English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہرایک دائرہ مرکزسے ہٹنے والاہے!

share with us

مضمون نگارنے بڑی سنجیدگی وتوازن اور انصاف پسندی و حقیقت بینی کے ساتھ جے این یومعاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے خاص طورسے عمرخالدکے بارے میں لکھاتھاکہ مجھے ہی نہیں ملک بھرکے ان تمام والدین کواسے اپنا بیٹامانناچاہیے،جویہ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد علمی ،فکری اور عملی اعتبارسے ترقی کرے اور اپنی زندگی میں قوم اور ملک کے لیے،سماج کے لیے،معاشرے کے مختلف طبقات کے لیے کچھ نفع بخش سرگرمیاں انجام دے سکے،انھوں نے اس مضمون میں عمرخالدکے بعض خیالات وافکارسے اختلاف کابھی اظہارکیا،مگرساتھ ہی معقولیت کے ساتھ یہ بھی لکھاتھاکہ ان چیزوں پرسنجیدہ ماحول میں مناقشہ و مذاکرہ کے ذریعے غورکیاجاسکتاہے،انھوں نے ایک بات بہت ہی قیمتی یہ بھی لکھی اور اس کا اظہارمتعدددانشوروں،صحافیوں اور اربابِ فکرنے کیاہے کہ اگر چندلوگ ہندوستان مخالف نعرے لگابھی دیتے ہیں ، توایک سو پچیس کروڑکی آبادی والے دنیاکے سب سے بڑے جمہوری ملک کی بنیادیں اتنی کمزورنہیں ہیں کہ وہ مخدوش ہوجائیں اور ملک کی سلامتی و بقاکوخطرہ لاحق ہوجائے۔مذکورہ مضمون کولکھنؤیونیورسٹی کے ایک پروفیسرنے اپنی فیس بک وال پرشیئرکردیا،اس کی سزاانھیں یہ ملی کہ لکھنؤیونیورسٹی میں اے بی وی پی کے کارکنوں نے ایک ہنگامہ برپاکردیا،اس پروفیسرکے پتلے جلائے گئے،اس کی کلاس کابائیکاٹ کردیاگیا،اسی طرح ایک واقعہ بالکل پٹیالہ ہاؤس کورٹ کی مانند الہ آبادہائی کورٹ کے وکیلوں کے ذریعے کنہیاکماراور اس کے ساتھیوں کی حمایت میں پرامن احتجاج کرنے والوں پرپتھراؤکرنے،مارنے پیٹنے کی شکل میں رونماہوا۔ایک اورواقعہ دہلی میٹروکے حوالے سے یہ سننے میں آیاکہ ایک شخص ریختہ فاؤنڈیشن کاکوئی ادبی کتابچہ اپنے موبائل پرپڑھ رہاتھا،اس کے پاس کے مسافروں نے جب دیکھاکہ وہ اردوپڑھ رہاہے،تووہ آپس میں اس قسم کی باتیں کرنے لگے کہ یہ سب پاکستانی ہیں اورانھیں پاکستان بھیج دیا جانا چاہیے، اس واقعے پر افسوس کا اظہارکرتے ہوئے مذکورہ شخص کی ایک دوست نے ایک ٹوئٹ کیا،جس پرکسی نے ری ٹوئٹ کرتے ہوئے یہ لکھا کہ انھیں پاکستان بھیجنے کی کیاضرورت ہے،ایسے لوگوں کوبیس روپے خرچ کرکے جے این یوبھیج دیناچاہیے ،کہ وہ بھی توپاکستان ہی ہے،کسی نے لکھاکہ اب ہندوقوم کے غلبے کادورآرہاہے،ہندوبیدارہورہے ہیں،کسی نے لکھاکہ پوری دنیامیں مسلمانوں کے ساتھ جوکچھ ہورہاہے،اس پرخودانھیں سوچناچاہیے کہ کیوں ہو رہا ہے، حالاں کہ اس کے بالمقابل دوسرے کئی لوگوں نے مثبت خیالات کابھی اظہارکیااورلکھاکہ اردوایک پیاری اور آسانی سے سمجھ میں آنے والی زبان ہے اوران بے وقوفوں کی باتوں کے پیچھے کوئی خاص وجہ ہوسکتی ہے،جبکہ ایک صاحب پروین کمارگپتانے ری ٹوئٹ کیاکہ دویابیس یا بیس ہزارلوگ پورے ہندوستان کی نمایندگی نہیں کرتے اور اس طرح کے واقعے کوشاذکے درجے میں رکھ کرنظراندازکردیناچاہیے،جوبھی ہو،بہرحال وطنِ عزیزمیں لگاتاررونماہونے والے سانحات کااثرزمینی سطح پر بھی ہورہاہے اور لوگوں کی ذہنیتیں منفی رخ اختیار کرتی جارہی ہیں۔دلت طالبِ علم کی خودکشی اور جے این یومعاملے پر فروغِ وسائلِ انسانی کی وزیر اسمرتی ایرانی نے 24فروری کوپارلیمنٹ جوآتش بارتقریرکی ،اس کے ذریعے سے انھوں نے روہت کے قتل اور جے این یومعاملے کوایک بالکل ہی الگ رخ دینے کی کوشش کی،وہ چوں کہ پوری تیاری کے ساتھ پہنچی تھیں ،جبکہ اپوزیشن کی طرف سے اپنے موقف کے اظہارمیں خاطرخواہ مظبوطی کا اظہار نہیں کیاگیا؛اس لیے جہاں نیوزچینلوں نے ایرانی کواسٹاربناکر پیش کیا،وہیں خودہمارے وزیر اعظم نریندرمودی نے ٹوئٹ کے ذریعے اپنی منسٹرکی پیٹھ تھپتھپائی،گوکہ بعدمیں ایرانی کی چرب زبانی کے پول کھل کر سامنے آرہے ہیں اورجے این یوٹیچرس ایسوسی ایشن سے لے کرروہت ویمولاکیس سے متعلق ڈاکٹرراج شری اورشیواجی کے تعلق سے ایرانی کی غلط بیان پرماٹنگاممبئی کے ڈان باسکواسکول کے پرنسپل فادر برنارڈ فرنانڈیزاورروہت ویمولاکے اہلِ خانہ و دوست نے ایرانی کے ذریعے پیش کیے گئے الگ الگ حوالوں کی قلعی کھولی ہے؛لیکن یہ پول اُسی وقت،پارلیمنٹ میں ،سب کے سامنے کھلتی توزیادہ اچھا ہوتا اورجذباتیت واداکاری سے لبریزایرانی کی غلط بیانیوں پرسے پردہ اٹھتا،ان سے قبل جے این یوسانحے پربحث میں حصہ لیتے ہوئے جادوپورمغربی بنگال سے ترنمول کانگریس کے ایم پی ڈاکٹرسگاتابوس نے تقریباً پچیس منٹ کی انتہائی مدلل،سنجیدہ اوردلائل و براہین سے لیس گفتگوکی تھی،جسے ایوان کے علاوہ سوشل میڈیاپر بھی لوگوں نے کافی سراہا،انھوں نے اپنی سپیچ میں کئی نکتے اٹھائے،اپنے تیس سالہ تدریسی تجربے کی روشنی میں انھوں نے حالیہ دنوں میں ہی جادوپوریونیورسٹی میں بعض طلبہ کی جانب سے ملک مخالف نعروں کاحوالہ دیتے ہوئے اوران کا کنڈم کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں طلبہ کوآزادی دینی چاہیے،غلطی کرنے کی بھی آزادی دینی چاہیے؛تاکہ اس سے انھیں سیکھنے کا موقع ملے اوراس طرح کے معاملوں کوان اداروں کی انتظامیہ پر چھوڑدیناچاہیے کہ وہ ان سے اپنے طورپرنمٹیں،انھوں نے اپنی گفتگومیں یہ بھی کہاکہ ہندوستان اتناکمزورملک نہیں ہے کہ چندنعروں کی وجہ سے وہ شکست و ریخت کے دہانے پر پہنچ جائے، اس کے علاوہ انھوں نے غداری سے متعلق قانون پربھی اچھی گفتگوکی تھی،ان کی باتیں بہت ہی سلجھی ہوئی اور قابلِ غورتھیں،مگرایرانی جی نے اپنی اداکارانہ صلاحیت کا اظہارکرتے ہوئے اورطنزیہ لہجے میںیہ کہتے ہوئے اس کوبے وقعت بنانے کی کوشش کی کہ’ مسٹربوس نے ایک اچھی علمی تقریرکی اورسونیاوراہل جی نے ان کی تاییدکی‘۔ایرانی نے اپنی جذباتیت سے معمور تقریرمیں دیش بھکتی کا تڑکابھی خوب لگایااور’بھارت ماتاکی جے‘جیسے سلوگن کوبھی برمحل استعمال کیا، اس کے بعدراجیہ سبھامیں بی ایس پی سپریموکے ساتھ روہت ویمولاکیس کی عدالتی تحقیق کے لیے تشکیل کردہ کمیٹی میں کسی دلت کے ہونے ،نہ ہونے پر دونوں میں توتومیں میں بھی میڈیاکی دل چسپیوں کا عنوان بن گیا۔اس طرح اگردیکھاجائے توپورے معاملے کوزبان کی تیزی و طراری اور باہمی توتکارکی نذرکردیاگیا،ایرانی نے پوری تقریرمیں28سالہ روہت ویمولاکانام لیے بنااسے ’ایک بچے کوسیاست میں گھسیٹاگیا‘کہہ کرمعاملے کومزید ہلکاکرنے کی کوشش کی،اس پہلوپر26فروری کے ہندوستان ٹائمس کے ایک کالم ’Sorry Smriti Irani but scholar Rohith Vemula was a hero, not a child‘میں ایرانی کی غلط بیانیوں اورروہت کی خودکشی کے اسباب پرخوب خبرلی گئی،مضمون نگارنے موجودہ حکومت کے رویے پرتلخ تبصرہ کرتے ہوئے لکھاکہ وہ ہمارے طلبہ کوتاریخ کی تہہ تک پہنچنے اورسماج کی سچائیوں کواجاگرکرنے ، انھیں اپنے حقوق کاعلم حاصل کرنے اور ہندوستان کی رنگا رنگ تہذیب و مذاہب سے واقفیت حاصل کرنے سے روکناچاہتی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ لوک سبھا اورراجیہ سبھادونوں میں اسمرتی ایرانی کے زبردست حملہ آورانہ اسپیچ کا جواب اپوزیشن کی جانب سے کوئی بھی نہ دے سکا،راہل گاندھی توایک دن پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ بی جے پی انھیں بولنے نہیں دے گی،جس کے جواب میں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کہاتھاکہ ہر کسی کوبولنے کی اجازت ہے ،حالاں کہ لوک سبھامیں راہل گاندھی توبولنے کے لیے کھڑے ہی نہیں ہوئے،ان کے علاوہ بھی چاہے سی پی آئی ہویاکانگریس،کسی کی جانب سے بھی ایرانی کے مدِمقابل کوئی مضبوط شخص کھڑانہ ہوا،ایم آئی ایم کے صدربیرسٹراسدالدین اویسی ایک دن قبل ہی اپنی چارمنٹ کی مختصر تقریرکرچکے تھے،اس میں انھوں نے اختصارکے باوجودبڑی اہم باتیں اٹھائی تھیں،جن کومزیدخود اعتمادی اور قوت کے ساتھ دوسروں کوبھی سامنے لانا چاہیے تھا،ایوان میں جب جے این یوسانحے ،افضل گروکی برسی پربات ہورہی تھی،توبی جے پی سے پوچھاجانا چاہیے تھاکہ وہ پی ڈی پی سے مل کر حکومت بنانے پرکیسے آمادہ ہوگئی،جبکہ پی ڈی پی خود افضل گروکوشہید مانتی ہے؟یہ مسئلہ بھی زیرِ بحث آناتھاکہ ناتھورام گوڈسے ،جوباباے قوم کا قاتل ہے،اس کوہیروماننے والوں کوکس خانے میں رکھاجاناچاہیے؟اوربھی بہت سے موضوعات تھے،جن پر اسمرتی ایرانی اوربی جے پی سے بازپرس ہونی چاہیے تھی، مگراپوزیشن نے انتہائی کمزورکرداراداکیااورایرانی کے ذریعے سے حکومت ملک کویہ پیغام دینے کی بھرپور کوشش کی کہ دلت اسکالر روہت ویمولاسمیت جے این کے متعلقہ طلبہ ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھے۔
زمینی سطح پران حالات کا جائزہ لینے بیٹھیں،توایسا لگتاہے کہ بی جے پی آنے والے الیکشن کے مدنظراصل ایجنڈوں کوپسِ پشت ڈال کراس قسم کے موضوعات میں لوگوں کوالجھاناچاہتی ہے،ہندوستان کے ماحول میں وطنیت یا حب الوطنی و قوم پرستی ہمیشہ سے ایک ایسا حربہ رہاہے،جس کے ذریعے سے سیاسی روٹیاں سینکنے کا بھرپورکام لیاگیاہے،کنہیاکماریااس کے ساتھیوں کا کیس انوکھانہیں ہے،ماضی میں بھی متعددشعبوں سے وابستہ مختلف افراد کے خلاف الگ الگ وجہوں سے غداریِ وطن کا الزام لگتارہاہے،مگرپھربھی حالیہ واقعے کی طرح راست طورپرحکومت کا اس میں شامل ہوجانایہ تعجب خیزہے،ایک تعلیمی ادارے کامعاملہ اس کے سپرد کردیناچاہیے تھا،خودبی جے پی کے پاس اس کی ایک مثال موجودہے،جب2001میں دہلی یونیورسٹی کے پانچ طالب علموں پرافغانستان میں امریکی حملوں کی مخالفت کرنے کی وجہ سے اسامہ بن لادن کی حمایت اورملک سے غداری کا الزام لگاتھا،تواس وقت کے وزیر داخلہ ایل کے اڈوانی نے وائس چانسلرسے صرف پندرہ منٹ کی گفتگوکے ذریعے معاملے کوسلجھادیاتھااوردس دن تہاڑجیل میں رکھنے کے بعدان طلبہ کورہاکردیاگیاتھا،مگرمودی لال کرشن اڈوانی کے عمل کوشایدہی نمونہ بنائیں!

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا