English   /   Kannada   /   Nawayathi

قوم ووطن کے محسن مسیح الملک کی سبق آموز زندگی

share with us

یہ سطورچونکہ اس لئے لکھنا ضروری ہے کہ اسی ماہ فروری کی 11تاریخ کو مادروطن کے اس درویش صفت رجل عظیم نے اس جہان فانی میں زیست کی آ نکھیں کھولی تھیں۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے اس محسن کی حیات زندگی پرمختصر روشنی ڈال دیں تاکہ آنے والی نسلوں کیلئے ان کے جذبہ ایثار مہمیز کا کام کرسکیں اوروہ بھی قوم وطن کیلئے کچھ کرگزرنے کانیک حوصلہ اپنے اندرانگیز کرسکیں۔ 
ابن سینائے ہند ،قائد جد وجہدآزادی،مسیح الملک محترم فاضل علامہ اجمل بن محمود بن صادق بن شریف حنفی دہلوی جو حکیم حاذق اور ’’حاذق الملک‘‘ کے نام سے مشہور ہیں، فن طب میں ذہین اور ماہر طبیبوں میں سے ہیں۔سنہ ۱۲۸۴ھبمطابق1868 بمقام دارالسلطنت دہلی میں آپ کی پیدائش ہوئی، اولاً پورا قرآن کریم حفظ کیا پھر دوسرے علوم صدیق احمد دہلوی، شیخ مفسر عبدالحق کمتھلوی، مولوی عبدالرشید رامپوری اور مرزا عبداللہ بیگ و غیرہم سے حاصل کئے اور حکمت کی کچھ کتابیں اپنے بڑے چچا عبدالحمید خان سے پڑھیں اور کافی زمانہ تک ان کی خدمت عالیہ میں رہے۔ اس کے بعدان کے چچا جان نے سنہ ۱۳۰۹ھ بمقام دہلی جس مدرسہ کی بنیاد رکھی تھی اسی میں استاد بن کر زمانہ دراز تک تعلیم دیتے رہے۔
پھر ریاست رامپور کے نواب حامد علی خان نے اپنی ریاست میں آنے کی پیشکش کی اور وہاں رئیس الاطباء کے عہدہ پر فائز کیا، چنانچہ وہاں بھی ایک مدت تک آپ نے قیام کیا۔ پھر وہاں سے دہلی شہر واپس آگئے اور وہاں اپنے بھائی کے قائم مقام ہوکر پڑھانے کے علاوہ علاج و معالجہ میں مشغول ہوگئے۔
دہلی شہر میں بالخصوص زچگی کی تعلیم سے متعلق ایک مدرسہ اور مخصوص زنانہ شفاخانہ کی بھی بنیاد رکھی۔ پھر خاص طبی امور کے لیے ایک کانفرس کی بنیاد رکھی، کیونکہ وہ ان دنوں اس بات کے لئے بہت متفکر تھے کہ مخصوص زنانہ طبی مدرسہ جس کا ابھی تذکرہ ہوا اس کو بڑے سے بڑے درجات تک ترقی دی جائے۔ چنانچہ اس کے لئے ان کو شہر سے باہر زمین بھی مل گئی اور اس میں ایک بلند شاندار مدرسہ قائم کردیا۔
پھر عراق کا سفر کیا اور وہاں بغداد اور اس کے مخصوص مقدس مقامات کی زیارت کی۔ یہ تقریباً سنہ ۱۳۲۳ھ کا زمانہ تھا سنہ ۱۳۲۸ھ مغربی ممالک کا سفر کیا اور وہاں مدارس اور شفاخانوں کا خصوصیت کے ساتھ مشاہدہ کیا۔ 
ملک ہندوستان کے تقریباً تمام علاقوں میں آپ کی شہرت ہوگئی۔ حکومت برطانیہ نے بھی آپ سے متاثر ہو کر آپ کو سنہ۱۳۲۵ھ میں حاذق الملک کا خطاب دیا جو آپ کی طبی خدمات کے اعتراف کے طور پر تھا اور اس لیے بھی تھا کہ آپ کو اس ملک ہندوستان میں بڑی عزت اور بڑا مقام حاصل تھا۔ 
جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو حکومت اسلامیہ عثمانیہ کے ماننے والوں سے دشمنی کھل کر سامنے آگئی اور تمام دشمنان اسلام نے اس اسلامی مرکز اور اس کے ماننے والوں پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرلیا۔ اور چونکہ حکومت برطانیہ کو مسلمانوں کے ساتھ دشمنی رکھنے میں خاص نفع تھا اس لیے تمام ہندوستانی مسلمانوں کا ان کے خلاف نفرت کا جذبہ ابھر گیا یہاں تک کہ ہر سطح پر عام مسلمانوں نے ان کے خلاف بغاوت کا اظہار کیا۔
چونکہ حکیم اجمل صاحب مسلمانوں کے نمائندہ بن کر انگریزوں سے گفتگو کرتے تھے اور انہوں نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا لہذا اس حکومت کی طرف سے حکیم اجمل صاحب کو جو کچھ نشانیان اور علامات (تمغے) کے علاوہ حکیم صاحب کو جو ’حاذق الملک‘ کا خطاب ملا تھا، ان سے اپنی نفرت کے جذبہ کے اظہار اور تمام ہندوستانی مسلمانوں سے اظہار محبت کی وجہ سے سب انگریز حکومت کو واپس کردیا، یہ واقعہ سنہ ۱۳۳۹ھ کا ہے۔ 
اس لیے تمام مسلمانوں نے خوش ہو کر دوسرا خطاب ’’مسیح الملک‘‘ کا جمعیۃ العلماء کی مجلس میں متفقہ طور پر دینا طے کیا۔ بالآخر یہی خطاب آپ پر غالب آگیا اور اسی لقب سے ہمیشہ کے لئے مشہور ہوگئے۔ 
ملک ہندوستان کو متحد رکھنے پر بھرپور زور لگایا اور ملک کے تمام لوگوں اور جماعتوں کو ایک جماعت میں قائم رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی کہ متحد رہ کر ہی اپنے وطن کو آزاد کرایا جائے۔ اسی خیال سے عام ہندوستانیوں کی مشترکہ مجلسوں میں شرکت کی، بلکہ بعض بڑی مجلسوں میں تو صدر و غیرہ کے عہدے پر بھی آپ کو رکھا گیا۔ مسٹر گاندھی اور دوسرے علماء ہند کے ساتھ مشترکہ طور پر ہر ممکن عمل کیا یہاں تک کہ دوسری جماعتوں کے لیڈروں کے گہرے دوست بن گئے۔ اسی بناء پر ساری جماعت والے آپ کو بہت ہی احترام کی نگاہ سے دیکھتے، اپنی عقل سمجھ اپنی سنجیدگی اور صفائی ستھرائی یعنی مجموعی صفات رکھنے کی وجہ سے سب پر غالب آئے، ان تمام طبقات میں محترم اور بڑے اونچے مرتبے والے ہوگئے یہاں تک کہ ایک وقت وہ بھی آگیا جب مسلمانوں اور غیرمسلموں میں زبردست اختلاف پیدا ہوگیا اور گروہی لڑائیاں ہونے لگیں۔
سنہ ۱۳۴۴ھ میں دوسری مرتبہ آپ نے یورپ کے دارالسلطنت کا سفر کرنے کے بعد ملک شام، فلسطین اور مصر و غیرہ بھی تشریف لے گئے اور ان علاقوں کی اسلامی حکومتوں میں ایک بڑی مجلس منعقد کی۔
ملک کی آزادی میں حکیم اجمل صاحب نے غیر معمولی رول ادا کیا۔ ہندو اور مسلمان اتحاد قائم کرنے کی آپ نے بھرپور کوشش کی جو کہ برطانوی حکومت کو کبھی گوارہ نہ تھی۔ جنگ آزادی کی لڑائی میں مہاتما گاندھی،موتی لال نہرو وغیرہ کا کھل کر ساتھا نبھایا۔ انڈین نیشنل کانگریس جوائن کیا۔ برطانوی حکومت نے جو خطابات دیئے اسے واپس کر دیا۔ اس سے بڑا حب الوطنی کا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے۔ آپ جب سیاست کی طرف رجوع ہوئے تو اس زور و شور سے رجوع ہوئے کہ صر ف دس سال کی مدت میں اس کا بلند منزل پر پہنچا دیا۔ آپ کی شرکت اور رہنمائی نے کانگریس کو نمائندہ عوام ملکی کانگریس بنایا۔یہ ساری خدمات چیخ چیخ کرپکاررہی ہیں کہ اس درویش صفت محسن قوم نے وطن کی آزادی کیلئے کتنا سارا کام کیا تھا۔ حکیم اجمل خاں نے آزادی حاصل کرنے کے لئے دو باتوں پر خصوصی زور دیا۔ اول تعلیم کا فروغ اور دوم ہندو مسلم اتحاد۔ حکیم صاحب کی تعلیمی کوششوں کو آپ ہی کے الفاظ میں 1921 میں جامعہ کے اول تقسیم اسناد کے موقع پر صدارتی خطبہ میں اس طرح سنا گیا:
’’ہم نے اصولی حیثیت سے تعلیم کو صحیح شاہراہ پر ڈال دیا ہے اور جہاں ہم نے سچے مسلمان پیدا کرنے کی تدابیر اختیار کرلیں وہاں اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے کہ تعلیم و تربیت میں ماحول کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے اور سلامیت کے ساتھ وطن کی خدمت کا جذبہ پید ا کرنا بھی ہمارے پیش نظر ہے چنانچہ اس امر کا خاص طور پر لحاظ رکھا گیا ہے کہ جہاں ہندو طلبہ کے لئے بہت سے اسلامی معاملات پر معلومات حاصل کرنا ضروری ہے وہاں مسلمان طلبہ بھی اہم ہندو رسوم اور ہندو تہذیب و تمدن سے ناآشناہیں۔ ایک متحد ہندوستانی قومیت کی اساس محکم اسی باہمی تفہیم و تفہم پر منحصر ہے۔ ‘‘
شمس الرحمن محسنی، ہندوستانی مسلمانوں کی قومی تعلیمی تحریک، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، دہلی، ص:40)
اس طرح ہم دیکھتے ہیں حکیم اجمل خاں صرف ایک طبیب ہی نہیں بلکہ کئی خوبیوں کے مالک تھے۔ ایسی شخصیتیں اس سرزمین پر بہت کم آیا کرتی ہیں جسے لو گ لمبے عرصے تک یاد کرنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں۔ ان کے کارناموں سے استفادہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہ بیک وقت ایک طبیب، مجاہد آزادی ، سیاست کے سرگرم سپاہی اور ایک مخلص اور قوم پرست انسان تھے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا