English   /   Kannada   /   Nawayathi

پارلیمنٹ میں بھی ہریانہ کا ذکر نہیں

share with us

اس کے بعد دیر سویر باعزت بری ہوجائیں گے۔ رہے میاں عمر خالد انہیں ایک تو اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی کہ وہ نہرو یونیورسٹی کے تیز طرار لڑکوں میں کیوں ہیں؟ اور اس کی تو برسوں قیمت ادا کرنا پڑے گی کہ مسلمان ہوتے ہوئے انہوں نے زبان کھولنے کی کیسے ہمت کی؟ لیکن انجام نہ افضل گرو جیسا ہوگا نہ یعقوب میمن جیسا۔ بہت ہوا تو حفیظ نعمانی جیسا ہوجائے گا۔ جنہیں 21 برس کچہری کی کینٹین کی چائے پینا پڑی۔
کل پورا دن لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں سارا زور ان ہی دو مسئلوں پر رہا جبکہ ہریانہ اور خصوصیت کے ساتھ اس کے روہتک، سونی پت اور دوسرے شہروں میں جو ہوا ہے وہ ان دونوں مسئلوں کے مقابلہ میں ہزار گنا زیادہ ہے۔ اگر غریبوں کی بات کی جائے تو ان کاروباروں میں لگے نوکروں کے بارے میں بتایا جائے کہ ان کا کیا ہوگا؟ جن دولت مندوں کے بڑے بڑے مال، شوروم، کارخانے، فیکٹریاں اور دکانیں راکھ کا ڈھیر ہوگئی ہیں۔ ان کی حیثیت یہ ہے کہ وہ کچھ بھی نہ کریں تو بھی نہ وہ بھوکے ننگے رہیں گے اور نہ ان کی بیوی اور بچے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ مرا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے اور 100 برس سے زیادہ پرانی کہاوت کا حساب لگایا جائے تو اب سوا کروڑ کا ہوچکا ہوگا؟ لیکن پٹیالہ اسٹیٹ بینک کو اس طرح اور اتنے اطمینان سے لوٹا ہے کہ وہاں سے شراب کی کئی بوتلیں بھی ایک رپورٹر دکھا رہے تھے جس کا مطلب یہ تھا ایک گروپ ہتھوڑوں سے توڑپھوڑ کر رہا تھا اور اس کے آقا جو درجنوں تھے وہ اطمینان سے شراب پی رہے تھے اور شاید پوری رات یا کئی گھنٹے میں پورے بینک سے ایک ایک نوٹ نکالنے کے بعد اسے اس طرح جلایا گیا ہے کہ انتہائی لمبی چوڑی عمارت کے باہر صرف ایک بورڈ مٹا مٹاسا نظر آرہا ہے جس پر لکھا ہے: ’’پٹیالہ اسٹیٹ بینک‘‘ اب حکومت کے ذمہ دار اور مخالف پارٹیوں کے تمام لیڈر بتائیں کہ اتنے بڑے بینک کے اس طرح تباہ ہوجانے کے بعد کتنے ہزار لوگ متاثر ہوئے ہوں گے؟ اور جو ہزاروں کروڑ یا لاکھوں کروڑ روپئے امیروں اور غریبوں کا اس بینک میں جمع ہوگا اس کے نامعلوم مدت تک یا نامعلوم انجام تک ان غریبوں پر کیا گذرے گی جن کی ساری پونجی ابدی نیند سوگئی؟ اور یہ کتنا بڑا حادثہ ہے کہ ہر کوئی یہ سوچ کر کہ زمانہ خراب ہے قیمتی زیور لاک اپ میں اور نقد روپئے بینک میں رکھ دیا جائے۔ اب یہ اعتبار کہاں سے آئے گا کہ زمانہ کی خرابی کے بعد بھی بینک محفوظ ہیں؟
بی ایس پی کی لیڈر مس مایاوتی راجیہ سبھا میں گھنٹوں صرف اس بات میں اُلجھی رہیں کہ روہت کی پھانسی کی تحقیقات کے لئے جو کمیٹی بنائی جائے گی اس میں ایک ممبر دلت ہوگا یا نہیں؟ انہوں نے نہ جانے کیوں یہ سمجھ لیا ہے کہ اگر دلت ہوگا تو وہ سچ بولے گا اور اگر دلت نہیں ہوا تو رپورٹ حکومت کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ مایاوتی صاحبہ کیا یہ دعویٰ کرسکتی ہیں کہ تمام دلت صرف ان کی پارٹی میں ہیں یا دلت کو کوئی خرید نہیں سکتا؟ اور وہ کون سی پارٹی ہے جس میں دلت نہیں ہیں؟ حکومت میں دلت وزیر بھی ہیں اور لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ممبر بھی۔ کانگریس میں بھی دلت ہیں اور ملائم سنگھ کے ساتھ بھی دلت ہیں۔ وہ اگر یہ کہتیں کہ ایک ممبر وہ ہوگا جس کا نام میں دوں گی تب یہ ہوسکتا تھا کہ وہ حق ادا کرتا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے بھی راجیہ سبھا کی ممبری یا کسی بورڈ کے چیئرمینی کی حیثیت پر ایسا کردیا جاتا کہ وہ بھی فروغ انسانی وسائل کی وزیر کی آواز، بول کبوتر پر ’’غٹرغوں غٹرغوں‘‘ کرنے لگتا۔ اسی ملک میں جب مسلمان بک جاتا ہے تو دلت کا خریدنا کیا مشکل ہے؟ اور صرف اتنی سی بات پر راجیہ سبھا کا جتنا قیمتی وقت خراب ہوا اور اس پر عوام کا جتنا روپیہ برباد ہوا وہی روپیہ، اگر روہت کی اس ماں کی خدمت میں پیش کر دیا جاتا جو دہلی کے وزیر اعلیٰ کجریوال سے روہت کے چھوٹے بھائی کی نوکری کی درخواست کررہی تھی تو شاید وہ اپنے بیٹے کو مزید تعلیم دلانے کی بات سوچتی۔
بات کو ہم پھر وہیں لاتے ہیں کہ جو کچھ کل پارلیمنٹ میں ہوا اسے صرف ذہنی عیاشی کہا جائے گا اور حیرت تو حزب مخالف پر ہے کہ اس نے اتفاق رائے سے کیوں یہ مطالبہ نہیں کیا کہ بحث ہریانہ اور صرف ہریانہ پر ہوگی۔ کس سے کہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے کہ اس ہریانہ کی بات نہیں ہورہی جس میں موت تو صرف 18 کی ہوئی لیکن ریل پوری طرح ابھی تک بحال نہیں ہوئی دہلی کو ابھی تک پورا پانی نہیں مل پارہا اور جہاں پٹیالہ بینک کی تاراجی، شوروم کی بربادی اور سیکڑوں کارخانوں، فیکٹریوں اور دکانوں کی تباہی کے بعد ہزاروں غریب بھوکے مرجائیں گے۔ نہ جانے کتنی شادیاں برسوں کے لئے ٹل جائیں گی اور نہ جانے کتنے سو دولتمند بھکاری ہوجائیں گے اور نہ جانے کتنے اس ڈر سے ہریانہ چھوڑکر چلے جائیں گے کہ جب مودی صاحب کی جیسی مضبوط حکومت اور ہریانہ میں غیرجاٹ وزیر اعلیٰ کے ہوتے ہوئے بی جے پی کو ووٹ دینے والے بھی محفوظ نہیں تو کسی دوسری حکومت میں اور نہ جانے کیا ہوجائے؟
ہریانہ اب دہلی کا ہی علاقہ جیسا ہے کوئی چاہے تو پارلیمنٹ سے روہتک تک دن میں چار چکر لگا سکتا ہے۔ اس کے باوجود مودی صاحب نے کیوں نہیں سوچا کہ وہ جاکر کم از کم وزیر اعلیٰ کو بدل دیں جس سے اس کا اشارہ مل جائے کہ حکومت فکرمند ہے۔ اب تک ہندو مسلمان کو مارتا تھا اس کا کچھ نہیں بگڑتا تھا کیونکہ حاکم ہندو ہوتے تھے۔ سکھوں نے ہندوؤں کو مارا تو ہندوؤں نے سکھوں کو مارکر حساب برابر کرلیا لیکن آج ہندو نے ہندو کو مارا ہے لیکن نہ سیکڑوں گرفتار ہوئے نہ مارنے والوں کو پولیس نے مار مارکر ادھمرا کیا۔ اس کے بعد اگر یہ چل پڑا تو ملک کا کیا ہوگا؟ ہماری پنجابی ہندوؤں سے اور سکھوں سے بہت دوستی رہی ہے۔ ہم نے ہر پنجابی دوست کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہمارے پنجاب میں یہ مشہور تھا کہ اگر سامنے سانپ اور سندھی آجائے تو پہلے سندھی کو مارنا سانپ کو بعد میں۔ یعنی نفرت ساتھ آئی تھی اب جو کل دیکھا گیا کہ یہ دکانیں پنجابی برادری اور سینی برادری کی ہیں جن کو جلایا گیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جیسے دس دکانوں میں اگر مسلمانوں کی دو ہوتی تھیں تو وہ جلادی جاتی تھیں اور آٹھ سلامت رہتی تھیں وہی دَور واپس آرہا ہے۔ اور اگر اس وقت حکومت جاٹوں کے سامنے جھکی رہی تو پھر اس ملک میں وہی ہوگا کہ سندھی اور سانپ کی بات ہوگی۔ مودی صاحب کا تجربہ ہم سے بہت کم ہے۔ انہیں حکومت کا تجربہ ہے جو ہمیں نہیں ہے۔ اس لئے اس وقت انہیں ہماری بات پر غور کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے جو تاوان کا مشورہ دیا ہے وہ نیا نہیں ہے انگریز یہی کرتے تھے۔ اس لئے ان کے زمانہ میں نہ مراد آباد ہوا نہ میرٹھ نہ احمد آباد، سورت اور نہ ہریانہ۔ وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کے علاوہ پوری ایمانداری سے ہریانہ کے ان علاقوں کے ہر جاٹ پر حسب حیثیت تاوان لگایا جائے اور طاقت سے وصول کیا جائے۔ اور اگر یہی کہا جاتا رہا کہ ناپسندیدہ عناصر آئے اور پھونک گئے، تو ملک کا اللہ ہی حافظ ہے اور ہر بینک خطرہ میں ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا