English   /   Kannada   /   Nawayathi

بڑا خطرہ کون؟پانچ لڑکے یا پانچ کروڑ جاٹ

share with us

اور جس میں ضرورت اور شوق کی ہر چیز ہر وقت موجود رہتی تھی آج اس طرح جلا ہوا ہے کہ اس کے اندر اگر کوئی ایک لوہے کی کیل بھی تلاش کرنا چاہے تو اسے ناکام رہنا پڑے گا۔

دودھ کا پاؤڈر بنانے کی فیکٹری ایک اسکول جس میں 1200 بچے تعلیم پاتے تھے اور جس میں دس بسیں بچوں کو لانے لے جانے کے لئے کھڑی تھیں اور سب سے بڑھ کر وہ پارک جو 24 ایکڑ زمین پر بنا ہوا تھا جس میں سماج کے ہر فرد کے شوق کی چیز تھی شراب پینے والوں کے لئے خوبصورت بار انتہائی خوبصورت ریسٹورنٹ خواتین کے شوق اور بچوں کے شوق کی ہر چیز اس پارک میں تھی۔ اسے اس طرح پامال کیا گیا ہے کہ وہاں اب برسوں کھیتی بھی نہ ہو سکے گی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اب تک جہاں کہیں مسلمانوں کے خلاف یا کسی اور کے خلاف لوگ غصہ اتارتے تھے تو وہ آئے پیٹرول پھینکا آگ لگائی اور بھاگ گئے۔ جس کے اثر سے دس بیس یا پچاس فیصدی جلا اور باقی بچ گیا۔ روہتک میں تو کروڑوں روپئے کے جس یونٹ کو بھی نشانہ بنایا ہے اسے اس وقت تک اپنی نگرانی میں جلتے ہوئے دیکھا ہے جب تک وہ پورا جل کر راکھ نہ ہوگیا ہو۔ اور یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ہر جگہ سیکڑوں کی بھیڑ نے فوج اور پولیس کی طرف سے اطمینان کے بعد ہی یہ کام کرسکتی ہے۔
روہتک کے بڑے بڑے کاروباریوں کے کہنے کے مطابق کہ ہمارا چالیس ہزار کروڑ نقصان ہوا ہے اور ہم نے ہر پولیس افسرکو، ہر وزیر کو، ممبر اسمبلی کو غرض کہ ہر کسی کو ٹیلیفون کئے لیکن کسی نے ہماری مدد نہیں کی۔ اور وہ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ جاٹوں کے ریزرویشن سے ہمارا کیا لینا دینا؟ ہمیں بتایا جائے کہ آخر ہمیں کس بات کی سزا دی ہے؟
ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نے روہتک کے دورہ کا پروگرام بنایا لیکن ان کی ہی پارٹی اور ان کی ہی برادری کے ہندوؤں نے واپس جاؤ اور کالے جھنڈے دکھاکر انہیں دورہ کرنے سے روک دیا۔ انہوں نے ایک جگہ شور شرابہ کے درمیان بس اتنا کہا کہ بے قصور مرنے والوں کو پورا معاوضہ اور ان کے گھر کے ایک فرد کو نوکری دی جائے گی اور ایسی حرکتیں کرنے اور تباہ کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ اور سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔ اور جن کے کاروبار جلے ہیں انہیں پورا معاوضہ دیا جاے گا۔ جس کے لئے ایک تحقیقاتی ایجنسی بنائی جائے گی۔
ہمیں ہریانہ کے معاملات کی تفصیل بتانا نہیں ہے بس یہ عرض کرنا ہے کہ آزادی کے بعد پہلی بار ہندو بھائیوں کو یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ جو مسلسل مسلمانوں کے ساتھ کرتے رہے ہیں ان پر بھی وہی قیامت گذرتی تھی جو آج تمہارے اوپر گذر رہی ہے کہ ہر کسی کی زبان پر ہے کہ یہ فیصلہ کیسے کریں کہ اب کاروبار یہیں کریں یا کسی دوسری جگہ چلے جائیں۔ اور وہ یہ سوچنے میں اس لئے حق بجانب ہیں کہ حکومت ان کی تھی اور پولیس بھی ان کی تھی فوج بھی ان کی ہی مرکزی حکومت نے بھیجی تھی اور فسادیوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم بھی ان کی ہی حکومت نے دیا تھا۔ لیکن ہر جگہ لوٹ مار اور آگ لگانے والے سیکڑوں تھے اور گھنٹوں کھڑے رہ کر اور نعرے لگا لگاکر سب کو برباد کیا ہے۔ لیکن گھنٹوں میں فوج اور پولیس کا ایک سپاہی نہیں آیا اور مرنے والے صرف 18 ہیں۔ مسلمانوں کی طرح اٹھارہ ہزار یا اٹھارہ سو نہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ فوج کو بھی ہدایت تھی اور پولیس کو بھی کہ مارنا نہیں ڈرا دینا۔ اور سب جانتے ہیں کہ فوج صرف مارنے اور مرنے پر یقین رکھتی ہے ڈرانے کا سبق اسے پڑھایا ہی نہیں جاتا۔ اور یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ ہزاروں جاٹ ٹریکٹر ٹرالیوں میں بھرکر اسلحہ سے لیس فائرنگ کرتے ہوئے آتے تھے اور جلاتے تھے یا لوٹ کر لے جاتے تھے۔ کہا یہی جارہا ہے کہ یہ سماج کے ناپسندیدہ عناصر کی حرکت ہے اور ہریانہ حکومت جاٹوں سے اتنی ڈری ہوئی ہے کہ صرف 46 کے خلاف ایف آئی آر ہوئی ہے اور 150 کے خلاف شبہ کی رپورٹ۔ اس کی یہ کہنے کی بھی ہمت نہیں ہوئی ہے کہ یہ سب جاٹوں نے کیا ہے۔
ہندو ہریانہ کے ہوں یا اور کسی صوبہ کے انہیں معلوم نہیں کہ جب وزیر اعلیٰ اور وزیر مالیات زور دے کر کہیں کہ ہر کسی کے نقصان کی پوری تلافی کی جائے گی تو دھوکہ میں رہنے والا برباد ہوجاتا ہے۔ سنبھل میں 1978 ء میں جن کے غلہ منڈی میں گودام جلاکر راکھ کردیئے گئے تھے انہیں 1500 اور ایک ہزار کے چیک دیئے گئے تھے۔ بازار کی دکانوں اور ٹیلرنگ کی دکانوں کو پانچ سو دیئے گئے تھے۔ کشمیر میں ایک سال پہلے کے سیلاب میں پورا مکان برباد ہوجانے والے کو دو ہزار اور جموں میں ایک مرغی کے فارم کے مالک کو جو ہندو تھا صرف 1500/- کا چیک دیا تھا۔ وزیر بڑا ہو یا چھوٹا وہ جب معاوضہ کی بات کرے تو سمجھنا چاہئے کہ وہ یہ کہہ رہا ہے کہ چپ رہو اور انتظار کرو۔ رہی تحقیقات کی بات کہ کس کا کتنا نقصان ہوا ہے؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت صوبائی وزیر اعلیٰ کو حکم دے گی وہ ڈی ایم سے کہیں گے ڈی ایم ایس ڈی ایم سے، وہ تحصیلدار سے اور وہ نائب سے قانون گو سے اور آخر میں لیکھ پال سے۔ 100-100 روپئے میں بکنے والے لیکھ پال سیکڑوں کروڑ کی رپورٹ دیں گے تو وہ ایسی ہوگی جیسی انہوں نے برباد ہونے والی فصلوں کی دی ہے۔ جس کے بعد سیکڑوں کسانوں نے خودکشی کرلی۔ کیونکہ کسی کو اتنا بھی نہیں دیا جو وہ دوبارہ کھیت بو سکے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہر وزیر یہ سمجھتا ہے کہ وہ جو دے رہا ہے وہ اس کے باپ کی دولت ہے اور جو برباد ہوگیا اس میں وزیر کا کیا قصور؟
ہم نہیں جانتے کہ اسے کیا نام دیں کہ ہر ٹی وی چینل جب شروع کرتا ہے تو وہ جے این یو سے کرتا ہے۔ اور خالد عمر کو ایسے دکھاتا ہے جیسے یہ حافظ سعید کا بیٹا ہے اور آدھا وقت اس پر قربان کرنے کے بعد اس ہریانہ پر آتا ہے جو اتنا سنگین معاملہ ہے کہ ٹی وی پر اس کے علاوہ کوئی بات کرنا ناانصافی ہے۔ بیشک جیسے نعروں کا الزام ہے وہ شرم کی بات ہے کیونکہ یہ لڑکے لڑکیاں کل وزیر بھی ہوسکتی ہیں اور فوج کی افسر بھی اور یہ ملک اور اس کی گھاس کا ایک تنکا بھی اپنا ہے۔ لیکن یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ یہ بہرحال بچے ہیں اور ان کے نعروں سے نہ ہندوستان کی ایک اِنچ زمین کو نقصان پہونچا اور نہ افضل گرو زندہ ہوا۔ اسے بھی شاید اچھا نہ کہا جائے کہ وزیر داخلہ کے چہرہ پر جیسا اثر ان لڑکوں کے نعروں سے ہوا وہ پچاس ہزار کروڑ کے ہریانہ کے نقصان پر بھی نہیں تھا۔ وہاں وہ جاٹوں کو ایک دھمکی بھی نہیں دے رہے تھے۔ بلکہ ان سے اپیل کررہے تھے جبکہ انہوں نے ملک کو ہریانہ پر روک دیا تھا اور ریلوے کو مفلوج کردیا تھا اور وہ دشمن ملک کے فوجیوں کی طرف سے ملک کو تباہ کئے دے رہے تھے۔ حد یہ ہے کہ وہ پوری مرکزی حکومت کو پیاسا مارنے پر آمادہ تھے اور انہوں نے نہر پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس وقت بھی انہوں نے پولیس کو حکم نہیں دیا کہ گولیاں برسا کے نہر کو جاٹوں کے خون سے لال کردو۔ کیا لڑکوں کے نعرے ان سے بھی زیادہ خطرناک تھے؟
ہم ایک بات یہ ضرور معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ملک میں آزادی سے پہلے یا بعد مسلمانوں نے جاٹوں کے مقابلہ میں ہزارویں حصہ کی برابر بھی سرکشی یا شورہ پشتی کی ہے؟ اس کے باوجود 1993 ء میں ممبئی میں دو ہزار مسلمان مار دیئے گئے اور ایک ہندو کو کسی نے ایک دن کی سزا بھی نہیں دی اور پورے ملک میں 90 لاکھ سے زیادہ ماردیئے گئے کیا کسی کو سزا ہوئی؟ پھر یہ کیسی حکومت ہے کہ دیکھتے ہی گولی ماردینے کے حکم کا شور ہوتا ہے اور فوج اور پولیس آنکھیں بند کرلیتی ہیں تاکہ کہہ سکیں کہ جب دیکھا ہی نہیں تو مارتے کسے؟ ہم جیسے کو جس نے سنبھل سے گجرات تک نہ جانے کتنے فساد زدہ شہر دیکھے ہیں اور بہت گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ یہ معلوم کرنے کی اجازت دیجئے کہ کیا فوج سے یہ بھی کہا تھا کہ ہندو کچھ بھی کرے مارنا نہیں؟ جو تباہی ہریانہ میں ہوئی ہے وہ ایسی ہے کہ کوئی بھاگتے بھاگتے نہیں کرسکتا۔ اور جب سیکڑوں آدمی گھنٹوں کھڑے ہوکر سب کچھ تباہ ہونے کا انتظار کریں اور نہ فوج کو نظر آئیں نہ پولیس کو تو ڈر ہے، خوف ہے اور بزدلی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اور یہ اعتراف ہے کہ حکومت نے جاٹوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے اور یہ ملک کے لئے بہت برا ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا