English   /   Kannada   /   Nawayathi

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کی حیات پر ایک تاریخی نظر

share with us

حسب ونسب:۔ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کے اجداد میں سے جس بزرگ نے سب سے پہلے ہند میں قدم رکھا وہ آغا محمد ترک ہیں۔ یہ بخارا کے رہنے والے تھے۔ تیرہویں صدی عیسویں میں جب مغلوں نے وسط ایشیاء میں آگ و خون کا ہنگامہ برپا کیا تو وہ اپنے وطن کے حالات کی ناسازگاری سے تنگ آکر وہاں کی ایک جماعت کے ساتھ ہندوستان تشریف لائے تھے۔ یہ سلطان علاء الدین خلجی کا دور حکومت تھا جب مسلمانانِ ہند کا سیاسی وثقافتی عروج انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ (۱۲۱۶ء تا ۱۳۱۶ء) سلطان نے ان کی دستگیری کی اور ان کو عہدہ اور مرتبے سے بھی نوازا۔ اور گجرات کی مہم کی تیاری کے موقع پر ان کو بہ حیثیت ایک سپہ سالار گجرات روانہ کیا۔ آغا محمد ترک نے گجرات کو فتح کرلیا اور وہاں سکونت اختیارکرلی۔ ان کے تقریباً ایک سو ایک لڑکے تھے، جن کے ساتھ وہ نہایت خوشی وخرم زندگی گزاررہے تھے ؂
مجلس یاراں پریشاں شد چوں برگِ گل
ساری اولادیں انتقال کرگئیں۔ صرف بڑا لڑکا ملک معزالدین باقی بچا۔ آغا محمد ترک کے دل پر بجلی سی گرپڑی۔ چنانچہ جو شخص فتح ونصرت کا ڈنکا بجاتا ہوا گجرات میں داخل ہوا تھا۔ ماتمی لباس پہن کر اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ دہلی واپس ہوگیا ؂
ملک معز الدین سے خاندان کا سلسلہ آگے۔ یہ بڑے لائق وباصلاحیت شخص تھے۔ انہوں نے اپنے والد کے غم کو خوشی میں بدل دیا کہ ان ہی کے صاحبزادے ملک موسیٰ ہیں جو نہایت باعزت ومشہور شخص ہیں، ان کی گود میں پیدا ہوئے۔
فیروز شاہ تغلق (المتوفی ۱۳۸۸ء) کے بعد ملک میں ہر طرف سیاسی انتشار پیدا ہوگیا۔ مرکزکا کمزور ہونا تھا کہ خود مختاریاں قائم ہونے لگیں۔ دہلی اور اس کے اطراف سیاسی اعتبار سے ہم تھے۔ اس لئے سیاسی نبرد آزمائی کا مرکز بھی یہی بنا۔ اور حالات اس قدر ناسازگار ہوئے کہ علماء ومشائخ گجرات، جونپور، بنگال اور دیگر علاقوں کی طرف متوجہ ہوگئے۔ ملک موسیٰ نے بھی بددِل ہوکر ماوراء النحر کی راہ لی۔ لیکن چند دن میں جب تیمورلنگ نے (۱۳۵۸ء میں) ہندوستان پر حملہ کیا تو اس کی فوجوں کے ہمراہ ہندوستان پھر واپس آگئے۔
ملک موسیٰ کے کئی بیٹے تھے، ان میں شیخ فیروز امتیازی شان رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے خاندان کی عزت کو دوبالا کردیا۔ سپہ گیری، شاعری، سخاوت،لطافت میں یکتائے زمانہ تھے۔ شیخ فیروز بہرائچ کے کسی معرکہ میں شہید ہوئے اور وہیں سپرد خاک بھی ہیں۔ ان کی بیوی محترمہ نے انہیں شرکت جہاد سے روکنے کی کوشش کی، کیونکہ وہ اس وقت حاملہ تھیں۔ مگر شیخ نے جواب دیا: ’’از خدا خواستہ ام آں فرزند ترہنہ باشد وازدے اولاد بسیار شودو اور اوشمابہ خدا سپردیم۔ تابعد از ہی ماراچہ پیش آبرد۔ (اخبارالاخبار،ص ۲۹۰)
کچھ دنوں بعد شیخ سعد اللہ (شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ کے دادا) پیدا ہوئے۔ ان میں اپنے شہید باپ کی ساری خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ انہوں نے شیخ محمد منگن سے بیعت ہوکر ان کی رہنمائی میں راہِ سلوک ومعرفت کی دشوار گزار گھاٹیاں طے کیں۔ ان کے بیٹے شیخ سیف الدین (شیخ محدث کے والد محترم) نے ان کو رات کے وقت رورو کر عاشقانہ اشعار پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ شیخ سعداللہ کے دوبیٹے (سیف الدین اور رزق اللہ مشتاقی) تمام بیٹوں میں بے حد مشہور ہوئے ہیں۔ شیخ سعداللہ کے انتقال کے وقت شیخ سیف الدین کی عمر صرف آٹھ سال کی تھی۔ وصال سے کچھ عرصہ قبل وہ اپنے آٹھ سالہ جگر گوشہ کو مکان کے بالائی حصہ میں لے گئے اور بقیہ قصہ سیف الدین کی زبانی سنیں۔
فرماتے ہیں کہ ’’نمازِ تہجد کے بعد مجھے قبلہ رو کھڑا کیا اور کہاکہ الٰہی تو جانتا ہے کہ میں دوسرے لڑکوں کی تربیت سے فارغ ہوچکا ہوں۔ اور ان کے حقوق سے عہدہ برآہو چکا ہوں۔ لیکن اس لڑکے کو یتیم ومسکین چھوڑرہا ہوں اس کے حقوق میرے ذمہ ہیں، اس کو تیرے سپرد کرتا ہوں۔ تو ہی اس کی تربیت اور حفاظت فرما۔‘‘ یہ کہا اور نیچے اُتر آئے۔ کچھ ہی دنوں بعد 22 ربیع الاول ۹۲۹ھ کو ان کا وصال ہوگیا۔ اللہ نے ان کی دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازا اور ان کا یہ جگر گوشہ ایک دن دہلی کا ایک نہایت باوقعت وباعزت انسان بنا اور اس کے گھر میں وہ آفتاب علم نمودار ہوا جس نے ساری فضاء علم کو منور کردیا۔
شیخ سیف الدین اور ان کے برادر عزیز دونوں کے دلوں میں محبت الٰہی کا بے پناہ جذبہ تھا۔ ایک وقت وہ آیا کہ دونوں دہلی کی دو مشہور شخصیت شمار ہوئے۔
مردم ایں شہر اتفاق دارند کہ دہلی ازیں برادران بود (اخبارالاخبار)
شیخ کی والدہ محترمہ مولانا زین العابدین معروف بہ شیخ ادھنؔ دہلوی کی بیٹی تھیں۔ شیخ ادھن کے بارے میں لکھا ہے کہ
دانش مند کامل بود متورع ومتعبد ودرغایت خشوع وانکساروتآدب ووقار۔
شیخ ادہنؔ کا بھی علمی وروحانی دنی امیں ایک اہم مقام تھا۔ ان کو اللہ نے جمال وکمال دونوں سے نوازا تھا۔ وہ نہایت باوقار اور حسین بزرگ تھے۔ شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم فرمایا کرتے تھے کہ انہوں نے کبھی ایسے انسان کو نہیں دیکھا۔ جس میں شیخ ادہنؔ کے برابر ظاہر وباطن میں یکسانیت ہو۔ غرض یہ کہ شیخ مدثؒ کے دادھیال اور ننھیال کے دونوں خاندان علم وفضل، تقویٰ ودیانت میں ممتاز تھے۔ ان کا دینی احساس بھی بیدار تھا۔ اور انہوں نے پاک بازی کا صاف ستھرا کردار ادا کیا۔ اور اپنے دیگر معاصرین کی طرح دنیوی عزت وحشمت کی خاطر کبھی علم ودیانت کو بے آبرو نہیں کیا۔ (جیساکہ نانا نے سلطان ابراہیم کی طرف سے شاہی ملازمت قبول نہ کی تھی)
والد بزرگوار:۔ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کے والد بزرگوار مولانا سیف الدین سیفی رحمۃ اللہ علیہ ۹۴۰ھ کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک صاحب دل بزرگ تھے۔ اپنی شعرگوئی اور پر لطف بذلہ سنجی کی وجہ سے مشہور تھے، لیکن درحقیقت وہ صاحب باطن خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ شیخ سیف الدین کو ابتدائی زمانے سے مشائخ کی صحبت کا شوق تھا۔ بہت سے اکابر کی صحبت سے جب تسکین قلب نہ ہوئی تو پھر شیخ امان پانی پتیؒ کی خدمت میں پہنچے تو ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے زخموں پر مرہم لگادیا۔ جو جذبات رہبرکامل کی غیرموجودگی میں ان کے دل ودماغ پر قیامت ڈھارہے تھے۔ ان کی تربیت کا سامان مہیا ہوگیا۔ جب انہوں نے شیخ امان سے عرض کیا کہ آپ کا دل جذبۂ محبت وارادت مجھ پر غالب ہورہا ہے، کیا کروں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ المرأ مع من احب۔ اس رستہ میں محبت کا اعتبار ہے۔ پھر ان کی تربیت کی طرف متوجہ ہوئے۔ کچھ کتابیں پڑھائیں۔ تکمیل تربیت کے بعدخلافت اپنے دستِ خاص سے لکھ کر عنایت فرمایا۔
شیخ سیف الدین رحمۃ اللہ علیہ اگرچہ اپنے وقت کے علمی معیار اور روایات کے مطابق کوئی جید عالم تو نہ تھے۔ لیکن ان میں وہ تمام اخلاقی خوبیاں موجود تھیں۔ جو علم وفضل سے پیدا ہوتی ہیں اور جن سے اس وقت کے اکثر علماء بدقسمتی سے محروم تھے۔ صداقت، دیانت ا ستفناء ان میں کوٹ کوٹ کر بھراگیا تھا۔
ایک وقت تک تو کافی پریشان تھے کہ ایک عجیب حالتِ خوف وخشیت ان پر غالب تھی۔ لیکن بوقت وصال خوف وخشیت کی کیفیت ’’ذوق وشوق‘‘ میں بدل گئی۔ عصر کا وقت تھا شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ کو مسجد بلوایا۔ شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ خوشی وبحالی کی یہ حالت دیکھ کر حیران رہ گئے ؂
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آیا
اور ۲۷شعبان ۹۹۰ھ کو بے چین عاشق محبوب حقیقی سے جاملا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون


شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش:
شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ ماہِ محرم ۹۵۸ھ کو دہلی میں پیدا ہوئے ؂
یہ اسلام شاہ کا دورِ حکومت تھا۔ مہدوی تحریک اس وقت پورے عروج پر تھی اور علماء کی جانب سے تضلیل وتکفیر کاکام بڑے زوروشور کے ساتھ کیا جارہا تھا۔ مہدوی فرقہ کے بانی سید محمد جونپوری تھے۔ ان کے بارے میں مخالف علماء نے بہت کچھ لکھا۔ مگر مولانا ابوالکلام آزاد کا خیال یہ ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’ خود سید محمد اور ان کے پیروؤں کی پہلی جماعت کے اکثر بزرگ بڑتے ہی پاک نفس اور خدا پرست لوگ تھے۔ اس قسم کے معاملات ہمیشہ ابتداء میں کچھ ہوئے ہیں اور آگے چل کر کچھ اور بن جاتے ہیں۔ یہی حالت اس جماعت کو بھی پیش آئی اور رفتہ رفتہ اس کی بنیادی صداقت اخلاف کے غلو اور محدثات میں گم ہوگئی۔ (تذکرہ۴۴)
سلیم شاہ کے عہد میں ملا عبداللہ سلطان پوری، شیخ الاسلام آگرہ نے مہدوی تحریک کی مخالفت پر کمربستہ ہوئے اور بادشاہ کو ڈرایا کہ اگر ان کو ختم نہ کیاگیا تو وہ ہندوستان پر قبضہ کرلیں گے۔ چنانچہ شیخ علائی (جو اس وقت مہدوی فرقہ کے سربراہ تھے) کو آگرہ دعوت بحث ومناظرہ دی گئی اور بہت سے علماء کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔ شیخ علائی پھٹے پرانے کپڑے میں اپنے ہمرائیوں کے ساتھ حاضر ہوئے اور ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ بحث شروع ہوئی تو شیخ علائی نے دنیا پرست علماء کی مذمت کی اور امراء وسلاطین کے فرائض بیان کئے۔ دوسرے دن مخدوم الملک سلطان پوری کی بڑی مذمت کی اور کہا: ’’تواز علماء دنیائی ودرد دینی ومرتکب چندیں نا مشروعاتی‘‘
لیکن اس موقع پر شاہ سلیم نے صرف شیخ کے جلاوطنی کے حکم پر اکتفا کیا جب کہ مخدوم الملک کا اشارہ قتل کا تھا۔ کیونکہ وہ (شاہ سلیم) شیخ سے متاثرومرعوب ہوچکا تھا۔ شیخ بڈھا بہاری نے بھی متاثر ہوکر ان کی تفکیر کو ناجائز قرار دیا تھا۔
لیکن آخر کار دوبارہ مخدوم الملک کے ہی فیصلہ پر شیخ علائی کو کوڑے لگائے گئے۔ شیخ علائی طویل سفر کی تکالیف برداشت کرکے خستہ جان ہوچکے تھے۔ گلے میں ایک بڑا زخم تھا۔ تیسرے کوڑے میں جان جاں آفریں کے سپردکردی۔
صرف یہ واقعہ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کی پیدائش کے وقت کے عام مذہبی ماحول کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ شاہ سلیم شیخ بڈھا بہاری، شیخ علائی، مخدوم الملک، یہ محض چار شخصیتیں ہی نہیں تھیں بلکہ یہ وہ چار عناصر ہیں یا چار تحریکیں ہیں۔ جنہوں نے آئندہ سالوں میں ہندوستان کے سماجی اور دینی ماحول کو بنانے اور بگاڑنے کاکام انجام دیا۔ ان حالات میں گردوپیش پیدا ہونے والے انسانوں کو انہیں اپنی شاہراہِ عمل متعین کرنے میں جن مشکلات ومصائب کا سامنا کرنا پڑا ہوم، ان کا علم یا تو خدا کو ہے یا ان ہستیوں کو جنہیں وہ پیش آئے۔
محرم ۹۵۸ء اسلامی ہند کی تاریخ میں ایک اہم مہینہ ہے، اس مہینہ میں شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ پیداہوئے۔ اور اسی مہینہ میں ابوالفضل بھی
مؤخرالذکر نے اسلامی شعار کی تضحیک وتوہین میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ اور اول الذکر نے احیاء وشریعت کاکام اور قیام امر بالمعروف میں اپنی ساری زندگی گزاردی۔ ایک سے دین الٰہی (اکبری) نے تقویت پائی اور دوسرے سے دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو عروج ہوا۔
نصحیت والد اور تعلیم تربیت:۔ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کے والد نے بعض ایسی ہدایتیں کی تھیں جن پر وہ تاحیات عمل پیرا رہے۔ یہ بھی ان کی خاص شان وروایات کی ایک کڑی ہے۔ والد محترم اپنے وقت کے علماء کی کج روی کا مشاہدہ کرچکے تھے: اس لئے نصیحت فرمائی 

ان کا کہنا تھا کہ ملی بحث میں جنگ صرف اپنے نفس کے لئے کی جاتی ہے۔ یہ مواصل ہے۔ اس سے تو منافرت ومخالفت ہی بڑھتی ہے۔ علمی مسائل میں محبت والفت سے تبادلۂ خیال کرنا چاہئے۔
والد کی یہ نصیحت ان کے جسم وحیات کی جز بن گئی۔ دورِ اکبری میں بحث ومباحثہ تکفیر وتضلیل کے بہت سے ہنگامے برپا ہوئے، لیکن شیخ محدثؒ نے اپنے مسلک سے سرمو انحراف نہ کیا۔ ان کی زندگی کی بنیاد یہ تھی 
شیخ سیفی کا سب سے بڑا کارنامہ صرف یہی نہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے کے دل میں حصولِ علم کی لگن پیدا کردی بلکہ اس کے ذہن میں علم کے متعلق صحیح نظریے بھی قائم کردیئے۔ اور ان کے متعلق اکثر یہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’تو زود دانش مند شوی‘‘ شیخ محدث تو بے حد ذہین تھے ہی۔ اپنے جگرگوشہ کے طلب غلم کی لگن اور ذہانت سے بوڑھا باپ خوش ہوتا تھا۔ اور اس کے شاندار مستقبل کے نقشے ذہن میں جماتا رہتا تھا۔ چنانچہ محدث رحمۃ اللہ علیہ اٹھارہ برس کی عمر میں عقل ونقلی علوم کا کوئی ایسا گوشہ نہ رہا جس کی سیر نہ کرچکے ہوں۔ ان کی اس تعلیمی سرگرمی کا مقصد ان کی زبانی قابل سماعت ہے۔
اپنے ہم عصروں سے فرمایا اللہ کو ہی بہترعلم ہے کہ حصول علم کے بعد میں کس لائق ہوں گا۔ مجھے بالکل پتہ نہیں۔ ادھر یہ عاجزی وانکساری کے الفاظ اور دوسری طرف شیخ فرید کو جب ’’طلب صادقِ‘‘ کی نوعیت کا خط تحریر فرمایا اس میں یہ لکھا :
ان کے تحصیل علم کا کام صرف خواندن پر ختم نہ ہوتا تھا بلکہ اس کے علاوہ مراحل (مطالعہ، بحث وتکرار، کتابت) کو بھی طے کرتے تھے۔ ان مراحل سے گزرکر دماغ کا رگ وریشہ اس تعلیم سے متاثر ہوتا تھا۔ یہ تھا اس کی طالب علمی کا زمانہ جس نے سترہویں صدی عیسوی میں احیاء علوم الدنیا کو شاندار خدمات انجام دی۔ کم وبیش ایک ہی سال میں قرآن پاک بھی حفظ کرلیا تھا۔
شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ نے کم عمری میں تکمیل علوم تو کرہی لی تھی، ساتھ ساتھ انہوں نے اکابر سے بھی ایک اچھا ربط وضبط رکھا۔ 
عبدالحمید لاہوری کے بیان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عالم ہونے کے بعد انہوں نے درس وتدریس کا کام بھی انجام دیا۔ اور چند دنوں بعد حج کے لئے روانہ ہوتے ہیں۔ ۹۹۶ھ میں ہی شوقِ حق پیدا ہوگیا تھا۔ مگر وہ اپنے آپ کو ہندوستان ’’بے خانما‘‘ کیوں سمجھتے تھے اور وہ وحشت جس کا ذکر انہوں نے زاد المتقینی میں کیا ہے، کیوں محسوس کرتے تھے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ پہلی بارفتح پور سیکری میں بھی کچھ دنوں رہے۔ اور اکبری دور کے امراء وغیرہ نے اعزاز واکرام بھی کیا۔ لیکن جس شخصیت کی قسمت میں علوم اسلامی کی تجدید وتقویت شرع لکھی ہوئی تھی، وہ کس طرح اس ماحول میں ٹھہرسکتا تھا۔ جہاں سے شرع کی بے حرمتی ہورہی ہو اور بدعات کا ہنگامہ برپا ہو۔
جس وقت شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا، اس وقت یہاں کی دینی فضا انتہائی مکدر تھی، علماء سوء نے اندرون دربار وبیرون دربار جو افسوس ناک حالات پیدا کردیئے تھے، ان میں کسی بزرگ کا یہاں ٹھہرنا آسان نہ تھا۔ ’’مدعیان علم ومشخیت‘‘ اور زہد فروشاں سجادہ طریقت‘‘ نے ہرطرف فتنہ وفساد پھیلادیا تھا، اسی حالت میں شیخ جمال الدین بھی ہندوستان کو چھوڑ حجاز چلے گئے، جب گوشہ نشینوں کے لئے بھی امن باقی نہ رہا۔ تو ترکِ وطن پر آمادہ ہی ہونا تھا۔
آئیے اس زمانے کے حالات پر بھی سرسری نظر ڈال لیں۔ ربیع الثانی ۹۸۲ھ کو اکبر نے عبادت خانہ کی تعمیر کا حکم دیا۔ میاں عبداللہ نیازی سرہندی کے مسکن پر یہ عمارت تیار ہوئی۔ 
ابتداء میں صرف مسلمان علماء واکابر کو اس میں شرکت کی دعوت دی گئی اور مذہب کے مختلف مسائل پر مباحث کی ابتداء ہوئی۔ ان مباحث سے اکبر کا مقصد تلاشِ حق تھا۔ اور اس نے خلوصِ نیت سے دینی معاملات پر معلومات حاصل کرنے کی غرض سے علماء کو مدعو کیا تھا، مگر علماء نے عبادت خانہ کو دنگل میں تبدیل کردیا۔ ایک جس فعل کو حرام کہتادوسرا کسی حیلہ سے اس کو حلال ثابت کردیا۔ اکبر اس ماحول سے گھبرا گیا۔ جن علماء کو وہ رازی اور غزالی کے مرتبے کا سمجھتا تھا، وہ اپنے کردار کے باعث ننگ دیں ثابت ہوئے۔ اس ہنگامہ پر عبادت خانہ کے مباحث بند کردیئے تھے اور مبارک ناگوری نے ایک مختصر نامہ تیار کرکے علماء کے دستخط کرائے اور یہ اعلان کردیا کہ:
’’مرتبۂ سلطان عادل عنداللہ زیادہ بہتر از مرتبۂ مجتہدِ اُمت‘‘
اس کے بعد اکبر کے دینی رجحانات میں نہایت تیزی کے ساتھ تبدیلی واقع ہونے لگی۔ دربار میں ائمہ اسلام کی توہین کی جانے لگی۔ کیش احمدی کہہ کر اسلام کے ارکان دینی کا مذاق اڑایا جانے لگا۔ پھر دین الٰہی کی تدوین کی گئی اور ایک نئے فتنہ کو مذہبی میں شروع کیاگیا۔ ابوالفضل اور فیضیؔ نے اس دینی انتشار وابتری کی رہبری کی۔ شیخ محدثؒ کے فیضیؔ سے ذاتی تعلقات تھے۔ دربار کے یہ حالات دیکھ کر ان کی طبیعت گھبرا گئی۔ اگر زمانہ سازی پر ان کی طبیعت ذرا بھی راضی ہوجاتی تو دولت وثروت اور عزت وحشمت ان کے قدم چومتی۔ لیکن ان کا مذہبی شعور بیدار تھا وہ کسی قیمت پر اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کے لئے تیار نہ تھے۔
اکبرؔ کا سیاسی اقتدار اس منزل پر پہنچ چکا تھا، جہاں مخالف طاقتوں کا نشوونما پانا ناممکن تھا۔ ان حالات میں ترک وطن کے علاوہ کوئی چارہ کار ہی سمجھ میں نہ آیا اور انہوں نے عبرت دینی سے مجبور ہوکر حجاز کی راہ لی۔
جب شیخ عبدالوہاب متقیؒ نے اپنے علوم حدیث کا وہ بیش بہا حصہ عنایت فرمادیا، جن کی شہرت سے مصروعرب کے علمی حلقے گونج رہے تھے۔ تمام کتب احادیث اور سارے علوم دینیہ (حجازکے) علماء سے حاصل کئے۔ خصوصاً شیخ عبدالوہاب متقی رحمۃ اللہ علیہ سے ذکر وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔ حدیث،فقہ، حنفی، تصوف، حقوق العباد۔ یہ چاروں علم بھی انہیں سے حاصل کئے، علم باطن وظاہر کی تعلیم بھی مل چکی اور سلوک ومعرفت کی راہیں بھی طے کرلیں۔ کتب تصوف پڑھنے کے بعد اپنے شیخ کی نگرانی میں حرم شریف میں عبادت وریاضت بھی کرلی، تو ان کے استاد محترم شیخ عبدالوہاب متقی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اب ہندوستان جاؤ۔ اس لئے کہ دہلی تمہاری جدائی میں نالاں ہے۔
زیارت روضۂ پاک صلی اللہ علیہ وسلم:۔ جس وقت حضرت شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ روضۂ پاک پر تشریف لے گئے، ایک طویل قصیدۂ حضور نبی کریم صلی اللیہ علیہ وسلم میں پیش فرمایا، جس کی آخری کڑی یہ ہے ؂
خرابم در غم ہجر جمالت یا رسول اللہ
جمال خود نما، زخمے بجان زار شیدا کن
بے قابو ہوگئے اور خود فرماتے ہیں ؂
’’گریہ زار زار درگرفت‘‘ ( زاد المتقین)
خلوص وعقیدت کا یہ والہانہ تقاضا قبول ہوا۔ اور زیارت رسول پاک صلی اللیہ علیہ وسلم سے مشرف ہوئے اور یہ نعمت عظمت چار مرتبہ نصیب ہوئی۔ ۲۱ ذی الحجہ ۹۹۸ھ کو مکہ معظمہ میں جو خواب دیکھا اس کو اس طرح بیان فرمایا کہ ’’میں نے دیکھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک تخت پر جلوہ افروز ہیں۔ حدیث شریف کا درس دے رہے ہیں۔ جمال وجلال کے انوار بھی رخِ انور پر میں نے مشاہدہ کیا۔‘‘
اسی شب میں یہ بھی دیکھا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اعداء دین سے لڑنے کے لئے لشکر تیار کررہے ہیں۔ شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ کی پوری زندگی اس خواب کی تعبیر بن گئی، وہ آخر سانس تک حدیث کے نشر واشاعت میں سرگرم رہے اور بدعات کے خلاف نبرد آزمائی میں مصروف رہے۔ شیخ عبدالوہاب متقی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے تقاضہ واصرار سے مجبور ہوکر شیخ محدثؒ نے ہندوستان واپسی کا فیصلہ کرلیا۔
آخر۹۹۹ھ کو طائف جاکر ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مزار کی زیارت کی اور رمضان کے آخر تک استاد محترم کے پاس رہے۔ شوال میں عازم ہندوستان ہوئے۔
آنکھوں میں آنسو اور دل میں یہ شعر لئے ؂
حیف در چشم زند صحبتِ یار آخر شد
روئے گل سیر ندیدیم وبہار آخر شد
اس مقدس سرزمین سے رخصت ہوئے۔ جہاں تین سال قبل وہ ایک نہایت والہانہ انداز میں داخل ہوئے تھے اور جہاں ان کو دولت ملی تھی، جس پر دنیا کی تمام دولتیں نثار کی جاسکتی تھیں۔
صحیح مذہبی وجدان، بلندئ فکر ونظر، احساس فرائض ودل درد مند، استاذ محترم نے بوقت رخصت شیخ کبیر عبدالقادر جیلانیؒ کا پیراہن مبارک عنایت فرمایا اور یہ ہدایت فرمائی۔‘‘
’بیکار بنا شیدوازیں جا امداد انوار انشاء اللہ متوالی خواہد بود‘‘ اسی پر شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ پوری عمر عمل پیرا رہے۔ ۱۰۰۰ھ میں شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ ہندوستان واپس آگئے۔
اس وقت ہندوستان کی حالت:۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ اکبر کے غیر متعین افکار نے دین الٰہی کی شکل اختیار کرلی تھی۔ ملک کا سارا مذہبی ماحول خراب ہوچکا تھا۔ شریعت وسنت سے بے اعتنائی ہوگئی تھی۔ ابوالفضل نے آئین اکبری میں اس کے اقوال’’می فرمودند‘‘ کے عنوان سے جمع کئے تھے۔ جگہ جگہ کیشِ احمدی کہہ کر فقہ اسلامی کا مذاق اڑایا گیا تھا۔
حد یہ کہ مدرسے اور خانقاہیں تک اس مسموم اثرات سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ حجاز سے واپسی پر مسند درس شیخ شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ نے دہلی میں بچھادی۔ شمالی ہندوستان میں اس زمانے میں یہ پہلا مدرسہ تھا جو دہلی گیٹ سے آگے،باغ مہندیان کے قریب واقع تھا۔ اس خانقاہ ومدرسہ کا کچھ حصہ انیسویں صدی تک موجود تھا۔ اس مدرسے سے شریعت وسنت کی آواز بلند ہوئی۔ اس مدرسہ کا نصاب تعلیم دوسرے مدرسوں سے مختلف تھا، یہاں قرآن وحدیث کو تمام علوم دینی کا مرکز نقطہ قرار دے کر تعلیم دی جاتی تھی۔
درس وتدریس کا یہ ہنگامہ شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک برپا رکھا۔ ان کا مدرسہ دہلی ہی میں نہیں۔ سارے شمالی ہندوستان میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ سینکڑوں کی تعداد میں طلباء استفادہ کے لئے جمع ہوتے تھے اور بہت سے اساتذہ تدریس کا کام انجام دیتے تھے۔
شیخ محدثؒ کا یہ دارالعلوم اس طوفانی دور میں شریعت اسلام اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی پشت پناہ تھی۔ گمراہی کے بادل چاروں طرف منڈلاتے۔ مخالف طاقتیں اس کے بام ودر سے آکر ٹکرائیں، لیکن شیخ محدثؒ کے پائے ثبات میں ذرا بھی جنبش نہ ہوئی۔ ان کے عزم واستقلال نے وہ کام انجام دیا، جو ان حالات میں ناممکن نظر آتا تھا۔ مگر شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ جس طرح خود شب وروز کام میں مشغول رہتے تھے۔ اپنے عقیدت مندوں کے لئے بھی یہی چاہتے تھے کہ وہ بے کار نہ بیٹھیں وقت کی قدر کریں اور سرگرم عمل رہیں اور اس عمل کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالیں۔
شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ کا عظیم ترین کارنامہ:۔ شیخ محدثؒ نے جب آنکھ کھولی تو مہدوی تحریک پورے عروج پر تھی۔ علماء گجرات وغیرہ جتنا ہی اس تحریک کی مخالفت کرتے تھے، اتنا ہی وہ ترقی کرتی تھی۔ تھوڑے ہی عرصہ میں ہزاروں آدمی اس کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگئے اور متعدد سلاطین وقت نے ان مہدیوں سے بیعت کی۔ درحقیقت سید محمدجونپوری کی یہ تحریک احیاسنت واعانت بدعت کے لئے وجود میں آئی تھی۔ لیکن یہ اپنے اصلی رنگ میں زیادہ دن تک نہ رہ سکی۔ اور مہدویت کا تصور اسلام کے ایک بنیادی اُصول ختم نبوت سے ٹکراگیا۔ اور علماء اسلام مثلاً شیخ علی متقی وشیخ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس کی مخالفت پر کمربستہ ہوئے۔
اگر سولہویں، ۱۷؍ ویں صدی عیسوی کی مختلف مذہبی تحریکوں کا بغور مطالعہ کیاجائے تو یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ اس زمانہ کا سب سے اہم مسئلہ پیغمبراسلام کا صحیح مقام اور حیثیت متعین کرنا تھا۔ تصور امام، عقیدۂ مہدویت، نظریہ الٰہی، دین الٰہی، یہ سب تحریکیں پیغمبراسلام کے مخصوص مقام ومرتبہ پر کسی نہ کسی طرح ضرب لگاتی تھیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پیغمبراسلام خاتم النبین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلیٰ وارفع مقام کی پوری طرح وضاحت کردی اور اس سلسلہ کی ہرہرگمراہی پر شدت سے تنقید کی۔ صرف اسی پر اکتفا نہ کیا، انہوں نے اپنی تصنیفات میں جگہ جگہ ہم عصر مشائخ کو ان کے فرائض سے انہیں آگاہ کیا۔ اور بتایاکہ شیخ کے لئے ضروری ہے کہ مریدوں کی باطنی اصلاح کو اپنی زندگی کا سب سے بڑاکام سمجھ کر انجام دے۔ مدارج النبوۃ کی تصنیف سے شیخ کا مقصد یہ تھا کہ عہد اکبر کے فتنوں کا سدباب کیاجائے۔ عہد اکبری کا ایک زبردست فتنہ نظریہ القی تھا۔ یہ خیال عوام میں پھیلایاجارہا تھا کہ اسلام کی مدت صرف ہزار سال تھی۔ اس مدت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ احکام اسلامی اور شریعت اسلامی کے اتباع کی ضرورت بھی ختم ہوگئی۔ شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ نے نہایت شدومدت، قوت واستقلال کے ساتھ اس غلط نظریہ کے تردید کی اور بتایا کہ احکام اسلام ہر زمانے اور ہر قوم کے لئے ہیں۔ ان کے لئے زبان ومکان کی پابندی بے معنی ہے۔ باقاعدہ نبوت کا دعویٰ ممکن ہے کہ اکبر نے نہ کیا ہو۔ لیکن اس نے جو حیثیت اختیار کرلی تھی، وہ نبوت کے دعویٰ سے کم نہ تھی۔
مدارج النبوۃ میں ایک باب ’’حقوق آں حضرت‘‘ پر ہے۔ پس ایمان بہ محمد واجب ومتعین است وتمام نمی شود حقیقت ایمان وصحیح نمی شد اسلام وحصول نمی پذیر دیگر بایمان بہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وشہادت برسات دے‘ (مدارج ۳۲۲،۱۸۰)
اس اعلان سے اکبری دور کی اس گمراہی کا سدباب مقصود تھا کہ لوگ تکمیل ایمان صرف وحدانیت پر اعتقاد رکھنے کو سمجھتے تھے۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور شریعت، مذہب اور ایمان کے لازمی جز نہیں ہیں۔ اس گمراہ کن عقیدہ میں زمانہ مبتلا تھا۔
شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف کا اگر بغور مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے بھی اس گمراہی کی نشاندہی کی ہے جس کے خلاف مدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے آواز اٹھائی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں نے ایک ہی بات کہی ہے لیکن مختلف انداز میں۔ پھر مجدد صاحب کے یہاں انقلابی جوش، سخت گیری اور برہم زنی کے نعرے ہیں تو شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں بھی ماحول سے سخت نفرت اور احیاء سنت کا غیر معمولی جذبہ ہے۔
شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ نے عہد اکبری کے بعض مشہور اعیاق وامراء سلطنت کو امانت، بدعت اور احیاء سنت پر آمادہ کیا۔ عبدالرحیم خان خاناں اور نواب مرتضیٰ خاں کے نام ان کے مکتوبات ان کے جذبات کے آئینہ دار ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ملت کی پریشان حالی نے ان کے قلب وجگر پر بہت گہرا اثر کیا تھا اور وہ اپنے مخصوص انداز میں امراء کی غیرت دینی کو جوش دلاتے تھے، ان کے خطوط میں ایک بے چین اور مضطرب قلب کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔
معاصرین شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ:۔ (۱) شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی
ان میں اور شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ میں بڑی محبت ومودت تھی۔ دونوں ایک ساقی (خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ) کے دَر کے بادہ خوار تھے۔ دونوں کی زندگی کا مقصد احیاء ملت وترویج سنت وشریعت تھا۔
عارضی طورپر جو نظریات میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مقصد کی وضاحت کی۔ اور ان کے متعلق سب شبہات دور ہوگئے، تو شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ کی رائے بھی بدل گئی۔ ان کا اختلاف نیک نیتی اور تحفظ شریعت پر مبنی تھا۔ چنانچہ شکوک وشبہات رفع ہونے کے بعد انہوں نے نہایت وسعت قلب کے ساتھ حضرت مجدد رحمۃ اللہ کے کارناموں کا اعتراف کیا اور ان کے آپس کے رابطۂ خط وکتابت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان میں اور شیخ محدث رحمۃ اللہ علیہ میں بے حد خلوص اور یگانگت کے تعلقات تھے۔ یہی نہیں بلکہ مدد صاحب رحمۃ اللہ ان کے وجود کو اس دور میں ایک نعمتِ عظمیٰ سمجھتے تھے اور ان کی روحانی صلاحیتوں کے معترف تھے۔
(۲)حضرت شاہ ابوالمعالی قادری: حضرت شیخ محدث ؒ ان سب روحانی رہنمائی اور دعاؤں کے ملتجی رہتے تھے۔ ان کی اصلاح وتربیت سے بھی شیخ محدث ؒ کو حصہ وافر نصیب ہوا تھا،(۳)میاں عبداللہ نیازی، (۴)نواب مرتضیٰ خاں شیخ فرید، (۵)عبدالرحیم خاں خاناں،(۶)فیضی جو ابوالفضل کا بڑا بھائی تھا،(۷)ملا عبدالقادر بدایونی،(۸)مرزا نظام الدین احمد بخشی ،(۹)میر سید طیب بلگرامی، (۱۰)محمد غوث شطاری، تلک عشرۃ کا عنہ۔ یہ سب حضرت شیخ محدث ؒ کے معاصرین ہیں۔ ان کے حالات وکردار کے لحاظ سے شیخ محدث ؒ نے ان سے رابط ضبط بھی رکھا۔
بیعت واردات: شیخ محدث ؒ نے اولا اپنے والد محترم سے پھر حضرت سید موسیٰ گیلانی سے اور پھر اپنے استاذ محترم عبدالووہاب متقی سے بیعت ہوئے تھے اور پھر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے روحانی اشارے پر حضرت خواجہ باقی باللہ کے دست حق پر ست پر بیعت ہوئے۔ شیخ محدث ؒ کو مندرجہ ذیل اسلاسل کی خدمات ملی تھیں۔ (۱)قادریہ، (۲)چشتیہ،(۳)شاذلیہ،(۴)مدنیہ،(۵)نقشبندیہ۔ لیکن ان کا قلبی تعلق سلسلہ قادریہ سے تھا۔ ان کی عقیدت واردات کے مرکز شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی ؒ تھے۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی وطنا البخاری ، اصلاً الترکی، مسلکاً حنفی، مشرباً القادری طریقۃ، (۱۴۳۲،۷۳)
شیخ محدث اور شاہان وقت: شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ سلیم شاہ سوری کے عہد میں پیدا ہوئے اور شاہ جہاں کے سنہ جلوس میں وصال فرمایا۔ اس مدت میں آٹھ فرمانبرواد ہلی کے تخت نشین ہوئے۔(۱)اسلام شاہ، (۲)مبریز شاہ،(۳)ابراہیم شاہ،(۴)احمد خاں سکندرشاہ، (۵)ہمایوں، (۶)اکبر، (۷)جہانگیر،(۸)شاہجہاں۔
آخر کے تین بادشاہوں کو شیخ محدث ؒ نے اچھی طرح دیکھا۔ اور ان کے حالات کا بغور مطالعہ کیا تھا اور اکثر شاہان وقت سے علیحدہ رہتے تھے اور فرماتے تھے ؂
حقیؔ از گوشۂ دہلی نہ نہم پابیروں 
خود گر فتیم کہ ملک گجراتم دادند
نوبت یہاں تک پہنچی کہ اکبری عہد میں جب ملت کی پریشاں حالی اور ابتری کا دل پر اثر ہوا، تو حجاز چلے گئے۔ مجبوراً اپنے شیخ کے اصرار پر ہندوستان واپس آئے اور گوشۂ نشینی اختیار کرلی۔
جب اکبر کا انتقال ہوا تو انہوں نے جہانگیر کو بہ معرفت شیخ فرید ایک پر معنی خط لکھا۔
عہد اکبری کی مذہبی بدحالی سے دل تو مجروح ہوگیا تھا، جہانگیر کی تخت نشینی کے وقت انہوں نے ضروری سمجھا کہ نئے بادشاہ کو اس کے فرائض اور پابندیوں سے آگاہ کیا جائے۔چنانچہ انہوں نے قواعد واردکان سلطنت پر مشتمل ایک رسالہ تصنیف فرمایا۔ بعد میں شاہجہاں کیلئے ’’ترجمۃ الاحادیث الدابعین فی نصےۃ الملوک والسلاطین‘‘لکھا۔
اکبر کے انتقال کے بعد انہوں نے ضروری سمجھا کہ شاہاں سے تعلقات رکھے جائیں تاکہ دنیا کی صحیح تعلیم ان تک پہنچ سکے۔ ممکن ہے کہ یہ رویہ خواجہ باقی باللہ کی تعلیم سے اختیار کیا ہو کیونکہ خواجہ صاحبؒ کااصول یہ تھا کہ جھونپڑوں سے لے کر محلوں تک تلقین وار شاد کا ہنگامہ برپا کیاجائے۔ اور علیحدگ�ئ سلاطین کے بجائے ان کو متاثر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
جہانگیر کے ۱۴؍جلوس سے شیخ محدثؒ بادشاہ سے ملاقات کیلئے دربار میں بھی تشریف لے گئے۔
وصال: ۲۲ ؍ربیع الاول شریف ۱۰۵۲ھ کو یہ آفتاب رشد وہدایت جس نے چورانوے سال تک سرزمین ہند پر علمی ضو فشانی کی، غروب ہوگیا۔
انا للہ وانا الیہ رٰجعون
تاریخ ولادت شیخ اولیاء اور تاریخ وفات فخر عالم تھی۔ ان کی وصیت کے مطابق (مہرولی شریف) میں حوض شمسی کے کنارے ہی ان کو سپر د خاک کیا گیا۔رحمتہ اللہ تعالیٰ رحمتہ واسعۃ ۔
درگاہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کے مختصر حالات 
جیسا کہ آپ واقف ہیں درگاہ شریف شہنشاہ جہاں کے فوجی سپہ سالار مہابت خاں نے تعمیر کرائی تھی اس کے بعد حضرت شیخ کے خاندان کے لوگ مستقل طور پر پابندی سے سالانہ عرس شریف کا اہتمام کرتے آئے ہیں۔ 1857ء میں انگریزوں نے حضرت شیخ کے مدارس ومکانات نہ صرف مسمار کئے بلکہ خاندان کے لوگوں کو بھی پریشان کیا اور دشواریاں پیدا کی۔1947ء کے ہنگامی حالات کے بعد درگاہ شریف غیر آباد ہوگئی اور درگاہ شریف مقفل کردیا گیا جو لوگ درگاہ شریف پر حاضری دینے جاتے تھے وہ باہر سے ہی فاتحہ پڑھ کر چلے آتے تھے۔1977ء میں دہلی کے ڈپٹی مےئر حضرت مولانا امداد صابری اور مرکزی وزیر محترم جناب سکندر بخت صاحب دونوں نے اپنی کوششوں سے درگاہ شریف کو کھلوایا اور سالانہ عرس شریف کا اہتمام کیا۔ 1978ء سے میرے بڑے بھائی ضیاء الحق سوز حقی مرحوم نے درگاہ کاانتظام سنبھالا۔ درگاہ کے اعتراف میں حضرت شیخ کا خاندانی قبرستان تھا اور باغات تھے، کچھ لوگوں نے پٹواریوں سے ملک کر ریونیو کے ریکارڈ میں اپنا جھوٹا قبضہ درج کرالیا اور فردیں دکھا کر قبرستان کو فروخت کرنے لگے اور کچھ لوگوں نے درگاہ شریف کے اندر بھی قبضہ کرلیا۔ تقریباً پچاس لوگوں کے خلاف پولیس اور دوسرے محکموں میں شکایت کی گئیں اور کچھ لوگوں کے خلاف پولیس اور دوسرے محکموں میں شکایت کی گئیں اور کچھ لوگوں کے خلاف دیوانی مقدمات اور فوجداری کے مقدمات بھی درج کرائے گئے،بڑی مشکلوں سے لوگوں کو درگاہ سے باہر نکالاگیا، کچھ موقعوں پر مجھے اپنی جان کا خطرہ بھی مول لینا پڑا۔ درگاہ شریف کی مرمت کرائی گئی، باؤنڈری وال قائم کی گئی، بجلی اور پانی کا انتظام کیا گیا۔ وقف بورڈ کے گزٹ میں صرف مقربہ ہی گزٹ تھا اس کا رقبہ بھی صرف سوگز دکھایا گیا۔ آج ماشاء اللہ درگاہ دوہزار گز(2000)میں ہے۔ مسجد تعمیر کرائی گئی جس میں الحمداللہ پانچوں وقت نماز ہوتی ہے اور جمعہ کی نماز کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہر سال پابندی سے ۲۲؍ ربیع الاول شریف کو عرس کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں پورے ملک سے علماء صوفیائے کرام وسجادگان شریک ہوتے ہیں۔ 
نوٹ: درگاہ کے سارے اخراجات شیخ عبدالحق محدث دہلوی اکیڈمی برداشت کرتی ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی اکیڈمی حضرت شیخ کی تصانیف بھی شائع کرتی رہتی ہے۔ درگاہ شریف میں سالانہ عرس شریف سمینار وروزہ افطار وغیرہ کا بھی انعقاد کرتی رہتی ہے اور درگاہ شریف میں بچوں کو دینی تعلیم کا بھی درس دیا جاتا ہے۔ 
سالانہ پروگرام 
درگاہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے سالانہ پروگرام 
ہر سال ۲۲؍ ربیع الاول شریف کو حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کا عرس مبارک پورے اہتمام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جس میں پورے ملک سے علماء کرام، سجادگان، صوفیاء کرام شریک ہوتے ہیں۔ عرس شریف میں تبرک ولنگر کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ 
مسجد میں پابندی کے ساتھ نماز ادا کی جاتی ہے۔ 
شب برأت میں دینی اجتماعی ہوتا ہے۔
رمضان شریف میں روزہ افطار کا اہمتام کیا جاتا ہے۔
رمضان المبارک میں ختم قرآن پاک کا اہتمام کیاجاتا ہے۔ اکیڈمی کی طرف سے۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی غیر مطبوعہ تصانیف چھپوائی جاتی ہیں۔ اور ہر سال عرس کے موقع پر مجلہ کی بھی اشاعت کی جاتی ہے۔
درگاہ کی مرمت وغیرہ کرائی گئی ہے اور حضرت کے مقبرہ کو خوبصورت بنانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔
تین سوگز میں مسجد تعمیر کرائی گئی۔
پانی کی بورنگ وغیرہ کرائی گئی۔
بجلی کا انتظام کیاگیا۔
وضو کے لئے پانی کا حوض بنوایا گیا۔
پوری درگاہ کے باؤنڈری وال کروائی گئی۔
600 گز کا پلاٹ جس پر لوگ ناجا

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا