English   /   Kannada   /   Nawayathi

جرمنی میں بچوں کے اعضاء کادھندا

share with us

کیونکہ ان ممالک میں بنیادی سہولت کا ہی فقدان ہے تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جرمنی مسلمانوں کی ایک تنظیم ’’سینٹرل کونسل آف جرمن مسلمان ‘‘نے جرمن میں بے خانماں مسلم پناہ گزینوں کے بچوں کے اعضاء کے فروخت کا دھندا شرع ہونے کا حیرت انگیز انکشاف کیاہے بچوں کو اغوا کرکے ان کے گردے ،جگر اور دیگر اعضاء نکالکر یو رپی ممالک اسمگل کئے جارہے ہیں۔جب کہ بچیوں کو جسم فروشی مافیاکے ہاتھوں فروخت کیاجارہاہے گزشتہ ۱۳؍ماہ کے دوران جرمنی میں۵؍ہزار سے زیادہ مسلمان بچوں اوربچیوں کا اغواء کیاجاچکاہے اطلاعات ہیں کہ، اعضاء فروش مافیا،مقامی اسپتالوں میں ان ننھے منے بچوں کے جسمانی اعضاء نکال کر یورپی ممالک میں بیمار بچوں کو ٹرانس پلانٹ کررہے ہیں اس مذموم دھندے پرپولس اور جرمن وفاقی ادارے اوراقوام متحدہ سمیت تمام عالمی امدادی اداروں نے خاموشی اختیارکررکھی ہے واضح رہے کہ ایمان مزائک نے اپی پریس کانفرنس میں جرمن فیڈرل حکومت کے ایک سینئر ایڈوائزر john wilh roerig کے ہمراہ صحافیوں سے اس حساس مسئلہ پر گنتگو کی او رتصدیق کی کہ شامی پنا ہ گزینو ں کے بچے اور بچیاں جسم فروش اور اعضاء فروش جرم مافیاز کے ہاتھوں چڑھ چکے ہیں مافیاکے اراکین امدادی اداروں کے کارکنان اور طبی عملے کے روپ میں پناہ گزیں کیمپوں میں جاتے ہیں اور کم سن بچوں کا انتخاب کرکے انہیں لے جاتے ہیں بچوں کے اغواء اور فروخت کی خبریں جرمنی کے علاوہ کروشیا،یونان ،اور ڈنمارک سے بھی ملی ہیں برطانوی اخبا ر ،ڈیلی میل ،آن لائن کی ایک رپورٹ کے مطابق یوروپی ممالک میں ہجرت کے دوران بچوں اوربچیوں کے گمشدگی کے منطم اور افسوسناک واقعات رونماہوئے ہیں جس کے بارے میں ’یورپین پالیسی ایجنسی یوروپول‘نے تصدیق کی ہے کہ دوسال میں شام اور دیگر خطو ں میں ترک مکانی کرکے یورو پ پہنچنے والے کم از کم ۱۰؍بچے اپنے والدین سے بچھڑچکے ہیں اور ان کے بارے میں کوئی اتا پتا نہیں ہے کہ یہ بچے اس وقت کہاں ہیں۲۳؍ماہ میں جرمنی میں گم ہونے والے بچوں میں ۴۳۱؍بچوں کی عمریں ۱۳؍سال سے کم ہیں اور ۲۸۷؍بچوں کی عمریں۱۴؍سے ۱۷؍سال کے درمیان ہیں جب کہ ۳۱؍بچوں کی عمریں۱۷؍سے ۱۸؍سال کے درمیا ن ہیں واضح ہوکہ اقوام متحدہ کے ایک کنونشن کے مطابق۱۸؍سال سے کم کانوجوان بچہ کہلاتا ہے او ر اس کو بچوں کے حقوق حاصل ہوتے ہیں بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں سال گزشتہ ایک بڑے سفاک اورالمناک واقعہ کے بعدآخر کار لوک سبھا سے پاس شدہ’جوینائل جسٹس‘ترمیم بل’راجیہ سبھا میں منظور ہوگیااب اس پاس شدہ بل پرصدر جمہوریہ ہند کے دستخط کے بعدقانون بن جائیگاکہ نابالغ کے ذریعہ زنااور قتل کے مرتکب مجرمین کی عمر اب ۱۸؍کے بجائے ۱۶؍سولہ ہی مانی جائے گی یعنی آئندہ ایسے کم عمر مجرمین کو سزا دینے کا راستہ صاف ہوگیاہے واضح ہوکہ ’جوینائل جسٹس‘بھار ت میں۱۸۵۰ ؁میں قانون کے تحت وجود میں آیاتھاجس میں ۱۰؍سے ۱۸؍سال کے بچوں کے مجرمانہ فعل کوکورٹ کے ذریعہ ایسے کم عمر بچوں کوووکیشنل تربیت دیکر’بعد کی ان کی بہترزندگی کو بحال کرنے کی کوشش کاتھاجس میں کئی بار ترمیم عمل میں آچکی ہے اقوام متحدہ نے ۱۹۸۶ ؁میں اس قانون کو منسوخ کرتے ہوئےU N convention on the rights of the child(UNCRC) (بچوں کے حقوق پر اقوام متحدہ کی کنوینشن )کومنظوری دی تھی اس میں بھی کئی بار ترمیم کی گئی ہے بھارت میں ایک بڑے ہنگامے کے بعدجس عجلت میں ’جوینائل جسٹس‘قانون میں ترمیم کی گئی ہے وہ قابل دیدہے بہرحال جدید ذرائع ابلاغ، کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی نے جسم فروشی کے اس قبیح میدان کو ایک باقاعدہ اور منظم شکل دیدی ہے اور بڑی تیزی کے ساتھ اس میں کم عمر بچوں اوربچیوں کو دھکیلا جارہا ہے ، اس طرح مغربی دنیاکا عریاں اور ہوس پرست کلچر جو جنسی خواہش کا غلام ہے، بچوں کی جنسی استحصال کی بین الاقوامی منڈی بنا ہوا ہے اور اس مکروہ اورجنسی منڈی میں دنیا بھر کے نونہال اسمگلنگ ہو کر آتے ہیں ،بڑے بڑے شہروں میں جہاں ٹورروز کو فروغ دیا جارہاہے، وہاں بچوں کے جنسی استحصال کو خود بخود فروغ مل رہا ہے، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(I-L-O)کے مطابق اسمگلنگ کئے گئے لڑکے لڑکیوں کو مساج پالر، ریسٹورنٹ، ہوٹل، ڈسکو بار اور عیش گاہو ں میں رکھا جاتا ہے اور کمال ہوشیاری سے ان کا جنسی استحصال جاتا ہے ، ان کے علاوہ جنسی تجارت، جنسی شو، خواہ وہ عمومی طور پر ہو یا مخصوص افراد کے لیے ان مخصوص لوگوں یا مخصوص کمیونٹی کی ترقی و تقسیم میں ان کو بھر پور استعمال کیا جاتا ہے۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا