English   /   Kannada   /   Nawayathi

بیٹا یا بیٹی حکومت کا دردِ سر کیسے ہوگیا؟

share with us

مینکا گاندھی بی جے پی میں وہ نہیں ہیں جو کانگرس میں سونیا ہیں۔ لیکن بی جے پی نے ہمیشہ کانگرس کے بڑے لیڈروں کی آنے والی اولادوں کو اچھی جگہ دی ہے۔ پنڈت گوبند بلّبھ پنت کے بیٹے کے سی پنت ہوں یا لال بہادر شاستری کے بیٹوں کی طرح نہرو گاندھی پریوار کی بہو ہونے کی وجہ سے مینکا گاندھی اور ان کے فرزندورن گاندھی کو گلے لگایا ہے۔ لیکن اس کا خیال رکھا ہے کہ یہ کس کا خون ہے۔
مسز مینکا گاندھی نے ایک مسئلہ اٹھایا ہے کہ رحم مادر میں جو لڑکیوں کو قتل کرنے کے شرم ناک واقعات ہو رہے ہیں اور جن کی وجہ سے لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد میں عدم توازن پیدا ہوتا جا رہا ہے اسے روکنے کے لئے یہ قدم اٹھایا جائے کہ جب کوئی لڑکی حاملہ ہو جائے تو اس کا رجسٹریشن کرا دیا جائے۔ اور وقت گزرنے کے بعد معلوم کرایا جائے کہ اس نے بچہ پیدا کیا یا نہیں؟ یہ اس لئے کہ اگر بچہ کی ولادت نہیں ہوئی تو اس مجرم تک پہنچاجا سکتا ہے جس نے الٹراساؤنڈ کر کے بتایا کہ پیٹ میں لڑکی ہے۔ اور اس کے بعد اس ڈاکٹر تک جس نے اس بچی کو ختم کر دیا۔ اور پھر سب کوسزا دی جائے۔
مینکا گاندھی آنندی خاندان کی بیٹی ہیں۔ وہ خاندان جو فیروزگاندھی خاندان اور وزیر اعظم اندراگاندھی تک آسانی سے پہنچتا تھا۔ مینکا گاندھی ایک بڑے فوجی افسر تیجندرسنگھ آنند کی دختر ہیں۔ ان کی والدہ نے ہندوستان سے باہر بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ مینکا گاندھی کے چچا میجر جنرل کپور کابیٹا دینوکپور سنجے گاندھی کا اسکول کا دوست تھا۔ اور یہی دوستی مینکا سے تعارف کا سبب بنی۔
میرے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کی زیادہ تر آبادی وہاں ہے جہاں مینکا گاندھی جیسی خواتین وزیر بننے سے پہلے یا وزیر بننے کے بعد ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر تقریرکرنے تو گئی ہونگی یا جا سکتی ہیں ، لیکن وہاں پیدل گھومنے ، ان کے ساتھ چند دن اور چند راتیں گزارنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتیں ہیں۔ شاید انہیں معلوم نہ ہو کہ اترپردیش کے مشرقی اضلاع میں ایسے بنجر گاؤں ہیں جہاں دور دور تک جھولا چھاپ ڈاکٹر بھی نہیں۔ اور ہم نے گورکھپور کے ایک گاؤں میں ایک عورت اور اس کی تین بیٹیوں کو تالاب سے برتنوں میں پانی بھر کر لاتے اور گیہوں کے ایک چھوٹے سے کھیت کو سیراب کرنے کی کوشش کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اور صرف تین سال پہلے بہرائچ کے ایک انتہائی پچھڑے دیہات کا ایک لڑکا میرے پاس میری مدد کے لئے رہتا تھا وہ اگر کبھی اپنے باپ کو خیریت کی خبر دیتا تھا تو بتا تھا کہ جس کا موبائل ہے وہ میرے باپ سے بات کرانے کے دس روپئے لیتا ہے۔ 
ہندوستان کے غریبوں کے بارے میں دہلی میں بیٹھ کر فیصلہ کرنے کاہی نتیجہ ہے کہ ہر حکومت اپنے ہر منصوبہ میں فیل ہے۔ ملک میں لڑکوں کی زیادتی اور لڑکیوں کی کمی ہر گز سرکاری مسئلہ نہیں ہے۔ یہ خالص سماجی مسئلہ ہے۔ رہی یہ بات کہ لڑکے کتنے ہوں اور لڑکیاں کتنی یہ بھی سرکار کے اختیار میں نہیں۔ یہ اس کے اختیار میں ہے جس کے قبضہ میں موت اور زندگی ہے۔ ہم پوری دنیا کے بارے میں تو نہیں بتا سکتے لیکن سعودی عرب میں اپنے بچوں کے وہاں ہونے کی وجہ سے وہاں کے حالات سے واقف ہیں۔ اسلام میں چار شادیوں کا حکم نہیں ہے اجازت ہے۔ سعودی عرب میں ایک سے زیادہ شادی عام ہیں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہاں دہیج اور سونا چاندی لڑکی کے باپ کا نہیں لڑکے کا مسئلہ ہے۔ سعودی عرب میں اچھی لڑکی سونے کے مول ملتی ہے۔ یہ لڑکیوں کی کثرت کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم ایک ایسے خاندان سے بہت اچھی طرح واقف ہیں جہاں ایک کمانے والا بھائی اور کھانے والے اس کی بیوی بچوں کے علاوہ چار بہنیں بھی تھیں جن میں اچھی سے اچھی ، بہت اچھی اور معمولی بھی تھیں لیکن ہر کسی کی شادی کسی ایسے آدمی کے ساتھ ہوئی جس کے دو بچے تھے یاتین۔ اور پہلی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا۔ 
اس مسئلہ پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا لڑکیوں کے کم ہونے سے یہ مسئلہ ختم نہیں ہو جائے گاکہ دہیج کے لئے لڑکیاں جلائی جا رہی ہیں، زہر دے کر ماری جا رہی ہیں اور پھانسی پر لٹکائی جا رہی ہیں؟ اور ان میں سے اکثر کسی دوسری لڑکی سے تعلق کا بھی نتیجہ ہوتا ہے۔ حکومت آج نہیں برسوں سے اس مسئلہ میں پریشان ہے۔ اس لئے کہ اسے اس نے اپنا مسئلہ بنالیا ہے۔ جب کہ کسی حکومت کی طاقت نہیں ہے کہ وہ ملک کے ہر آدمی کو قانون کا پابند بنا سکے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کے ذمہ دار وں کی زبان پر یہ بات زیادہ نہیں ہے کہ کس نے رحمِ مادر میں بچی کو قتل کرا دیا۔ ؟ بلکہ سارا زور اس پر ہے کہ ہر یانہ میں لڑکے ایک ہزار اور لڑکیاں نو سوپچاس ۔ اس پہلو پر کیوں غور نہیں کیا جا تا کہ اگر لڑکے زیادہ اور لڑکیاں کم ہو جائیں تو جو ہزاروں رشتے اس لئے ٹوٹ جاتے ہیں کہ لڑکی کا قد چھوٹا ہے۔ ناک ذرا موٹی اور آنکھیں چھوٹی ہیں۔ اگر لڑکیاں کم ہو جائیں تو کیا یہ سماج کے لئے راحت کی بات نہیں ہے کہ لوگ صورت نہیں سیرت دیکھا کریں گے؟ 
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس مسئلہ پر حکومت یا سماج نہیں صرف مذہب اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اسلام کے آنے سے پہلے عرب کے جاہلیت کے دور میں بھی یہ مسئلہ تھا۔ وہاں بات جہیز کی نہیں تھی بلکہ صرف ناک کا مسئلہ تھا کہ کوئی گانا بجاتا بارات لیکر آئے اور ہماری بیٹی کو اس طرح لیکر جائے کہ جیسے قلعہ فتح کر کے آرہا ہے۔ اس وقت کوئی ایسی مشین نہیں تھی جو رحمِ مادر میں ہی بتا دے کہ لڑکا ہے یا لڑکی؟ اسی وجہ سے لڑکی کو پیدا ہونے یا بڑا ہوجانے کے بعد ما ردیا جاتا تھا۔ یا زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ اس زمانہ کی تاریخ گواہ ہے کہ کتنے ایسے صحابیؓ تھے جن سے یہ غلطی ہوگئی تھی وہ اسلام لانے کے بعد رات دن روتے رہتے تھے۔ اور آج ہمارے ملک کی عدالتیں گواہ ہیں کہ ہندوؤں کے مقابلہ میں دہیج کی وجہ سے بہو کو جلا کر مارنے یا رحم مادر میں معصوم بچی کو قتل کرنے کے گناہ گار مسلمانوں میں کم ہیں۔
ہم اپنے خاندان کے بارے میں تو قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی گھر میں لڑکی کی پیدائش پر غم کے بجائے خوشی ہوتی ہے۔ گزشتہ سال اور اس سال میرے گھرانہ میں دو لڑکے پیدا ہوئے۔ خدا گواہ ہے کہ دونوں کے آنے پر ہر زبان پر تھا کہ جو آیا وہ پیارا ہے لیکن اگر آتی تو بات ہی کچھ اور ہوتی؟ میر اگھر بہوؤں سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن کسی کے بھی باپ سے کوئی معلوم کر لے کہ ہم نے اس بات پر تو انہیں شرمندہ کیا کہ آپ نے اپنی بیٹی کو ہمارے منع کرنے کے بعد بھی جو دیا وہ آپ کی بیٹی کا ہے، لیکن ہمارے اوپر آپ نے اعتماد نہیں کیا کہ ہم آپ کی بیٹی کو اپنی بیٹی بنانے کے لئے لے جا رہے ہیں۔
ہندوؤں میں اور سکھوں میں بڑے بڑے دھرم گرو ہیں۔ ضرورت اس کی ہے کہ وہ سامنے آئیں اور بتائیں کہ ماں کے پیٹ میں لڑکی کو ختم کراؤ یا پیدا ہونے کے بعد وہ ہر حال میں قتل ہے اور دنیا کے پالن ہار کے کاموں میں رکاوٹ کا پاپ ہے۔جب ملک کے سرکاری کاموں میں دخل دینا جرم ہے تو دنیا کو بنانے اور چلانے والے کے کام میں دخل دینا کتنا بڑاجرم ہوگا۔ یہ سوچنا چاہئے۔ کتنا اچھا ہو کہ وزیر نہیں جگت گرواس مسئلہ کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا