English   /   Kannada   /   Nawayathi

اگرہم تھوڑی محنت کرلیں....

share with us

بلکہ اس کی مدد سے انسانیت نے دوبارہ سکھ اور تندرستی کی طرف لوٹنا شروع کر دیا ہے۔میں نے کئی بار لاعلاج امراض میں مبتلا لوگوں کو متبادل طریقہ علاج کے باعث تندرست ہوتے دیکھا ہے جیسا کہ طب یونانی طب نبوی ؐ، متبادل طرز تنفس (سانس بدل کر علاج)، آکیو پریشر (Acupressure)،کروموپیتھی (رنگوں و روشنی سے علاج)، طب یونانی ،ہپناٹزم وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کی حقانیت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا بشرطیکہ معالج بھی اپنے فن میں یکتا ہو۔ آئیے! آج آپکو اپنی ذاتی تحقیق سے روشناس کروں جس کے بارے میں ہو سکتا ہے آپ پہلے سے کافی کچھ جانتے ہوں مگر اس نقطہ نظر سے پہلی بار آشکار ہوں گے۔آج کی جدید سائنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انسانی ذہن ایک مقناطیس (Magnet )کی طرح سے کام کرتا ہے اور ہراس شئے کواپنی طرف کھینچتا ہے جس کے بارے میں انسان سوچ رہا ہوتا ہے۔ جیسا کہ خوشی کے مواقع پر انسان کو ہر طرف خوشی نظر آتی ہے حتی کہ شور بھی موسیقی کی طرح معلوم ہوتا ہے ،محبت کے عالم میں زندگی کے معاملات انتہائی خوبصورت اور رنگین نظر آتے ہیں، جبکہ غم و پریشانی کے عالم میں دنیا بھر میں کرب اور تکلیف دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ در اصل اسی قانون کے مطابق ہے کہ انسانی ذہن جس سوچ و فکر میں مگن ہے وہ اپنے اردگرد اسی طرح کے حالات و واقعات اکٹھا کرتا جارہا ہے۔آپ اسکو ایک ایسا ہی عمل کہہ سکتے ہیں جیسے آپ انٹر نیٹ پر سرچ انجن جیسے Google میں جا کر کچھ تلاش کرنا چاہیں تو سرچ انجن ویب سائٹ آپکو لاکھوں نئی ویب سائٹس لاکر آپ کے سامنے رکھ دے گا مگر یہ تمام ویب سائٹس اس سے ملتے جلتے ہوں گے۔جو کچھ آپ سرچ باکس میں لکھیں گے اور ملتی جلتی معلومات کا ڈھیر لگ جائے گا۔اسکو تلازمہ (Like Attracts Like )بھی کہہ سکتے ہیں۔
تلازمہ خیال اس وقت کام کرتا ہے جب کسی بات ،لفظ ،فکر کو ذہن میں تصور (imagine Visualize) کرکے بے خیال ( Free Mind) ہو جائیں یا پھر اسکی تکرار کرتے ہیں اور نتیجہ میں اسکے ثمرات حاصل ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک صفاتی نام السلام (The Source of Peace) جب کسی زبان سے ادا ہوتا ہے یا ذہن سے تصور کیا جاتا ہے تو کائنات سے سلامتی ،امن کا رجوع اس انسان کی طرف رابطہ (Channel)بنتا ہے، جبکہ اس کے ثمرات صحت و سلامتی کا باعث بنتے ہیں۔ آپ اس سے مراقبہ صحت و سلامتی کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ 
یہی مثبت تخیل ہمارے لیے بہتے پانی کی مانند ہے۔ اگر حدوں میں رہے تو لازوال طاقت ہے اور اگر حدوں کو توڑ دے تو طوفان ۔جبکہ یہ طوفان ناقابل تسخیر معلوم ہوتا ہے، لیکن اگر آپ اس کا راستہ تبدیل کرنے کا طریقہ جانتے ہیں تو آپ اس کا رْخ موڑ سکتے ہیں اور اس کو کارخانوں میں لے جا کر وہاں اس کی قوت کو حرکت، حرارت اور بجلی میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ آپ تخیل (خیال) کو گھر بیٹھا دیوانہ بھی کہہ سکتے ہیں یا پھر بے سدھ گھوڑے سے بھی وابستہ کر سکتے ہیں جس کی نہ لگام اور ہی باگیں، ایسی صورت میں سوار اس کے رحم و کرم پہ ہے کہ جہاں وہ چاہے اس کو کسی کھائی میں گِرا کر اس کی زندگی کا خاتمہ کر دے لیکن اگر سوار گھوڑے کو لگام دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو حالات بدل سکتے ہیں۔ اب یہ گھوڑا (تخیل) اپنی مرضی سے کہیں نہیں جاتا بلکہ سوار جہاں چاہے گھوڑے کو وہاں لے جانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ علاج و معالجہ کی اصطلاح میں اسی تخیلاتی تدابیر کو نفیساتی طریقہ علاج سے تعبیر کیا جاتا ہے۔عام تجربہ یہی ہے کہ جن امراض کے علاج میں جدید ایلوپیتھی ہواس باختہ ہوجاتی ہے ،جہاں اس کی سانسیں پھولنے لگتی ہیں اور تھک ہار کر معالج علاج سے ہاتھ کھڑے لیتا ہے ۔یوں کہئے کہ تنگ آ کر معالج مریض کا اثاثہ لوٹ لینے کے بعد لجاجت آمیز لہجے میں تیمارداروں سے کہتا ہے کہ اب آپ کا مریض میڈیکل اسٹیج سے کافی آگے بڑ ھ چکا ہے اورایلوپیتھک میں اب اس کا علاج ممکن نہیں ہے۔یہیں سے متبادل علاج کی جانب ایلوپیتھک معالج اور تیمار دار دونوں متوجہ ہوتے ہیں ۔مقام شکر ہے کہ ایسے لا علاج مریضوں کو بھی اس متبادل طریقہ علاج وادویہ سے صحت کاملہ نصیب ہوتی ہے۔
ہمارے قدیمی اورہزارہا برس سے رائج و آزمودہ طریقۂ علاج (طب یونانی) کے علاوہ متعدد دیسی طریقہ علاج اداروں کے فارغین خود کو نہ صرف ’ڈاکٹر‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں بلکہ حکیم کہنے سے چڑ جاتے ہیں ،بلکہ دیسی کالجوں کے فارغین دل کھول کر ایلوپیتھک دوائیں تجویز کرتے ہیں لیکن این آر ایچ ایم یاقومی دیہی صحت مشن میں ’آیوش کی حالت‘ کے نام سے تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق زیادہ تر ایلوپیتھک ڈاکٹر ملک کے دور دراز علاقوں میں صحت کی سہولیات کو پہنچانے کیلئے دیسی طریقہ علاج کو ایک موزوں متبادل تسلیم کرتے ہیں۔دریں اثناء حکومت کی جانب سے دہلی کے اسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں اس جانب با اعتنائی کی اطلاعات آتی رہی ہیں۔یاد رکھئے!اگرچہ زیادہ تر مریض ایلوپیتھی طریقہ علاج کو ہی بیماری کے علاج کا سب سے کارگر طریقہ مانتے ہوں لیکن ملک کے 70 فیصد ایم بی بی ایس ڈاکٹر تسلیم کرتے ہیں کہ دیسی علاج ہی مناسب ہے۔ مرکزی صحت کی وزارت کی تازہ رپورٹ کے مطابق آیورویدک، ہومیوپیتھک ، یونانی اور سدھا جیسے روایتی طبی نظام کو ایلوپیتھک ڈاکٹر بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ نیشنل ہیلتھ سسٹم ریسورس سینٹرجسے مختصر طور پر این ایچ اے آر سی کہا جاتا ہے‘ کی جانب سے ملک کی 18 ریاستوں میں کروائے گئے سروے کی بنیاد پر تیار کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 55 فیصد ایم بی بی ایس ڈاکٹر کسی بیماری کے علاج کیلئے ایلوپیتھک ادویات کے ساتھ دیسی دوا بھی کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
ایم بی بی ایس ڈگری ہولڈر ہونے کے باوجود ان ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ آیوش کو ملک میں عام کرنے کیلئے مختلف بیماریوں پر دیسی ادویات کی تحقیق ہونی چاہئے۔ رپورٹ میں مزیدبتایا گیا ہے کہ این آر ایچ ایم کے تحت مختلف اسپتالوں اور طبی مراکز میں تعینات ایلوپیتھک ڈاکٹر مریضوں کے علاج کیلئے کئی دیسی تجاویز کا مشورہ دیتے ہیں‘ حالانکہ ان باتوں کو مریض کی پرچی میں نہیں لکھا جاتا ہے۔
وزارت صحت حکام کا کہنا ہے کہ تازہ رپورٹ کی سفارشات کے بعد مرکزی حکومت نے 12 ویں سالہ منصوبے میں دیسی علاج کرنے والے ڈاکٹروں کو زیادہ ترجیح دینے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ قومی دیہی صحت مشن کے تحت ان ڈاکٹروں کو ایسے طبی مراکز میں تعینات کرنے کا منصوبہ ہے جہاں ایم بی بی ایس ڈاکٹر جانے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیسی ڈاکٹروں کو معمول پر ڈاکٹروں کے آس پاس ہی تنخواہیں دینے اور دیگر سہولتیں دینے کا بھی منصوبہ ہے۔ حال ہی میں قومی دیہی صحت مشن کی کامن ریویو مشن رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے کہ ملک کے تمام صوبوں میں آیوش ڈاکٹروں کی تعیناتی ہو رہی ہے لیکن ابھی بھی دیسی طب دینے والے ان ڈاکٹروں کا مناسب فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا ہے۔ 
گزشتہ برس ایک میڈیکل کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا گیاتھا کہ طب یونانی کو دنیا بھر میں تیزی سے فروغ حاصل ہورہا ہے۔ طب یونانی کے فروغ سے ہندوستان سے تعلق رکھنے والے اطباء زبردست فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ خلیجی ممالک کے علاوہ مغربی ممالک اور جنوبی افریقہ و سری لنکا میں بھی طب یونانی میں مہارت رکھنے والوں کی پذیرائی ہورہی ہے۔ دنیا بھر میں تیزی سے متبادل ادویات کے رجحان میں ہورہا اضافہ کا یونانی اطباء فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بیرون ہند کئی ممالک میں یونانی طریقہ علاج کو قبول کیا جارہا ہے اور ہندوستان سے بی یو ایم ایس کرنے والے طلبہ کو بہترین مواقع دستیاب ہیں۔ ہندوستان کے علاوہ یونانی طریقہ علاج بنگلہ دیش، پاکستان، ساؤتھ افریقہ اور سری لنکا میں موجود ہے جہاں طب یونانی کی تعلیم کا نظام بھی چلایا جارہا ہے۔ بنگلہ دیش میں موجود یونانی طرز تعلیم کو بی یو ایم ایس ہی کہا جاتا ہے ،جبکہ یہ سند فراہم کرنے والی اتھاریٹی بنگلہ دیش کا یونانی و آیوروید بورڈ ہے۔ پاکستان میں نیشنل کونسل آف طب کی جانب سے 3 کورسیس طب یونانی میں متعارف کروائے گئے ہیں جن میں 4 سالہ ڈپلوما فاضل و طب و جراحت یونانی، 5 سالہ بیچلر آف ایسٹرن میڈیسن اینڈ سرجری یونانی (بی ای ایم ایس) کے علاوہ 3 سالہ ایم فل ماسٹر آف فلاسفی یونانی شامل ہیں۔ اسی طرح جنوبی افریقہ میں 5 سالہ کورس بی سی ایم یونانی بیچلر آف کامپلیمنٹری میڈیسن یونانی متعارف کروایا گیا ہے اور سری لنکا میں بیچلر آف یونانی میڈیسن اینڈ سرجری (بی یو ایم ایس) ساڑھے پانچ سالہ کورس چلایا جارہا ہے۔ خلیجی ممالک میں یونانی اطباء کی طلب میں تیزی سے ہورہے اضافہ سے ہندوستانی حکماء فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بی یو ایم ایس کرنے والے ڈاکٹرس متحدہ عرب امارات میں وزارت برائے صحت کی جانب سے سہ ماہی اساس پر منعقد کئے جانے والے اہلیتی امتحانات میں شرکت کے ذریعہ لائسنس حاصل کرسکتے ہیں ،لیکن اْنھیں صرف یونانی طریقہ علاج کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یونانی ڈاکٹرس کے مددگار کو ساڑھے تین تا چار ہزار درہم تنخواہ حاصل ہورہی ہے، جبکہ ڈاکٹرس بہ آسانی 5 ہزار درہم تک تنخواہ حاصل کرنے کے متحمل قرار پارہے ہیں۔ خلیجیحکومت کی جانب سے یونانی طریقہ علاج کو بھی انشورنس میں شامل کیا گیا ہے جس سے مریض بھی اس طریقہ علاج کی جانب راغب ہورہے ہیں۔علاوہ ازیں مختلف ممالک بالخصوص امریکہ، فرانس، سوڈان، خلیجی ممالک کے علاوہ آسٹریلیا و دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے بھی اس طریقہ طب کو اختیار کرنے لگے ہیں۔ ہندوستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بی یو ایم ایس کو قبول کئے جانے سے ہندوستانی بی یو ایم ایس ڈاکٹرس اپنے ہی طریقہ طب میں مہارت حاصل کرکیبہترین روزگار سے مربوط ہوسکتے ہیں۔
بہرحال یہ ایک المیہ ہے کہ طب یونانی جسکو صرف یونانی اور حکمت کے نام سے پکارا جاتا ہے آج ایک ایسا طریقہ علاج بن چکا ہے جس پر شاید ہر ملک میں ہی طب متبادل کا ٹھپہ لگایا جاچکا ہے۔حالاں کہ اگرآپ اس کے تابناک ماضی میں جھانکنے کی زحمت کریں تو معلوم ہوگا کہ کبھی یہی طریقہ علاج ایک مکمل معالجاتی شعبہ تھا،مگر کچھ اپنی بے اعتنائی اور کچھ مخالف قوتوں کی کج نگاہی کے باعث اسی طریقہ علاج کو جسے مادر طب ہونے کا فخر حاصل ہے، گو کہ ایک زمانہ تھا جب طب کے اس شعبے میں اس وقت موجود دنیا کے ہر طریقۂ علاج سے بہتر علاج موجود تھا۔ اگر اس میں تحقیق اور ترقی کی رفتار کو برقرار رکھا جاتا تو آج اسکے ذریعہ جراحی سمیت وہ تمام معالجات ممکن ہوتے جو کہ موجودہ میڈیسن کے ذریعہ ممکن ہیں۔بہر حال دیر آ ید درست آید کی مصداق ،یہ متبادل طریقہ علاج نئی پودھ کی محنت و لگن اورپیہم تحقیقات کے نتیجے میں اپنی نشاۃ ثا نیہ کی جانب گرم سفر نظرآر ہی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا