English   /   Kannada   /   Nawayathi

اب تو آنکھیں کھولو!

share with us

یہ گرتے ہوئے صحافتی اقدار معیار کے محافظ ہیں۔ یہ ہندوستان کے سیکولر کردار اور اس کے وقار کے نگہبان ہے۔ ایسے ہی صحافیوں نے گجرات، مظفرآباد اور کشمیر میں جبر و استبداد کے خلاف آواز اٹھائی۔ چونکہ ان کا تعلق مسلم طبقہ سے نہیں ہے‘ اس لئے انہیں سیکولرزم کی سند ملے گی اور ملنی بھی چاہئے۔ اگر یہی آواز کوئی مسلم صحافی اٹھانے کی جرأت کرتا تو اسے فرقہ پرست ہی نہیں بلکہ غدار وطن قرار دیا جاتا۔ جب ہم عشرت جہاں سے متعلق ہیڈلی کے بیان پر یقین کرسکتے ہیں تو جے این یو میں افضل گرو کی برسی کے موقع پر منعقدہ پروگرام کی ویڈیو کلیپنگ میں بھارتیہ کورٹ زندہ باد کے بجائے پاکستان زندہ باد کے نعروں کی ڈبنگ سے متعلق وشوا دیپک کے بیان پر اعتبار کیوں نہیں کرسکتے۔ ہیڈلی تو پاکستان کا بھی ایجنٹ رہا ہے وہ تو ممبئی حملوں مجرم بھی ہے جبکہ وشوا دیپک ہندوستان کا ایک باوقار صحافی ہے جس نے صحافت جیسے مقدس پیشہ کو ناپاک بنانے کی کوششوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ اگر وشوا دیپک کے انکشافات پر یقین کیا جائے تو مجرم جے این یو کے طلبہ نہیں وہ میڈیا ادارے ہیں جنہوں نے ان طلبہ کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے انہیں قوم کا اثاثہ ثابت کرنے کے بجائے انہیں ملک کا غدار ثابت کرنے کی کوشش کی۔ یہ میڈیا ہی ہے جو صورتحال کو اپنے انداز سے بدل دیتی ہے۔ اس وقت پورے ملک میں انتشار، بدامنی کی کیفیت ہے۔ حیدرآباد یونیورسٹی کے روہت ویمولا کی خودکشی کے واقعہ نے ملک کی آبادی کی ایک بڑے حصہ کو بے چین و بیدار کردیا۔ ملک کے گوشے گوشے میں احتجاج جاری ہے۔ اس کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لئے جے این یو کا ناٹک رچایا گیا۔ کنہیا کمار کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس نے اس بہاری نوجوان کو بین الاقوامی سطح پر مشہور کردیا۔ چونکہ بہاری عوام بھی کنہیا کمار کے ہمنوا ہوگئے۔ خود بی جے پی اہم قائد شتروگھن سنہا نے تک کنہیا کمار کی حمایت کی اور بچھڑے ہوئے طبقات کی ایک بڑی تعداد حکومت کے خلاف ہوگئی تو میڈیا کے سہارے توجہ کنہیا کمار سے ہٹاکر عمر خالد کی طرف مرکوز کردی گئی۔ عمر خالد ایک 28سالہ نوجوان جو بائیں بازو کی جماعت ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے برسوں سے وابستہ رہا جس کے بارے میں یہ شبہ کیا جاتا رہا کہ ماؤنوازوں سے ڈی ایس او کی قربت ہے۔ اور جس نے اپنے 15ساتھیوں کے ساتھ حال ہی میں استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسے اچانک جہادی بنادیا گیا۔ اس کا تعلق دہشت گرد تنظیموں سے جوڑ دیا گیا۔ عمر خالد نے ٹائمزناؤ اور زی نیوز کے مباحث میں بڑی جرأت کے ساتھ جہاں اپنے خلاف الزامات کی تردید کی وہیں اپنے موقف کا اظہار بھی کیا۔ یونیورسٹی کیمپس میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے اس نوجوان نے دوٹوک لہجہ میں کہا کہ اس کا نام عمرخالد ضرور ہے مگر وہ دہشت گرد نہیں ہے۔ اس نے ان الزامات کی تردید کی کہ وہ کبھی پاکستان گیا تھا۔ کیوں کہ اس کے پاس پاسپورٹ تک نہیں ہے۔ عمر خالد کے خیالات بائیں بازو کی آئیڈیالوجی کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر اس قسم کے خیالات کوئی غیر مسلم کرتا ہے تو اسے حق گوئی اور بے باکی کا نام دیا جاتا ہے۔ افسوس کہ عمرخالد بائیں بازو نظریات کا حامل ہونے کے باوجود مسلمان ہے اور اس پر الزام ہے کہ اس نے کشمیر سے متعلق نرم رویہ اختیار کیا ہے اور افضل گرو کی برسی کے موقع پر منعقدہ پروگرام میں مخالف ہند نعرے لگانے والوں میں یہ بھی شامل تھا۔ افضل گرو پر کافی مباحث ہوچکے ہیں۔ کئی معتبر باوقار اخبارات و جرائد نے ہے لکھا ہے کہ افضل گرو کو اپنی صفائی کا موقع نہیں دیا گیا۔ افضل گرو کا تعلق کشمیر سے تھا وہ کشمیر جس کے لئے ہندوستان نے اپنے پڑوسی ملک پاکستان سے چار جنگیں لڑی ہیں۔ کشمیر سے ہمیں محبت ہے۔ کشمیر کے لئے ہم ہر قربانی دینے کے لئے تیار رہتے ہیں مگر کشمیری عوام سے ہمیں محبت نہیں ہے۔ کشمیری عوام کے مسائل سے واقفیت حاصل کرنے کی کسی کو بھی دلچسپی نہیں ہے۔ جو ریاست ہندوستان کی خوبصورت ترین ریاست ہے جسے جنت ارضی کہا گیا‘ جس کی سیاحت سے خاطر خواہ آمدنی حاصل ہوتی ہے‘ اس کشمیر کے عوام کا کیا حال ہے۔ وہاں ایسی کوئی ملٹی نیشنل کمپنی یا صنعتی ادارے نہیں جو تعلیم یافتہ کشمیری نوجوانوں کو روزگار فراہم کرسکے۔ بار بار کرفیو، سیکوریٹی فورسس کے مظالم، فرضی انکاؤنٹرس، بے قصور نوجوانوں کی گرفتاری نے بعض نوجوانوں کو گمراہ بھی کیا اور بدظن بھی جس کی سزا پوری کشمیری قوم کو مل رہی ہے۔ کشمیری عوام کو خود کشمیری سیاست دانوں نے دھوکہ دیا، ان کے مفادات کا سودا کیا۔ ان کے جذبات سے کھلواڑ کیا۔ بی جے پی نے پی ڈی پی کے ساتھ کشمیر میں مخلوط حکومت تشکیل دینے کے بعد بہت سے وعدے کئے تھے۔ کئی پیاکیجس کے اعلانات کئے تھے۔ عمل ابھی تک نہیں ہوسکا۔
بہرحال عمر خالد جو ایک ہونہار ذہین طالب علم، ایک بہترین مقرر‘ اور ایک ابھرتا ہوا قائد ہے۔ جماعت اسلامی کے جناب سید قاسم الیاس رسول کے فرزند ہے۔ قاسم الیاس رسول خود ایک صحافی ہیں‘ اگرچہ کہ ان کا تعلق ماضی میں اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ (سیمی) سے تھا۔ اس وقت سیمی ممنوعہ تنظیم نہیں تھی۔ 2001ء پر اس پر پابندی عائد کی گئی۔ قاسم الیاس رسول کہتے ہیں کہ چوں کہ ماضی میں ان کا تعلق سیمی سے رہا اس لئے ان کے فرزند کو غدار قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قاسم الیاس رسول نے ایک صحافی اور جماعت اسلامی کے ذمہ داری کی حیثیت سے ہمیشہ وطن عزیز سے وفاداری اور اس سے محبت کا اظہار کیا۔
ہندوستان میں اس وقت گجرات میں ہاردک پاٹل کی قیادت میں پاٹیداروں کا اور شمالی ہند میں جاٹ برادری کا تحفظات کے مسئلہ پر پُرتشدد احتجاج جاری ہے۔ سرکاری املاک، قومی اثاثوں کو نقصان پہنچایا جارہا ہے حکومت کے خلاف نعرے لگائے جارہے ہیں مگر ان سے مذاکرات کی کوشش کی جاتی ہے‘ ان کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے تیقنات دےئے جاتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میڈیا نے بھی زعفرانی لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ اس کی ذہنیت اب کھل کر سامنے آرہی ہے۔ یہ ایک منصوبہ بند طریقہ سے ملک کی اقلیتوں کو احساس کمتری کا شکار بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے خلاف ملک کی اکثریتی آبادی کی رائے عامہ ہموار کررہے ہیں‘ ان کے خلاف ذہن سازی کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسے حالات مسلمانوں کے لئے نئے نہیں ہے۔ آزادی کی تحریک کے لئے بھی مسلمانوں نے ہی خون بہایا تھا جو انگریزوں کے آلہ کار تھے جو ان سے انعامات کے طلبگار تھے آج وہ قوم پرستی کا دعویٰ کررہے ہیں۔ ملک آزاد ہوا اور آزاد ہندوستان کی تاریخ مسلمانوں نے اپنے خون سے لکھی۔ اور آزاد ملک کی سرزمین کو بھی اپنے خون سے ہی سیراب کیا۔ 68برس کے دوران پچاس ہزار سے زائد فسادات ہوئے۔ خون بھی بہایا گیا‘ مال و اسباب بھی لوٹا گیا مگر وہ مسلمان ہی کیا جو حالات سے ڈر جائے۔ وہ تو آزمائشی حالات میں ثابت قدمی اور صبر کو سنت کی پیروی مانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر تباہی کے بعد ایک نئے جذبے جوش و ولولہ کے ساتھ وہ دوبارہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اس کا حال اس شاخ زیتون کی طرح ہے جس سے ایک پتا توڑا جاتاہے تو کئی نئے پتے نکل آتے ہیں۔ موجودہ حالات آزمائشی ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں کو اپنے اختلافات کو دور کرکے ایک ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ شرم کی بات ہے کہ ہر جگہ مارکھانے پٹنے کے باوجود ابھی تک ہمیں ہوش نہیں آیا۔ ہم بجائے حالات سے مقابلہ کیلئے اپنے آپ کو تیار کرنے کے ایک دوسرے کیخلاف سازشوں میں مشغول ہیں۔ آج بعض ملت فرشووں کو دشمنان اسلام، دامے درمے سخنے مدد کررہے ہیں۔ تاکہ ملت اسلامیہ میں انتشار پیدا ہو۔ آج وقتی طور پر تو انہیں فائدہ ہوگا مگر آنے والے دنوں میں جو لوگ جو طاقتیں ان کی پشت پناہی کررہی ہیں وہی انہیں بھی مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔
یہ وقت قوم کے ہر فرد کے لئے اپنے محاسبہ کا ہے اپنے نئی نسلوں کی نگرانی، ان کی تربیت، انہیں آنے والے حالات سے مقابلے کا اہل بنانے کا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری نئی نسل گمراہی کی راہ پر ہے جس کے ہم بھی ذمہ دار ہیں۔ نئی نسل گمراہ ہوجائے، اخلاق اور کردار باقی نہ رہے تو پھر مستبقل سے کیسی امید۔ اب بھی وقت آنکھیں کھولنے کا، سنبھلنے کا، اٹھ کھڑے ہونے کا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا