English   /   Kannada   /   Nawayathi

دہلی میں کجریوال سے آرپار کی جنگ

share with us

ایک ہفتہ کے اندر جتنی غنڈہ گردی ہو سکتی تھی وہ کی گئی۔ پوری دہلی میں ہر جگہ کوڑے کے ڈھیر لگ گئے۔ اور بی جے پی کے بہادروں نے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کے گھر کو اور ان کے دفتر کو کوڑے کے ٹوکرے پھینک کر گندہ کر دیا۔ 
کارپوریشن کے ملازموں کا نعرہ تھا کہ چار مہینے سے ان کی تنخواہ نہیں ملی اور کجریوال حکومت کا کہنا تھا کہ ہم پورے ایک سال کی تنخواہ کا پیسہ دے چکے ہیں لیکن اندازہ ہوا کہ بات تنخواہ کی نہیں تھی۔ بلکہ صرف کجریوال کے چہرے کی چمک پر داغ لگانا تھا۔ کجریوال حکومت کی طرف سے برابر کہاجا تا رہا کہ وہ تو نو سو کروڑ روپے دے چکے ہیں۔ جبکہ انہیں ہر سال 5سو کروڑ ملتے تھے۔ اور جس مذاکرہ میں بھی کارپوریشن کے ترجمان بیٹھے اس میں انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ کجریوال نے روپئے دئے ہیں۔ لیکن مطالبہ یہ تھا کہ ہمیں تین ہزار کروڑ روپئے چاہئیں۔
کجریوال صاحب اپنی پرانی کھانسی کے علاج کے لئے بنگلور گئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے وہیں پریس کا نفرنس کر کے اپنا موقف سامنے رکھا اور یہ دیکھ کر کہ دہلی کارپوریشن کے کارکنوں کے ذریعہ بی جے پی جتنی غنڈہ گردی کرا سکتی تھی کر رہی ہے اور اس کی تکلیف دہلی کے شہریوں کو ہوگی انہوں نے ساڑھے پانچ سو کروڑ روپیہ بطور قرض دینے کا اعلان کر دیا۔ 
یہ ٹی وی کی نعمت ہے کہ پوری دہلی نہیں پورا ملک سمجھ رہا ہے کہ بی جے پی کا رپوریشن کے غنڈوں سے کجریوال کو بد نام کرا رہی ہے۔ اور یہ کہ آنے والے سال میں کارپوریشن الیکشن کی فکر اسے کھائے جا رہی ہے۔
ہم 65برس سے لکھنؤ میں ہیں۔ ہم نے میونسپل بورڈ بھی دیکھا اور جب 1958میں کارپوریشن بنا تو وہ بھی دیکھا ہے۔ یہ بات ہر شہری کی زبان پر ہے کارپوریشن سے زیادہ بے ایمانی صوبہ کے کسی محکمہ میں نہیں ہے۔ ہمارے ایک دوست ریاض الحق کو ہم نے ہی سیاسی تعلق کی بنا پر کارپوریشن میں ملازمت دلائی تھی۔ وہ کارپوریشن کے ایل ڈی اے محکمہ میں تھے۔ اور رٹائر ہونے کے بعد سے عیدگاہ کالونی میں اپنے ذاتی مکان میں رہ رہے تھے۔ انہوں نے ہی بتایا کہ جس پلاٹ پر ہمارا مکان ہے وہ دوسرے پلاٹوں کے مقابلہ میں اس لئے بڑا ہے کہ وہ کالونی کا کنارہ ہے۔ اور یہ اس لئے مل گیا کہ جب پلاٹوں کی قرعہ اندازی ہونے جا رہی تھی تو افسروں نے یہ کہا کہ دو سڑکوں کے درمیان کا یہ بڑا پلاٹ ریاض صاحب کو پہلے دے دیا جائے۔ اس لئے کہ پورے ڈپارٹمنٹ میں یہ اکیلے ایسے بڑے بابو ہیں جو جس سائیکل پر بیٹھ کر نوکری کرنے آئے تھے ، اسی پر بیٹھ کر رٹائر ہو کر واپس چلے گئے۔ جبکہ ان سے بہت چھوٹے کلرکوں میں ہر کسی کے پاس موٹر سائیکل بھی ہے اسکوٹر بھی اور کار بھی ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ لکھنؤ جیسے بڑے شہر کے بڑے کارپوریشن میں ہزاروں ملازموں میں صرف ایک ایماندار؟ 
لکھنؤ ہو یا دہلی ہر وہ آدمی جسے کارپوریشن سے یا میونسپل بورڈ سے کوئی کام پڑا ہے وہ قسم کھا کر بتا سکتا ہے کہ ہر ملازم بے ایمان ہے۔ دہلی میں ہزاروں صفائی مزدور ہیں سیکڑوں مالی ہیں ، ہزاروں چپراسی ہیں لیکن شاید دو چار ایسے ہوں جو پرائیوٹ گھروں میں کام نہ کرتے ہوں۔ جن مالیوں کو نرسری کے پودے ملتے ہیں وہ سب ان مکانوں میں لگادیئے جاتے ہیں جہا ں کے چمن کی ذمہ داری ان پر ہوتی ہے۔ کارپوریشن کی سب سے بڑی آمدنی ہورڈنگ سے ہوتی ہے یابغیر نقشہ پاس کرائے مکان بنانے والوں سے جس میں اس کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوتا صرف وہ زمین پر کھمبے گاڑنے کی اجازت دیتا ہے۔ اور کروڑوں روپئے کارپوریشن کو ملتے ہیں۔ اور اتنے ہی کارپوریٹر اور افسر کو ۔ منیش سسودیا اور عاپ پارٹی کے دوسرے ذمہ دار معلوم کرر ہے ہیں کہ آخر جو روپیہ ہم نے دیا اور جو کارپوریشن کو ملا وہ کہا ں گیا؟ اور جب یہ کہتے ہیں کہ ہم سی بی آئی سے تحقیقات کرائیں گے تو جو اب ملتا ہے کہ تو پھر سی بی آئی سے عام آدمی پارٹی کے تمام وزیروں اور اسمبلی کے ممبروں کی بھی تحقیقات کرائی جائے ۔ 
کیسی دلچسپ بات ہے کہ کجریوال کروڑوں روپئے دیں اور یہ معلوم کرنے کے لئے اپنے افسروں سے تحقیقات کرائیں کہ وہ روپیہ کہاں گیا تو انہیں اس کی اجازت نہ دی جائے اور جواب دیا جائے کہ فلاں ایجنسی ہر سال آڈٹ کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جواب نہیں ہے۔ یہ تو ہر جگہ ہوتا ہے کہ چور چور موسیرے بھائی ۔ ہر کارپوریٹر اپنے الیکشن میں لاکھوں روپیہ خرچ کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسے کروڑوں کماناہوتا ہے۔ لکھنؤ میں 58 ؁میں کارپوریشن کے الیکشن میں آزاد امیدوار زیادہ کامیاب ہوگئے۔ کانگریس وزیر اعلیٰ نے اپنے آدمیوں سے تمام آزاد ممبروں کو کھانے پر بلایا۔ انہیں انتہائی شاندار دعوت کھلائی اور کہا کہ آزاد کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی آپ لوگ کانگرس کے ممبر بن جایئے اور چالیس چالیس ہزار روپئے کے بنڈل بانٹنے شروع کئے اور کہا یہ وہ خرچ ہے جو آپ نے الیکشن میں کیا تھا۔ حالانکہ وہ پہلا الیکشن تھا اور شاید کسی نے پانچ ہزار بھی خرچ نہیں کئے تھے۔ (واضح رہے کہ 1958ء کے 40ہزار آج کے 40لاکھ سے بھی زیادہ تھے) اور اس طرح کانگرس نے لکھنؤ کارپوریشن پر قبضہ کر لیا اوراپنا میئر بنا لیا۔ 
اروند کجریوال نے جو 550کروڑ روپئے قرض دئے تھے اسے لیکر ہڑتال ختم کرنے سے بی جے پی کے چہیتوں نے انکار کردیا۔ یہ صرف اس لئے ہوا کہ جن ڈیڑھ لاکھ ملازموں کے بیوی بچوں کے بھوک سے مرنے کے موٹے موٹے ورکر نعرے لگا رہے ہیں۔ ان کے پیٹ بھرنے کا ہی نہیں ان کی دارو کا بھی اوپر سے بندو بست ہو رہاہے۔ اب انہوں نے یہ نعرہ اور بڑھا دیا کہ دہلی کارپوریشن جو تین حلقوں میں ہے ، اسے پھر ایسے ہی ایک جگہ کیا جائے جیسے پہلے تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے تین حصوں میں کانگرس نے تقسیم کیا تھا اور کجریوال خود اس کے حق میں ہیں کہ اسے ایک ہی ہونا چاہئے لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے جنتا آسان 550کروڑ روپئے کا چیک کاٹنا۔ 
ہر شہر کا کارپوریشن بہت حد تک خود مختار ہوتا ہے۔ اور یہ خود مختاری کا ہی نتیجہ ہے کہ دہلی کے کارپوریشن کے میئر کی اتنی ہمت ہوئی کہ وہ حساب نہیں دیکھنے دیں گے۔ اگر عدالت سے مدد مل جائے اور عام آدمی پارٹی اپنی تحقیقاتی ایجنسی سے صرف اپنے زمانہ کا آڈٹ کرائے تو چونکانے والے انکشافات ہوں گے۔ کارپوریشنوں اور میونسپل بورڈوں میں تو جانے کتنے ایسے نام ملیں گے جن کی نہ کوئی صورت دیکھ پائے گا اور نہ ان سے ملاقات ہو سکے گی اس لئے کہ وہ کہیں نہیں ہیں اور ان کو تنخواہ دی جا رہی ہے۔ 
دہلی کارپوریشن بی جے پی کی تلوار ہے۔ اور امت شاہ سے لیکر دہلی یونٹ تک اس کے لئے جان لڑا دیں گے کہ 2017میں ہونے والے الیکشن میں پھر بی جے پی آجائے۔ جس میں ابھی 12مہینے سے زیادہ ہیں۔ اور اب ہر دن کجریوال کو ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور ا نہیں اس سے زیادہ مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا جتنا انہوں نے اسمبلی الیکشن میں کیا تھا۔ اس لئے کہ اب مودی صاحب راج ناتھ سنگھ اور امت شاہ یا کرن بیدی نہیں ہیں منجھے ہوئے اور چھٹے ہوئے غنڈے ہیں۔ جن کی سب سے بڑی طاقت وہ حرام کی کمائی ہے جو کارپوریشن سے ہے۔
کارپوریشن کے ملازمین ہزار دو ہزار سے زیادہ بی جے پی کے نہیں ہونگے۔ اور غنڈہ گردی کے لئے تو سو دو سو بھی بہت ہوتے ہیں۔ حیرت ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ صاحب جنہیں ڈاکٹر فریدی جیسے مسیح الملک کا داماد ہونے کا شرف حاصل ہے وہ پولیس کو کیوں حکم نہیں دیتے کہ اب ہڑتال نہیں عوام سے اس کا انتقام لیاجا رہا ہے کہ انہوں نے عام آدمی پارٹی کو ایسی کامیابی کیوں دی جو سب ذلیل ہو گئے؟ یہ بدلتا ہوا موسم ہے جس میں آدھی آبادی کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں کوڑے کے ڈھیر اور اگر حکومت اٹھانا چاہے تو اس میں رکاوٹ ، کروڑوں دہلی والوں کی زندگی سے کھلواڑ ہے۔ ان حالات میں ان کی خاموشی پوری مرکزی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر رہی ہے جسکا بجٹ سیشن شروع ہونے جا رہا ہے۔
ہم نہیں جانتے کہ ہڑتالی لیڈروں کے اس فیصلہ کے بعد کہ ہم قرض نہیں بلکہ 550کروڑ طاقت کے بل پر لینگے، کجریوال کا کیا رد عمل ہوگا۔ اگر ایسے میں ہم ہوتے تو کان میں تیل ڈال کر بیٹھ جاتے اور دیکھتے کہ 125کروڑ انسانوں پر حکومت کرنے کا فخر کرنیو الے دہلی میں کتنی ارتھیاں اور کتنے جنازے دیکھنے کے بعد یہ سوچیں گے کہ اب مداری کو تماشہ ختم کر دینا چاہئے؟

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا