سے طرح طرح کے سوالات کئے لیکن آپ نے نہایت تحمل سے ان کے جوابات دئیے۔اگر داعی کا کردار اس کی دعوت کا نمونہ نہ ہو اور دعوت کے مطابق نہ ہو تو داعی کی دعوت بھی بے اثر ثابت ہوتی ہے۔لیکن حضور اکرم ﷺ کا عمل و کردار عین اپنی دعوت کے مطابق تھا۔آپ ﷺ کے قول و فعل میں ذرہ برابر بھی تضاد ہونے کا شائبہ تک نہ تھا۔اسی وجہ سے جب
حضرت عائشہ سے آپ ﷺ کے اخلاق کے متعلق استفسار کیا گیا تو حضرت عائشہ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ آپﷺ کا اخلاق وہی کچھ تھا کہ جو قرآن ہے۔

حضور اکرم ﷺکی دعوت کے جواب میں آپ ﷺپر انتہائی مشکلات آئیں لیکن آپ ﷺ نے انتہائی صبرواستقامت کا مظاہر ہ کیا اور اپنی دعوت میں معمولی سی لچک بھی پیدا نہ کی۔ایک داعی اگر مشکلات سے گھبرا کر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دے یا اپنی دعوت پر مستقیم نہ رہ سکے تو اسکی دعوت ختم ہو جا یا کرتی ہے۔لیکن محمد عربی ﷺ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ آپ ﷺ کے صبر استقامت کی گواہی دیتا ہے۔بلکہ آپ ﷺ کی تو امت کے لئے بھی یہی تعلیم تھی۔کہہ!کہ میں اللہ پر ایمان لایا پرپھر اس پر ڈٹ جا۔

حضور اکرم نے دعوت و تبلغ کے کام کو جاری رکھنے کے لئے تلقین کی۔آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ ساری دنیا میں پھیل جاؤ۔اور اسلام کی دعوت دو۔ اور اسلام کو پھیلاؤ۔صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اس کا کس کو شریک نہ بناؤ۔ وہی سب کا مالک ہے اور وہی سب کو رزق دینے والا ہے وہی پیدا کر تا ہے اور وہی موت دینے والا ہے۔اور میں محمد اللہ کا نبی ہوں۔آپ ﷺ کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ کسی نئی قوم کو دعوت دیتے وقت سارے احکام شریعت یکمشت ان پر لاگو نہ کردینے چاہئیں کہ اچانک ان پر بوجھ پڑ جائے بلکہ آہستہ آہستہ انہیں احکام بتلانے چاہئیں۔حضرت معاذ بن جبل کو یمن بھیجتے وقت آپ ﷺ نے فرمایا۔’’تم یہود و نصاریٰ کو سب سے پہلے یہ دعوت دینا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں۔جب وہ یہ مان جائیں تو ان کو پانچ وقت کی نماز کا حکم دینا اور جب یہ مان جائیں تو انہیں زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دینا‘‘۔دعوت و تبلیغ کا کام اللہ نے اپنے پیارے انبیا ء کرام کو سونپا۔ حضور ﷺکے بعد اب کوئی نبی نہیں آنے والا۔ اب اس نبیوں والے کام کو کرنا ہماری ذمہ داری ہے تاکہ ہم اس دعوت و تبلیغ کے کام کو جاری رکھتے ہوئے دعوت اسلام کو عام کر سکیں اور نبیوں والے طریقوں پر اپنی زندگیوں کو گزار سکیں۔نبیوں والے طریقے ہماری زندگیوں میں آسکیں۔اس کے لئے محنت کی ضرورت ہے۔ دعوت و تبلیغ کے کام میں ہی میری بلکہ سارے عالم کے انسانوں کی کامیابی ہے۔اور اب اس کام کو پور ا کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا