English   /   Kannada   /   Nawayathi

عام بجٹ: خوابوں کی دنیا

share with us

باقی غیر منصوبہ جات، اسے بی جے پی خوبصورتی سے گھڑنے اور عوام کو بیوقوف بنانے میں بھی ناکام ثابت ہوئی ہے، جہاں آنے والے انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کسانوں پر کچھ نوازشات کا اعلان کیا گیا اور حکومت نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ کسانوں کے بغیر ملک ترقی کے دروازے پر دستک نہیں دے سکتا لیکن اس نظریہ کو آنے والے انتخابات کی تمہید گردانا جارہا ہے، چونکہ یوپی اسمبلی انتخاب قریب ہے جہاں کسانوں اور کمزور طبقات کی کثیر تعداد کا کوئی انکار نہیں کرسکتا، حالانکہ اس میں بھی حکومت کا یہ قول کہ ہم 2022 تک کسانوں کی آمد کو دوگنا کردیں گے، ان کی کم ہمتی کی کھلی دلیل ہے، حالانکہ کسان 2022تک کس حال میں ہوں گے اس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کرنے والا کرنے والا ہے بچوں کے پیٹ بھرنے پر قادر نہ ہونا، تعلیم و تعلم کے لئے اس زمین کو بیچ دینا جسے وہ ماں سے بھی زیادہ پیارکرتا ہے جن مسائل کے حل کرنے کے لئے ہمارے وزیر خزانہ کو2022تک کا وقت درکار ہے اور جب تک نہ جانے کتنے کسان خودکشی کر چکے ہوں گے، وہ طریقہ کار کیا ہے جس سے یہ کرامت معرض وجود میں آئے گی، اس کی کوئی وضاحت نہیں، حالانکہ یہ اس بجٹ کا بی جے پی کی طرف سے مضبوط پہلو خیال کیاجارہا ہے جس کا عالم یہ ہے اور اس بات پرکون یقین کرے اور کیسے کرے کہ 2022تک آپ کسانوں کو دوہری آمدنی سے ہمکنار کرنے میں کامیاب رہیں جب کہ آپ کے لیڈران کی زبانیں ان کی خودکشی کو فیشن سے تعبیر کرتی ہیں۔ آپ کی موقع پرستی اور زبانی دعوی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، ہمیشہ آپ کا آنے والے کل کو بہتر کرنے کا دعوی ملک کے حال کو بدتر کر چکا ہے اور ہر شخص اس حقیقت سے واقف ہوچکا ہے کہ یہ وعدے، وعدے ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ آگے بڑھئے تو سروس ٹیکس serviceمیں اضافہ کیا گیا ہے پہلے 12.36فی صد سے بڑھاکر 14فیصد اور.14.5فی صد جو مہنگائی کو بڑھانے کے لئے کافی ہے اور عام انسانون پر اس کی جو مار پڑنے والی ہے اس کا اندازہ کرنے کے لئے ایم بی اے ہونا ضروری نہیں ہر شخص اس کے نقصان کا اندازہ کر سکتا ہے۔ یہ اکثر شعبہ جات میں مہنگائی کاباعث ہوگا اسی طرح اس بجٹ میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ بجلی کو گھر گھر پہنچایا جائے گا اور کوئلہ پر خرچ ہونے والی قیمت 200سو روپے ٹن سے چار سو ہوگئی اس سے بجلی کتنی مہنگی ہوگی، وہ بھی دو دو چار کی طرح ہے نمایاں ہے۔جسے عوام کی جیبوں سے وصول کیا جانا لازمی ہے علاوہ ازیں آگے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے اس بجٹ میں ایک ایسا اعلان کیا ہے جو ناصرف بچکانا بلکہ مضحکہ خیز ہے وہ حکومت جس کا مشن اور مقصد اول ہی کالا دھن واپس لانا تھا، اس کی طرف ایسا اعلان نہ صرف حکومت بلکہ ہندوستان کے لئے شرمناک ہے جو اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ ہمارا نظام اس بات پر قادر نہیں کہ کالے دھن کو پکڑ سکے اس پر نکیل کس سکے بلکہ اس کے لئے ایک خوبصورت موقع فراہم کیا گیا ہے جو اس حکومت کی کمزوری اور لچر تدبیر کا غماز ہے۔ یکم جون 2016سے یکم ستمبر 2016تک یہ اجازت دی گئی ہے کہ کالا دھن لائیے 45فیصد ٹیکس ادا کیجئے اور اسے سفید کرکے لے جائیے۔ عجیب حماقت ہے کالادھن لانے کی عجیب وغریب تدبیر کیا اسے رشوت نہیں کہا جائے گا؟ جب حکومت یہ کام کر رہی ہے اگر نچلے شعبہ جات میں اس طرح کا کھیل اور گھوٹالے spamسپیم ہوتے ہیں تو کون سی تعجب کی بات ہے پتا نہیں ان لوگوں کو کیا دے کر خاموش کردیا گیا جنہیں کالادھن واپس لانے کا ہیضہ تھا، مگر چاہے جو بھی ہو اس اعلان نے حکومت کی حماقت کو طشت ازبام کردیا ہے۔ ایسا محسوس ہوا کہ چوری کیجئے، ڈاکہ زنی کیجئے، گھوٹالے کیجئے، حکومت بھی آپ کے ساتھ ساتھ برابر کی شریک ہے۔ حصہ دیجئے اور آپ کا مال حق حلال اور ایمانداری کی کمائی ہوجائے گا۔ خدا خیر کرے کل کیا ہوگا؟ کون جانے اس کے علاوہ ایک کروڑ یا اس سے زیادہ کمانے والوں کے ٹیکس میں تین فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے جو اب15فیصد ہوگا۔ اس سے پہلے یہ 12فیصد تھا گذشتہ بجٹ میں بھی اس میں 2فیصد کا اضافہ کیا گیا تھا اس طرح کے افراد کی تعداد ہندوستان میں کم ہی ہے جو 50000کو بھی نہیں پہنچتی۔ متوسط طبقہ پر ٹیکس میں اضافہ نہیں کیا گیا لیکن سروس ٹیکس کے نام پر ہونے والی مہنگائی کے ظلم سے یہ بھی اپنا دامن نہیں بچا پائیں گے؟ نوکری پیشہ افراد کوبھی اس بجٹ سے کوئی راحت نصیب نہیں ہوئی ان کے ٹیکس میں بھی کسی طرح کی کمی کا اعلان نہیں کیا گیا، تعلیم کے شعبہ میں کچھ دعوی کئے گئے جیسے online edutionکے ذریعہ نوجوانوں کو آگے لانا تعلیم مشن کے لئے 28010کروڑ کا اعلان کیا گیا ہے مگر روزگار کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ بی جے پی کی تعلیمی اداروں میں ہورہی گندی سیاست بھی سامنے ہے۔ کیا یہ اعلانات تعلیم کے شعبہ میں ہندوستان کو آگے لے جاپائیں گے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر سرکاری تعلیم کا ڈھانچہ متزلزل ہوچکا ہے، اس کی تفصیلات یہاں پیش کرنا طوالت کا باعث ہوگا۔ کروڑوں خرچ ہونے کے بعد بھی اس شعبہ کی ابتری حکومت کے لئے سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے اور ہاں بجٹ میں پوری طرح سنگھ کا اقلیت مخالف نظریہ بھی سامنے ہے۔ اقلیتی طبقوں کے لئے کوئی خاص اعلان نہیں کیا گیا، ایسا لگتا ہے جیسے وزیر خزانہ انہیں بھول ہی گئے ہوں۔کیا ملک اقلیتوں کو ساتھ لئے بغیر ترقی کر سکتا ہے؟ یہ بھی بڑا سوال ہے، اور اس رویہ سے یہ بھی اندازہ ہو رہا ہے کہ آگے کا سفر اقلیتوں کے لئے کس طرح کا ہونے والا ہے۔ س بجٹ کے پیش ہونے کے بعد یہ تو طے ہوچکا ہے کہ 2016-17بھی مہنگائی کی زد میں گذرنے والا ہے اور اچھے دنوں کا خواب ابھی تعبیر نہیں ہوسکے گا ملک کی ترقی کا خیال ابھی خام ہے۔ تعلیم کے شعبوں میں غرباء کے لئے ابھی بھی خواب دیکھنا جرم ہی ہے ان سب کے باوجود اس بجٹ میں کچھ حسین خواب دکھائے گئے ہیں جن کو اگر دیکھا جائے تعبیر ان کی کچھ نہیں اور یہ بجٹ پوری طرح روایتی اور سطحی جو ملک کی ترقی کاضامن ہو ایسے خیال اس کے متعلق دیوانگی بڑھ کر کچھ بھی نہیں یوں بھی بجٹ کی حیثیت کوئی خاص نہیں۔ ہر سال بجٹ پیش ہوتا ہے ملک کی عوام کو سنہرے خواب دکھائے جاتے ہیں سال ختم ہوجاتا ہے مگر ان اسکیموں کا انتظار ہی رہتا ہے جو بجٹ کی خوبصورتی اور اس کا حسن تھیں، جن پر وزیر خزانہ دادو تحسین لوٹ چکا ہوتا ہے اور عام آدمی اپنے اپ کوٹھگا سا محسوس کرتا ہے جیسے کسی جادو کے ذریعہ اسے خوابوں کی دنیا میں پہنچا دیا گیا ہو۔ اب جادو ختم ہواتو وہ حواس باختہ اور شرمندہ کھڑا ہے جیسے انسان خواب میں بادشاہ بن جائے اور نیند کھلنے پر احساس ہو کہ وہ تو فقیر ہی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا