English   /   Kannada   /   Nawayathi

ریل کی خوبصورت باتوں کا بجٹ

share with us

وزیر ریل فخر کے ساتھ اعلان کرگئے کہ انہوں نے کرایہ نہ بڑھاکر 100 کروڑ بھارتیوں پر احسان کردیا اور وہ جو سال بھر کبھی اے سی کے کرایہ میں اضافہ کبھی تتکال کے بہانے جیب سے پیسے نکلوانا کبھی ٹکٹ واپسی کے پیسے نہ دینے کا اعلان، یہ سب کرایہ میں اضافہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اور اگر ایک مہینہ کے بعد وہ 20 فیصدی کرایہ بڑھا دیں تو کون دینے سے انکار کرے گا؟
سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ پیسے خرچ کرنے کے باوجود کوئی اپنی مرضی سے اپنی تاریخ میں کسی بھی کلاس میں سفر نہ کرسکے تو اس نظام پر لعنت ہے۔ بڑے شہروں میں 80 فیصدی آبادی چھوٹے شہروں سے آئے ہوئے لوگوں کی ہوتی ہے۔ گھر سے خبر آتی ہے کہ ماں، باپ، بھائی یا چچا جیسا کوئی انتہائی قریبی رشتہ دار مرگیا۔ تو ہم سر پٹخ کر مرجائیں تب بھی ہم ریل سے اپنے وطن نہیں جاسکتے۔ صرف ایک راستہ ہوتا ہے کہ ٹی ٹی کو منھ مانگی رشوت دے دیں تو وہ کہیں نہ کہیں چند گھنٹوں کے لئے آپ کو بٹھا دے گا۔ پربھوجی نے بڑا تیر مارا کہ ہر ٹرین میں ایک جنرل بوگی لگے گی۔ ہم نہیں سمجھے کہ انہوں نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ وہ لاکھوں مسافر جنہیں صرف دن میں سفر کرکے صبح سے چل کر رات سے پہلے یا دوپہر سے چل کر رات سے پہلے اتر جانا ہے انہیں سلیپر کوچ یا اے سی میں رات کے سفر کا کرایہ کیوں دینا پڑے؟ 25 بوگیوں میں ہر بوگی ریزرو ہونے سے ٹکٹ ملنے میں بھی کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں یہ وہ نہیں جانتے جو وزیر بن جاتے ہیں کیونکہ ریزرویشن سے ٹکٹ حاصل کرنا ایک فن ہے اور جس ملک میں 60 فیصدی جاہل یا 90 فیصدی جاہل یا معمولی تعلیم یافتہ عورتیں رہتی ہوں وہاں تتکال کے دس منٹ میں ریزرو کرانے کی بات کرنا اپنے کو جاہل ثابت کرنا ہے۔
یہ شکایت کہ ہر ٹرین لیٹ؟ اور یہ خوشخبری کہ 2020 ء تک 85 فیصدی ٹرینیں وقت پر چلنے لگیں گی۔ اس سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہے جو اس خوشخبری پر یقین کرے کیونکہ یہ تو پربھوجی بھی نہیں یقین دلاسکتے کہ 2019 ء میں حکومت بھی ان کی ہوگی اور ریل کے وزیر بھی وہی ہوں گے؟
آج کے بعد ریلوے بجٹ پر بحث شروع ہوگی 300 ممبر مشاعرہ کی طرح داد دیں گے اور باقی ممبران وہ کہیں گے جس کی ابتدا ہم کررہے ہیں۔ کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ اگر ریل میں اس محکمہ کا وزیر سفر کررہا ہو تو وہ ہر اسٹیشن پر یا چند منٹ پہلے یا وقت پر آئے گی۔ 1968 ء میں ہم نے یونس سلیم صاحب نائب وزیر ریلوے کے ساتھ سلون میں ایک سفر دہلی سے کالی کٹ (کیرالہ) مدراس اور دہلی کا کیا تھا۔ ان کے سکریٹری ہر بڑے اسٹیشن سے پہلے آکر بتاتے تھے اب فلاں اسٹیشن آرہا ہے۔ اتنی دیر رُکے گی اور اتنے لوگ ملنے آئیں گے۔ چاہیں تو چائے پلا سکتے ہیں۔ یاد نہیں کہ چار دن کے سفر میں ایک بار بھی سنا ہو کہ گاڑی لیٹ ہے۔ سلون میں رفتار کا میٹر بھی لگا تھا جو بتا رہا تھا کہ گاڑی کہاں کس رفتار سے جارہی ہے۔ ابھی چار دن پہلے اخباروں میں خبر تھی کہ ہاوڑہ سے لکھنؤ آنے والی ٹرین 15 منٹ پہلے پلیٹ فارم پر آگئی۔ اس لئے کہ اس میں نائب وزیر ریلوے سفر کررہے تھے۔ یعنی 48 برس میں اس میں کوئی فرق نہیں پڑا کہ اگر وزیر سفر کررہا ہو تو ایک منٹ بھی لیٹ نہیں ہوگی۔ تو کیوں نہ ریلوے کے پچاس نائب وزیر بنا دیئے جائیں اور وہ ہر طرف بس سفر کرتے رہیں؟
گذشتہ سال 50 اسٹیشنوں کو آدرش بنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اور یہ بھی تھا کہ اسٹیشن کو ایئرپورٹ جیسا بنایا جائے گا۔ ریلوے اسٹیشن پر کوئی تفریح کرنے نہیں آتا وہ بس صاف ہو۔ وہاں پانی مل جائے، چاہے قیمت دے کر، ہوا ہو، روشنی ہو اور اسے وقت پر ٹرین مل جائے۔ ہم نے سیکڑوں سفر کئے ہیں۔ اسٹیشن پر عیش کرنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا کیونکہ آنکھیں اس حسینہ کی طرف لگی رہیں جدھر سے وہ بل کھاتی ہوئی آئے گی۔ اس پر پیسہ برباد کرنا صرف عیاشی ہے۔ مسافر کو ٹکٹ آسانی سے ملے ٹرین وقت پر ملے بیٹھنے اور سونے کے وقت وہ اپنی مرضی سے سو سکے اس کے لئے وہ بڑھا ہوا کرایہ دینے پر ہر وقت تیار ہے۔
ہم نے کلکتہ کا سفر بار بار کیا ہے۔ ایک بار واپس آنے کا نہ کراسکے۔ تین دن کے بعد جب دوستوں سے کہا تو جواب ملا کہ یہ کلکتہ ہے 15 دن بعد کی تاریخ بتاؤ۔ ایک دوست بنگلہ دیش وِمان (foeku) میں افسر تھے انہیں پیار آیا تو کہنے لگے کہ پیسے لاؤ ہم کل کا کرا دیں گے۔ دوسری صبح ایک ڈرائیور آیا اس نے لفافہ دیا اور چلا گیا۔ کھولا تو اس میں وہ سب نوٹ رکھے تھے جو ہم نے دیئے تھے اور ہوائی جہاز کا ٹکٹ۔ ایک پرچہ پر لکھا تھا کہ میری ڈیوٹی نو بجے سے ہے۔ آپ کی فلائٹ گیارہ بجے ہے۔ آپ نو بجے ایئرپورٹ چلے جائیے۔ میری مصروفیت نہ ہوتی تو میں خود سوار کراکے آتا۔ اس کے بعد ایک بار ایمرجنسی کے زمانہ میں جانا ہوا تو ایک عزیز اور ساتھ تھے۔ میزبان سے کہا جو بھی خرچ ہو لکھنؤ بھجوادو۔ کہنے لگے ہم دریاباد والے آئے دن جاتے ہیں لیکن ایک مہینہ پہلے ریزرویشن کرالیتے ہیں ہم دونوں یہ کہہ کر چلے آئے کہ ’’سب سے بڑا روپیّہ‘‘ دیکھیں کیسے نہیں ملتی سیٹ؟ ہمارے دوست اسٹیشن چھوڑکر چلے گئے۔ ایک ٹی ٹی سامنے بیٹھے تھے۔ ہم نے سلام کرکے عرض کیا کہ لکھنؤ کے لئے کیا دو سیٹوں کا انتظام ہوسکتا ہے انہوں نے جواب دیا vo'; لایئے چالیس روپئے۔ ہم چار سو دینے کی نیت سے بات کررہے تھے اور انہوں نے دو گوہر مراد ہاتھ پر رکھ دیئے۔ ہم کیسے کہیں کہ ایمرجنسی لگادی جائے؟ لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ وزیر سفر کریں تو گاڑی لیٹ نہ ہو ایمرجنسی ہو تو کلکتہ کے پلیٹ فارم پر بیٹھا ٹی ٹی ای بغیر ایک روپیہ لئے دو برتھ دے دے اور عام حالات ہوں تو کسی قیمت پر برتھ نہ ملے اور زیادہ تر گاڑیاں لیٹ ہوں۔
تین دن پہلے بہار کی ایک خبر آئی تھی کہ وہاں نہ جانے کتنے نامکمل منصوبے بنے کھڑے ہیں۔ ان میں ہزاروں کروڑ روپئے خرچ ہوگیا ہے۔ وہ سب شاید نتیش کمار اور لالو یادو کے زمانہ کے ہوں گے۔ پربھو صاحب نے ان کا ذکر بھی نہیں کیا۔ ان میں جو روپیہ لگا ہے وہ ملک کی دولت ہے۔ اگر پربھوجی انہیں مکمل کراکے اپنا جھنڈا لہرا دیتے تو ملک کا ہزاروں کروڑ روپیہ برباد نہ ہوتا۔ اور وہ جو 2024 ء تک کے منصوبے بنا رہے ہیں وہ اگر نامکمل رہ جاتے تو دوسرا وزیر انہیں اس لئے مکمل کراتا کہ وہ روایت ہوتی۔ 2019 ء میں نہ 15 لاکھ کا الیکشنی جملہ ہوگا اور نہ اس کی تائید کرنے والا کوئی سادھو، سنت، سنیاسی بابا۔ اور مودی صاحب کے چیلے جو کررہے ہیں اس کے بعد اگر انہیں 100 سیٹیں بھی مل جائیں تو معجزہ ہوگا۔ اس لئے پربھو بھیا ہوں یا کوئی اور کسی کو 2019 ء سے آگے کے منصوبہ کا ذکر زبان پر نہیں لانا چاہئے۔ ہر بات پر مودی صاحب چپ رہ کر جو یہ سوچے بیٹھے ہیں کہ وہ ہر ٹھیکرا دوسروں کے سر پر پھوڑ دیں گے وہ ہنسی کھیل نہیں ہے۔ وہ بھی منھ میں زبان رکھتے ہیں۔
ایک بات اس کے باوجود عرض کرنا ہے (سہیل انجم صاحب نے جو کہہ دیا وہ حرفِ آخر ہے) کہ نئے وزیروں کو، وزیر اعظم یہ ضرور بتادیں کہ وزیر کو جواب دیتے وقت یہ نہ بھولنا چاہئے کہ آواز تو اونچی ہوسکتی ہے لیکن جسم کے ہر عضو کو قابو میں رکھنا چاہئے۔ جیسے دو برس سے جیٹلی صاحب اور سُشما سوراج صاحبہ دے رہی ہیں۔ وزیروں کو وہ چھوٹ نہیں مل سکتی جو جمہوریت میں مخالف لیڈر کو ملتی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا