English   /   Kannada   /   Nawayathi

وہ آئے اور اپنا کام کرکے چلے گئے

share with us

مولانا احمد بخاری جنہوں نے اپنے آپ کو احمد بھکاری بنا لیا ہے طبقۂ علماء کے ناموس پر دھبّہ بن گئے ہیں۔ انہیں نہ 2004 ء میں ’’ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ کی شہرۂ آفاق ہیروئن کے شانہ بشانہ بی جے پی کے لئے ووٹ مانگتے شرم آئی اور اس کا لحاظ کیا کہ وہ نہ صرف نامحرم ہے بلکہ وہ اسے اپنا قائد بنانے کے لئے ان سے ووٹ مانگ رہے ہیں جنہیں وہ دہلی کی تاریخی جامع مسجد میں امام کی حیثیت سے نماز پڑھاتے ہیں اور امیدوار اسمرتی ایرانی اس بی جے پی کی امیدوار ہے جسے امام تو کیا مسلمان ہی برداشت نہیں۔ یا 2014 ء میں انہوں نے سونیا گاندھی سے سودا کرکے کانگریس کے لئے اپیل کرنے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کی۔ کہ وہ دو سال پہلے ملائم سنگھ کے لئے بھی اپیل کرچکے ہیں اور اپنے نااہل داماد کو جو شاہی جامع مسجد کے شاہی امام کا داماد ہوتے ہوئے سہارن پور جیسی مسلم نواز سیٹ سے اسمبلی کا الیکشن نہ جیت سکا اسے انہوں نے اپنی حمایت کی قیمت وصول کرنے کے لئے ایم ایل سی بنوا دیا۔ جو بڑے تعلقہ دار جیسے اعزاز سے کہیں زیادہ ہے اور اب پھر وہ اترپردیش سے خراج وصول کرنے آگئے ۔
ہم نے تو اپنی محنت سے تنویر پریس لگایا تھا۔ بچوں نے اپنی محنت سے ردا ہوٹل بھی اسی عمارت میں بنا لیا۔ 2012 ء کے الیکشن میں ایک پارٹی مومن انصار کے عہدیداروں کی ہوٹل میں آکر ٹھہری۔ انتہائی قیمتی کھدر کی پوشاکیں کلف کے کڑکڑاتے کرُتے زیب تن کئے وہ صبح سے شام تک دوڑ بھاگ میں لگے رہے۔ صدر صاحب بھی تھے، جنرل سکریٹری بھی اور سرپرست بھی۔ ایک دن صدر صاحب اکیلے اپنے ساتھیوں سے یہ کہہ کر گئے کہ آج لمبی ملاقات ہوگی اور نیتا جی نے مجھے اکیلے بلایا ہے۔ میں دوپہر کو آپ سب کو فون کرکے بلا لوں گا۔ آپ تیار رہیں اور جب دوپہر ختم ہونے لگی تو سب فکرمند ہوگئے اور شام تک ہر جگہ تلاش کرنے کے بعد صدر صاحب نہیں ملے اور نیتاجی کے دولت خانہ پر کسی نے بتایا کہ وہ تو دوپہر مل کر چلے بھی گئے تھے تب خیال آیا کہ وہ پوری قیمت لے کر فرار ہوگئے۔
ان کی پارٹی کے دوسرے تمام لوگوں نے ہمارے ہی پریس میں ایک بیان چھپوایا کہ تمام عہدیداروں نے اپنے صدر کی نااہلی کی بنیاد پر ان کو مومن انصار پارٹی سے نکال دیا ہے۔ اور نئے انتخاب کے بعد۔۔۔ کو صدر۔۔۔ کو سکریٹری اور۔۔۔ کو سرپرست بنا لیا ہے۔ سنا ہے کہ وہ اس ریزرویشن کو لے کر در در بھٹک کر واپس چلے آگئے اس لئے کہ ایک پارٹی کو ایک بار ہی نوازا جاتا ہے۔ مولانا بخاری کی ریاستی پارٹی کے صدر بلال نورانی لکھنؤ کی معروف شخصیت ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ امام صاحب اپنے داماد کو لے کر خاموشی سے وزیر اعلیٰ سے ملنے گئے۔ (اور شاید مومن انصار کے صدر کی طرح کامران ہوکر آگئے۔) اور انہوں نے شہر کے لوگوں کو ساتھ کیوں نہیں لیا؟ اور وہ یہ بھی معلوم کرنا چاہتے تھے کہ وہ کون کون عالم ہیں جو اُن کے ساتھ وزیر اعلیٰ سے مسلمانوں کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کا حساب لیں گے۔
آج اخبار میں فوٹو چھپا ہے۔ شاید وہ بلال نورانی صاحب کے جواب میں چھاپا گیا ہے اس میں جن کی صورتیں نظر آرہی ہیں۔ اگر وہ سب عالم بن کر مولانا احمد بخاری کی حمایت کررہے ہیں تو پھر جیسی روح ویسے فرشتے ہیں کسی کو اعتراض نہ کرنا چاہئے اس لئے کہ ان میں وہ راحت محمود صاحب بھی ہیں جو امام کے ہر حال میں شریک ہیں اور امام صاحب جب جب کوئی پارٹی بناتے ہیں (اور ہر مہینہ وہ بناتے ہی رہتے ہیں) محمود صاحب اس کے جنرل سکریٹری ہوتے ہیں اور ان کے علاوہ ایک بھائی اور داماد بھی علماء ہیں۔
حیرت تو اس بات پر ہے کہ شری ملائم سنگھ ان کا اثر 2012 ء میں دیکھ چکے 2014 ء میں دیکھ چکے۔ دہلی کے ہر الیکشن میں دیکھ چکے اور دیکھ رہے ہیں کہ دہلی کی حکومت میں ان کا کسی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جب دہلی کے کارپوریشن الیکشن میں جامع مسجد حلقے سے بھی وہ کسی کو جتانے کے قابل نہیں ہیں تو پھر کیوں ان کے آنے پر مسلمانوں کے مسائل پر بات ہوتی ہے۔ اگر ملائم سنگھ نے مسلمانوں کو دکھائے ہوئے سبزباغ کے پھل مسلمانوں کو نہیں دیئے تو اس کا نام بتایا جائے جس پارٹی نے مسلمانوں کو اس باغ کا کوڑا بھی دیا ہو؟ ہر الیکشن میں مسلمان اپنا فیصلہ خود کرتے ہیں اور کوئی بھی واقعی عالم اس میں دخل نہیں دیتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مسلمان اپنی من مانی کریں گے۔ لیکن خیرات لینے والے اپنا پیشہ چھوڑ نہیں سکتے اور سیاسی پارٹیوں کے پاس بھی اتنا ہوتا ہے کہ وہ خیرات دے کر سمجھتے ہیں کہ چلو ثواب کما لیا۔
ہمارا بھی اخبارات سے تعلق ہے۔ اور کوئی اخبار نہیں ہے جس میں شری ملائم سنگھ یا اُن کے فرزند وزیر علیٰ کا بیان نہ چھپا ہو کہ ہم نے الیکشن کے انتخابی منشور میں جتنے وعدے کئے تھے وہ سب پورے کردیئے اور کوئی اخبار ایسا نہیں ہے جس میں آئے دن کسی نہ کسی طبقہ کا یہ مطالبہ نہ چھپتا ہو کہ ملائم سنگھ نے ہم سے جو وعدے کئے تھے ان میں سے کوئی پورا نہیں ہوا جیسے ٹانڈہ کے بنکروں سے بیانات کہ نہ قرض معاف ہوئے نہ بجلی مل رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ وعدہ کرنے والے جب یہ کہیں کہ ہم نے وعدے پورے کردیئے تو کیا یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ان کے سامنے انتخابی منشور نہیں ہے۔ یا انہیں نظر نہیں آتا یا وہ پڑھ نہیں پاتے کہ اس میں کیا کیا لکھا ہے؟ مقصد صرف یہ ہے کہ ہمیں جو کرنا تھا وہ کردیا اب ہم صرف 2017 ء کے الیکشن کی بات کرنا چاہتے ہیں اور جس کو جو بات کہنا ہو وہ 2017 ء میں دوبارہ حکومت بنوانے کے بعد کرے۔ سمجھئے کہانی ختم ہوگئی۔ رہی بات وزیر اعلیٰ کے مولانا احمد بخاری اور ان کے داماد جیسے مولویوں یا کرایہ پر لائے گئے مولوی جیسوں کی تو ایک فوٹو تو وہ ہر کسی کے ساتھ کھنچوا لیتے ہیں۔ اس سے فائدہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان کھڑے ہیں۔ اور یہ منظر کسی نے نہیں دیکھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی تو دشمن ملک کے وزیر اعظم کو گلے لگاتے ہیں اور ابوظہبی کے شاہزادے کو سارے قاعدے قانون توڑکر لینے کے لئے ہوائی اڈہ جاتے ہیں اور انہیں ایسے لپٹاتے ہیں جیسے وہ برسوں سے بچھڑا ہوا ان کا ہی شاہزادہ ہے۔
ہر مسلم برادری اور ہر مسلم تنظیم سے ہماری درخواست ہے کہ اب یہ بحث بند کردی جائے کہ کس نے کتنے وعدے کئے اور کتنے پورے ہوئے؟ یہ بات تو جب کی جائے جب ملک میں کوئی ایک پارٹی بھی ایسی ہو جس نے منشور کے وعدے پورے کئے ہوں؟ کیا دنیا میں اپنی پارٹی کو سب سے بڑی پارٹی کہنے والے امت شاہ نے بہار میں نہیں کہا کہ مودی کا 15 لاکھ والا وعدہ انتخابی جملہ تھا۔ یا 1978 ء میں بنارسی داس نے بریلی میں نہیں کہا تھا کہ الیکشن کے وعدے پورے کرنے کے لئے نہیں ہوتے؟ وہ بہادر ہیں جو کہیں کہ ہاں ہم نے جھوٹ بولا تھا اور وہ بزدل ہیں جو وعدوں پر بات کرنے کے لئے آنے والوں کو خیرات دے کر خاموش کردیں۔ بلال نورانی صاحب نے مسلم مجلس عمل کے ریاستی صدر ہونے کی حیثیت سے اپنے صدر کو مومن انصار کے صدر کی طرح پارٹی سے تو نہیں نکالا لیکن خود ایک مسلم اجلاس مارچ میں بلانے کا اعلان کردیا۔ جس میں وہ مولانا بخاری کے کارناموں سے قوم کو آگاہ کرائیں گے جس میں حقیقی علماء اور صوفیا کی شرکت ہوگی۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا