English   /   Kannada   /   Nawayathi

تعلیمی اداروں پر مسلسل حملے

share with us

کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ آیا ہوگا۔ نریندر مودی کو زمام حکومت ہاتھ میں لیے دو سال بھی نہیں گذرے کہ ملک کا اقتصادی ڈھانچہ پوری طرح تباہ ہو چکا ہے۔ ایک طرف متواتر بڑھتی ہوئی مہنگائی ،روپے میں ریکارڈ گراوٹ اور شیئر بازار میں بھاری اتھل پتھل،بے روزگاری کی مار اور بدعنوانی کا مہیب سایہ ہندستانی عوام کے سرپر منڈلا رہا ہے تو دوسری طرف عدم رواداری ، تشددکے ماحول اور فرقہ وارانہ فسادات کی کشیدگی نے ملک کے امن وسلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
’’گڈ گورننس‘‘ کے جو سنہرے سپنے دکھائے گئے تھے سرکار اسے پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ معاملہ صرف اتنا نہیں ہے، بلکہ اب حکومت نے اعلانیہ طور پر اختلاف رائے اور احتجاج کی آواز کو کچلنے اور قوم پرستی اور حب الوطنی کے نام پر سنگھ پریوار کے نظریات کو تھوپنے کا کام شروع کردیا ہے۔ دانشوروں، صحافیوں اور ادیبوں کے ساتھ مسلسل ملک کے اہم تعلیمی ادارے اور مراکز پر جس تیزی سے مسلسل حملے ہورہے ہیں وہ ہر کسی کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ ذیل میں ملک کے ان چند مایہ ناز تعلیمی اداروں کے واقعات مختصر درج کیے جاتے ہیں جو اب تک مودی حکومت کے عتاب کا شکار ہوچکے ہیں۔ 
نریندر مودی اور حکومت کے موقف پر تنقید کی وجہ سے کچھ دنوں پہلے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مدراس(IIT-M)کی ایک اسٹوڈنٹ باڈی ’’امبیڈکر پیریار اسٹڈی سرکل‘‘(APSC) پر 22؍ مئی 2015ء کو پابندی عائد کردی گئی۔ یہ کاروائی HRDمنسٹری کی مداخلت سے عمل میں آئی اور یہاں بھی ملحوظ رہے کہ APSCسے جڑے زیادہ تر طلبا دلت طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس واقعہ سے دلتوں اور پسماندوں کے ساتھ حکومت کے متعصبانہ رویے کے ساتھ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ حکومت کسی بھی طرح کی نکتہ چینی اور تنقید کو برداشت نہیں کرسکتی جبکہ جمہوریت میں اختلاف رائے کے اظہار ک ہر کسی کو حق حاصل ہے۔
اسی طرح کا ایک دوسرا حملہ ’’فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا‘‘ (FTII) (پونے، مہاراشٹر) پر بھی ہوا جب حکومت نے مشہور ٹی وی سیریل ’’مہابھارت‘‘ میں ’’یدھشٹر‘‘ کا کردار اداکرنے والا اور بی جے پی کا ایک ممبر گجیندر چوہان کو اس کا چیئرمین نامزد کیا ۔آج کل یونیورسیٹیوں میں بحیثیت وائس چانسلر جن اصحاب کی تقرری ہورہی ہے وہ سب بی جے پی اور آر ایس ایس سے جڑے ہوئے افراد ہیں۔ بہرحال گجیندر چوہان کی تقرری طلبا کے لئے غیر متوقع تھی اور طلبا اسے اہم اہم منصب کے اہل نہیں سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے اسے چیئرمین کے طور پر قبول کرنے سے انکار کردیا اور اس کے خلاف وہ 12؍ جون 2015ء کو غیر متعینہ بھوک ہڑتال پر چلے گئے اور ہڑتال کا یہ سلسلہ 139دن تک جاری ر ہا مگر حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی اور گجیندر چوہان اب تک FTIIکے چیئرمین بنے ہوئے ہیں۔
2016 شروع ہوتے ہی جامعہ اور علی گڑھ کے ’’اقلیتی اسٹیٹس‘‘ کا معاملہ سامنے آیا۔ ابھی اس پر بات چل ہی رہی تھی کہ ایک بے حد المناک حادثے نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا۔ یہ حادثہ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے دلت ریسرچ اسکالر روہت ویمولا کی خودکشی (17؍ جنوری 2016ء ) کا ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے ’’انٹی ٹیوشنل مڈر‘‘ (Institutional Murder) کا بھی نام دیا ہے۔ کیونکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے HRDمنسٹری کی مداخلت اور مرکزی وزیربرائے مزدور اور روزگار بندارودتاتریہ کے دباؤ میں آکر جوسلوک روہت ویمولا اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ کیا، وہ اس قدیم برہمنی نظام کی یاد دلاتا ہے جومنو سمرتی کے درجات(ورنا) کی بنیاد پر قائم ہے۔ روہت اور ان کے ساتھیوں پر ملک سے غداری ، شدت پسند اور ذات پرستی کے الزامات عائد کرکے انہیں یونیورسٹی سے باہر نکال دیا گیا حتی کہ ان پر یونیورسٹی کے حدود میں داخل ہونے پربھی پابندی عائد کردی گئی جو ایک طرح سے ان کا سماجی بائیکاٹ تھا۔حکومت کی جبریت اور یونیورسٹی انتظامیہ کی بربریت سے تنگ آکر بالآخر روہت نے موت کو گلے لگا لیا۔
روہت کی خودکشی کامعاملہ زوروں پر ہی تھا کہ حکومت نے جے این یو پر حملہ بول دیا۔ جے این یو حکومت کی نظر میں ہمیشہ سے کھٹکتی رہی ہے کیونکہ سماجی انصاف، غریبوں ، پسماندہ طبقوں،عورتوں اور استحصال زدہ معاشرے کے حقوق کے لیے جے این یو نے ہمیشہ آواز اٹھائی ہے۔ 9؍ فروری 2016ء کو جے این یو میں ایک ثقافتی پروگرام کا انعقاد کیا تھا جس میں کچھ مشتبہ لوگوں نے ’’ملک مخالف نعرے‘‘ لگائے۔اس واقعہ کے ویڈیو کو بعض نیوز چینلوں نے توڑ مڑور کرکے عوامی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی اور اسی غیر معتبر ویڈیو کی بنیاد پر دلی پولیس نے تعزیرات ہند دفعہ 124Aکے تحتSedition( ملک سے غداری)کا الزام لگا کر اسٹوڈنٹ یونین کے صدر کنہیا کمار کے ساتھ یونیورسٹی کے دیگرطلبا کو گرفتار کرلیاہے ۔جبکہ ملک کے بڑے بڑے ماہرین قانون کی رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ ان پر کسی بھی طرح Seditionکا الزام نہیں لگ سکتا۔ اس سلسلے میں میڈیا اور پولیس کا شرمناک رول بے حد افسوسناک ہے کہ یہ لوگ اپنی خوداختیاری اور احساس ذمہ داری کو فراموش کرکے حکومت وقت کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔ جے این یو کے اس واقعہ کے پس پردہ حب الوطنی کے نام پر سنگھ نظریات کے پرچارک جس طرح کھلے عام غنڈہ گردی، گالی گلوچ، طلبا و اساتذہ اور صحافیوں کے ساتھ بدتمیزی اور مارپیٹ اور عدالت کی توہین پر اتر آئے ہیں وہ آزاد اور جمہوری ہند کا نہایت شرمناک باب ہے۔ جن صاف ظاہر ہے کہ بی جے پی اینڈ آرایس ایس کمپنی کی یہ حکومت سرکاری مشینری کا ناجائز استعمال کرکے طلبا کی اظہار آزادی کا گلا گھونٹنے پر آمادہ ہے۔ 
جے این یو کے بعد حکومت کا اگلا نشانہ علی گڈھ مسلم یونیورسٹی بن چکا ہے ۔ کچھ دنوں پہلے علی گڑھ کی میئر شکنتلا بھارتی نے یونیورسٹی پر یہ الزام لگا کر بدنام کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہاں کی کینٹین میں بیف بریانی فروخت کیا جارہا ہے جبکہ بعد کی تحقیق نے ثابت کیا کہ وہ وہاں بیف نہیں بلکہ بھینس کے گوشت کی بریانی ہے۔دوسرے ہی دن بی جے پی کے ایم پی ستیش گوتم نے وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ کو خط لکھتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ جے این یو کے حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ سنگھ مخالف، سرکار مخالف اور بی جے پی مخالف سرگرمیوں سے باز آجائیں ۔ ممبر پارلیمنٹ کا یہ دھمکی آمیز خط حکومت کے منشا کوظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔
حب الوطنی اور وطن پرستی کے نام پر ہندوتونظریات کے محافظ جس طرح دانشوروں کی آواز کو دبانے اور اختلاف رائے کے حق کو کچلنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں وہ یقیناًملک کی سا لمیت اور امن و سلامتی کے لئے ایک خطرہ ہے۔ان تمام واقعات سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ حکومت ملک کو ان غیر اہم معاملات میں الجھا کر اپنی وسیع ناکامی پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے اوریونیورسیٹیوں پر یہ متواتر حملے اس لیے ہیں کہ یہ لوگ آرایس ایس کے ہندوتو نظریے کی تبلیغ و اشاعت میں روڑہ نہ اٹکا ئیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا